Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کیخلاف امریکہ کی نازیبا زبان

ہماری قوم ملک کا دفاع کرنے میں مہارت رکھتی ہے، کاش افغانستان کو سمجھا جائے کہ وہ طالبان کو قابو کرے
* * * صلاح الدین حیدر* * *
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا فرمان ایسا نہیں کہ اُسے من و عن، بلاچون و چرا تسلیم کرلیا جائے۔ اُنہوں نے ورجینیا میں 22 اگست کو پاکستان کے خلاف نہ صرف نازیبا الفاظ استعمال کیے بلکہ غور سے دیکھا جائے تو پوری پاکستانی قوم کی بے عزتی کر ڈالی۔ فرماتے ہیں کہ اُن کے ملک نے پاکستان میں اربوں ڈالر صرف کردیے مگر پھر بھی اسلام آباد دہشت گردوِں کی پشت پناہی ہی نہیں کررہا، بلکہ اُنہیں پناہ بھی دے رکھی ہے۔ کاش کوئی اُنہیں سمجھادے کہ امور مملکت کیسے چلائے جاتے ہیں۔ مجھے تو ٹرمپ بدحواسی کا شکار لگتے ہیں، جنہیں خود ہی پتا نہیں کہ کہہ کیا رہے ہیں اور اُس کا مطلب کیا ہوتا ہے یا اسے دُنیا کس طرح لے گی۔ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے، اپنی مرضی کا مالک۔
ہم اپنی حکومت اچھے طریقے سے چلاتے ہیں یا بُرے طریقے سے، یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، کسی کو اس میں بولنے یا مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں، نہ ہی کوئی اس کی اجازت دے گا۔ پاکستان تو پھر بھی 21 کروڑ نفوس کا ملک ہے، سوئٹزرلینڈ جیسے چھوٹے یا یورپ میں پائے جانے والے ممالک، جن کی آبادی محض چند کروڑ ہے، بھی اپنے طرز حکومت میں بیرونی مداخلت برداشت نہیں کرتے، اُسے چھوڑیں۔اکثر کسی بے بس ملک کو ’’بنانا ری پبلک‘‘ سے تشبیہہ دی جاتی ہے، ہمارے ملک میں بھی جب کوئی حکمران طبقہ عوام النّاس کے اختیارات، اُن کی ضروریاتِ زندگی کا خیال نہیں رکھتا یا نظرانداز کردیتا ہے تو بے شمار مخالفین حکومتِ وقت کو طعنہ دیتے ہیں کہ اُنہوں نے ملک کو کیا بنانا ری پبلک سمجھا ہے، جو ایسے اقدامات کرتے ہیں جس سے لوگوں میں بے چینی پیدا ہو یا جسے تسلیم نہ کیا جاسکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ پاکستان کو اپنا رویہ بدلنا پڑے گا اور یہ تبدیلی فوری طور پر آنی چاہیے، ہماری مملکت اسلامیہ پاکستان کے لیے کھلی دھمکی ہے، ہم ان چیزوں سے اچھی طرح واقف ہیں، امداد بند کردینے کی دھمکی سے ہمارے کان بخوبی آشنا ہیں، ایسی دھمکیاں بلکہ اُن پر عمل درآمد بھی ہم بڑا دیکھ چکے ہیں۔ غالب کے ایک شعر کا آدھا مصرع ہی کافی ہے پاکستانیوں کے جذبات کی عکاسی کے لیے کہ ع: بڑا دیکھی ہیں اُن کی رنجشیں۔ بہت دُور کیوں جائیں پچھلے پچاس سال کی تاریخ پر نظر ڈال لینا ہی کافی ہوگا۔ 1962 میں پاکستان نے چین سے سرحدوں کے تحفظ کا معاہدہ کیا، ہماری امداد بند ہوگئی۔
پاکستان امریکی دفاعی معاہدے سیٹو اور سینٹو کے تحت امریکا کا اتحادی تھا، ہمیں حربی، عسکری یا ملٹری ساز و سامان بھی قریباً سو فیصد امریکی ہی ملتا تھا، F-86، F-104 طیارے، Patton ٹینک یا گولہ بارود سب ہی امریکی فوجی امداد کے تحت ملتا تھا لیکن پاکستان ، ہند کی 1965 ء میں جنگ ہوئی، تو ہم پر ان اسلحوں کو استعمال کرنے پر پابندی لگادی گئی۔ کہا گیا کہ یہ صرف آپ کو روس یا چین کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ گویا ہم انگریزی تسلط سے 1947 ء سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود بھی بیرونی آقاؤں کے غلام تھے۔ پھر پریسلر امینڈمنٹ کے تحت ہم پہ برسوں سامان حرب خریدنے پر پابندی عائد رہی۔ 1971 ء کی جنگ میں ہند نے روس کی مدد سے شکست فاش دی، لیکن امریکہ بہادر چپ سادھے تماشا دیکھتا رہا۔ آخر میں جب ہم سقوط ڈھاکہ کے بعد اسلامی تاریخ کی دوسری بڑی شکست سے دوچار ہوئے، تو اُس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن نے ساتواں بحری بیڑا پاکستان بھجوانے کا اعلان کر ڈالا۔
ہمیں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ساتواں امریکی بحری بیڑا پاکستان کی حفاظت کیلئے بھیجا جارہا ہے، حالانکہ مقاصد اس کے بالکل برعکس تھے۔ امریکی نیوی کا طاقتور بیڑا چین کو وارننگ تھی کہ خبردار جوہند، پاکستان کی جنگ میں کودنے کی کوشش کی۔ کلنٹن کے دورِ حکومت میں پریسلر امینڈمنٹ کا خاتمہ ہوا، جس کی راہ بہت بڑی حد تک بے نظیر بھٹو نے اپنے دورِ اقتدار میں ہموار کردی تھی۔ ٹرمپ صاحب! آپ تو اپنے لوگوں کی نظروں میں اس حد تک گر چکے ہیں کہ آپ کا اپنا میڈیا، ریڈیو، ٹیلی وژن، اخبارات آپ کا مذاق اُڑانے لگے ہیں، سی این این دیکھ لیں۔ وہ روز آپ کی حکمت عملی پر پھبتیاں کستا ہے۔ نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ آپ کی حرکت سے نالاں نظر آتے ہیں۔ آپ کے اب تک آدھے درجن سے زیادہ ساتھی یا تو آپ کی حکومت سے مستعفی ہوچکے ہیں یا آپ نے خود ہی اُنہیں بدعقل سمجھ کر فارغ کردیا۔
ٹرمپ نے ہند کی تعریف میں پل کے پل باندھ دیے اور اُسے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی حفاظت میں حصّہ بھی دے دیا مگر وہ یہ بھول گئے کہ مودی کی سرکار حقوق انسانی مانگنے والے کشمیریوں پر کس قدر ظلم و ستم کررہی ہے، کہاں گئے وہ اصول انسانی حقوق جس کے لیے امریکا دُنیا میں شہرت رکھتا ہے؟ آپ سے پہلے سابق صدر جارج بُش سینئر اور جونیئر نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی، ایک پھلتا پھولتا ملک، تیل کی دولت سے مالا مال، آج تک اپنی بے بسی پر رورہا ہے، یہی حال امریکہ نے لیبیا کا کیا۔ افغانستان میں ساری امریکی پالیسیاں فیل ہوگئیں، بجائے اس کے کہ آپ اپنے گریبان میں منہ ڈالتے، آپ نے فوراً ہی پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام تھوپ دیا۔ یہ کون سی عقل مندی ہے، ہماری سمجھ میں تو آتا نہیں، آپ خود ہی سمجھادیں، یا وائٹ ہائوس اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے افسران بالا ہمیں بتادیں کہ آپ نے کہاں کامیابی حاصل کی؟ افغانستان میں ابھی تک 4 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں، لیکن وہ تو اشرف غنی کے صدارتی محل کی حفاظت تک ہی محدود ہیں، آج بھی 40 فیصد سے زیادہ افغانستان کا علاقہ طالبان کے زیر اثر ہے۔ یہی حقائق تو آپ کو ازبر ہونے چاہیے تھے۔ اگر نہیں معلوم تو امریکی وزارت خارجہ سے پوچھ لیتے۔
اب آپ کو مزید امریکی فوج افغانستان میں بھیجنے کی کیوں سُوجھی، ظاہر ہے آپ کا مقصد ’’ہند کیسے بڑی منڈیوں پر قابض ہو‘‘ ہے، جہاں امریکی سامان جنگ اور امریکہ میں بننے والی اشیائے صرف بیچی جاسکیں۔ اتنا تو آٹھویں جماعت کا طالب علم بھی آپ کو بتادے گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کے وزیر دفاع Mattis نے آپ کو کیا سمجھایا ہے، لیکن یہ بھول جائیں کہ دُنیا میں آج تک نہ Sanctions یا امداد کی کٹوتی کامیاب ہوئی ہے نہ ہی آئندہ کبھی ہوگی۔ آپ ایران کو جوہری طاقت بننے سے نہیں روک سکے۔ شمالی کوریا نے میزائل بنا ڈالے اور آپ کو چیلنج کررہا ہے کہ ہمارے قریب آکر دیکھو، کیا مزا آئے گا۔ آپ کی ہمت تو اب تک نہیں پڑی کہ شمالی کوریا یا ایران کو سبق سِکھا سکھیں، اس لیے کہ آپ کو بخوبی علم ہے کہ آج ہر ملک اپنے عوام کی طاقت پر انحصار کرتا ہے اور بیرونی مداخلت بلکہ اُن کے احکامات تو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا۔ پاکستانی وزیر دفاع اور وزارت دفاع نے فوری جواب تو آپ کو دے ڈالا، لیکن وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے تحت کام کرنے والی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس بھی بلاڈالا ہے کہ آپ کو خصوصی جواب دیا جائے۔ یہ کیا جواب ہوگا وہ آپ بھی جانتے ہیں اور پاکستانی عوام بھی۔ یہ جواب صرف اور صرف جواب در جواب ہوگا۔
پاکستان اپنی قومی خودمختاری کو دائو پر لگانے والا نہیں، اُس نے ایسی امداد بند کرنے کی دھمکیاں بہت سنی ہیں اور نظرانداز کردیا۔ پاکستان کمزور ہونے کے بجائے مزید طاقتور ہوتا چلا گیا۔ آپ نے اسلامی ایٹم بم کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگالیا۔ ہوا کیا وہی جو پاکستانی عوام چاہتے تھے۔ پاکستان آج دُنیا کا ساتواں ایٹمی جوہری اسلحے سے لیس ملک اور اسلامی دُنیا کا پہلا اور واحد ملک ہے جس کے پاس ایٹمی طاقت موجود ہے۔ ہماری افواج ایئرفورس، نیوی اور آرمی یہ ہتھیار خدانخواستہ ضرورت تو نہیں پڑے گی، لیکن اگر ملکی سلامتی پر بات آگئی تو پاکستان اب آپ کے حکم پر نہیں چلے گا، یہ ایک آزاد ملک ہے، 20 کروڑ عوام کا وطن جنہیں بینکنگ بھی آتی ہے۔سائنس دان بھی اس کے پاس موجود ہیں، جدید اسلحے سے لیس ہے، ہماری قوم جنگ کے معنی اور مطلب سمجھتی ہے۔ملک کا دفاع کیسے کیا جائے اس میں مہارت رکھتی ہے۔ سب سے زیادہ اہم یہ کہ اس کے عوام باشعور ہیں۔ ڈاکٹرز، انجینئرز، اکاؤنٹنٹس، مل مالکان، بزنس مین سب ہی اپنے فن سے پوری طرح واقف ہیں۔ وہ کسی کے آگے سر جھکانے والے نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ضرور ہماری امداد بند کردیں، ایک درجن سے زیادہ ممالک ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمیں امریکی امداد کی ضرورت نہیں۔ یہ بات آپ کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے، آپ ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے، وہ آپ جانیں، ہمیں اپنی آزادی عزیز ہے اور رہے گی۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ ایک بات اور کاش آپ افغانستان کو سمجھاتے کہ وہ طالبان کو قابو کرے۔ افغانستان تو اس کا اہل ہی نہیں ہے، آپ لاکھ اپنی فوج وہاں رکھیں، ہمیں دھمکیاں دیں، کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔

شیئر: