Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ دلہن ہمارا خیال کرتی ہے مگر ہم توجہ نہیں دیتے

 کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارا وطن بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح صاف ستھرا ہو
عنبرین فیض احمد۔ ریاض
پاکستان کے شہروں کی دلہن عروس البلاد کراچی روشنیوں کا شہر کہلانے والا اس کی چکا چوند روشنیاں نجانے کہاں گم ہو کر رہ گئیں۔ اس کی چمک دمک کھو جانے کی وجہ سے جگہ جگہ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر ہیں۔ گلی محلوں میں کچرے کے ڈھیروں اور ان سے اٹھتا تعفن عوام کی زندگی اجیرن کر رہا ہے۔ اکثر چھوٹی بڑی شاہراہوں پر بھی جا بجا کچرے کے انبار سے راہگیروں اور ٹریفک کی روانی میں بھی کافی دشواری پیدا ہوتی ہے۔ یہی نہیں یہ شہریوں کی صحت کے لئے بھی کافی خطرے کا باعث بن چکے ہیں اس کی وجہ سے اکثر لوگ سانس کی بیماریوں اور مختلف قسم کے امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ شہر میں اور بھی کئی ناسور ہیں جو شہریوں کے لئے وبال جان بنے ہوئے ہیں ۔ دہشت گردی ، بھتہ خوری ، رشوت خوری اور غیر قانونی اسلحے کا استعمال اور سڑکوں پر لوٹ مارکا سلسلہ عام ہو چکا ہے۔ جس کی وجہ سے شہریوں کا امن و سکون تہ و بالا ہو چکا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس شہر کی آبادی اب گروہوں میں بٹ چکی ہے، عوام کے ہاتھوں میں ہتھیار ہیں، ان کے باعث خاندانی جھگڑوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔بعض لوگ ذرا ا سی بات پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ایسا لگتا ہے جیسے یہ لوگ قانون نام کی کسی شے سے آشنا نہیںجس کا جو دل کرتا ہے وہ کرگزرتا ہے۔ سڑکوں پر کوئی نظم وضبط نظرنہیں آتا۔ دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے طور پر آزاد ہے۔ ہر کوئی اپنی مرضی کا مالک ہے۔ ان حالات میںکوئی پرسان حال نہیں اور نہ ہمارے ذمہ داران کو کوئی خاص دلچسپی دکھائی دیتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کراچی پاکستان کا دل ہے جس میں مختلف قومیتوں کے لوگ بستے ہیں لیکن کیا کیاجائے، مختلف قومیتوں کا یہ گلدستہ بے رونق ہوتا جا رہا ہے ، شہر قائد کی رنگینی اور خوشبو ماند پڑتی جا رہی ہے کیونکہ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ، ابلتے گٹر ، نکاسی آب کاگندہ پانی ہی اب اس شہر کی پہچان بن چکا ہے۔ صاحبان کو کوئی غرض نہیں کہ شہریوں کو کس کس طرح کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ وہ تو بس اپنی ہی دھن میں مگن دکھائی دیتے ہیں۔ 
سچ یہ ہے کہ گندگی پاکستان کے ہر شہراور خاص طور پر کراچی کا بنیادی مسئلہ بن چکی ہے کیونکہ اس شہر میں آبادی زیادہ ہے لہٰذا گندگی بھی زیادہ پیدا ہوتی ہے چنانچہ سب سے زیادہ متاثر بھی شہر قائد کے شہری ہی دکھائی دیتے ہیں جس کی آبادی اڑھائی کروڑ ہے جسے ہم منی پاکستان بھی کہتے ہیں۔ پاکستان کے ہر شہر، ہر گاوں سے، ہر قصبے سے لوگ اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔ وہ اپنی روزی روٹی کے سلسلے میں یہاں آتے ہیںاورروزگار تلاش کر تے ہیں۔ یوں کہنا چاہئے کہ شہر قائد نے ہر آنے والوں کو اپنی آغوش میں سمیٹ رکھا ہے جیسے ایک ماں اپنے بچوں کا خیال کرتی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ کراچی، عروس البلاد، یہ دلہن ہمارا خیال کرتی ہے مگر ہم شہری اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے ، اس کا بالکل خیال نہیں کرتے۔ نہ اس کی صفائی ستھرائی کی طرف دھیان دیتے ہیں اور نہ ہی اس کی سجاوٹ پر توجہ کرتے ہیںبلکہ روز بروز اس کی گندگی میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اس شہر کے اکثر علاقوں میں گٹر ابلتے ہیں جن کے باعث اکثر سڑکیں ندی نالے کا نقشہ پیش کرتی ہیںان کے باعث شہریوں کو کڑے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ سیوریج کی لائن میں کچرا پھنس جانے سے اس کا نکاسی کا نظام بھی درہم برہم ہو جاتا ہے اور گندہ پانی گھروں کے نلکوں میں داخل ہوجاتا ہے جبکہ گندے پانی کے استعمال سے بیماریاں بھی پھیلتی ہیں جن میں گھر کے بچے اور بزرگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ 
ہم میں سے ا کثر لوگ اپنے گھروں کو آئینے کی طرح چمکا کر رکھتے ہیں مگر گھر کا کچرا لے جا کرسڑک کے کنارے پھینک دیتے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی کچرے کا پہاڑ بنا ہوا ہے۔ لوگ شہر قائد کے دامن کو گندہ کرتے ہیں اورپھر خود ہی ان کچرے کے ڈھیر کا رونا روتے ہیں ،یہ کہاںکی عقلمندی ہے، کہاںکا انصاف ہے کہ گھر کو صاف ستھرا رکھیں اور گلی محلوں کا خیال نہ کریں بلکہ کچرا پھینک دیںجس سے اٹھتا تعفن علاقہ مکینوں کے لئے وبال جان بن جائے۔ 
صفائی ستھرائی صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ عوام کی بھی ذمہ داری ہے۔ ہمیں چاہئے کہ جگہ جگہ کچرا نہ پھیلائیں بلکہ شہر قائد کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کریں۔ یہ ملک ہم سب پاکستانیوں کا ہے ۔ دھنک کے صفحے پر دو تصاویر دکھائی گئی ہیں۔ پہلی تصویر میں یہ دکھایا گیا ہے کہ عروس البلاد کراچی کے طالب علموں کو ایک مہم سونپی گئی ہے ،جس کا عنوان ہے” میں کراچی ہوں“ جس کے تحت ان طالب علموں کو اپنے شہر کی صفائی او ردرودیوار کو خوبصورت بنانے کا کام دیا گیا ہے لہٰذا طالبات اپنی حسین نقش و نگاری سے دیواروں کو خوبصورت بنانے کی کوشش کر رہی ہیں تا کہ وہاں سے گزرنے والے لوگوں پر ایک خوشگوار تاثر پڑے اوروہ تھوڑی دیر کےلئے ہی سہی ،یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ کاش ہمارا سارا وطن ایسا صاف و شفاف ہو جائے اور خوبصورت دکھائی دینے لگے مگر ساتھ ہی دوسری تصویر میں جا بجا کچرے کے انبار، ابلتے گٹر اور پھر گندگی کے ڈھیر ، کراچی ملک کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے جو ملک کی مجموعی آمدنی کا 70فیصد پیدا کرتا ہے ۔ وہاںکی زبوں حالی دیکھ کر دل بہت رنجیدہ ہوجاتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ صفائی ستھرائی کسی بھی حکومت کی اولین ترجیحات ہونی چاہئے تھی چنانچہ یہا ںاتنی بڑی آبادی میں کتنا کچرا روزانہ کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہوگا ا، س کو ٹھکانے لگانے کا انتظام سب سے پہلے ہونا چاہئے تھا لیکن افسوس یہاں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ یہاں تو حکومت کی ترجیحات کچھ او رہی دکھائی دے رہی ہیں۔ ان غلاظت کے ڈھیروں کی وجہ سے لوگوں میں طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارا وطن بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح صاف ستھرا ہو۔ اس کی فضا ہر طرح کی آلودگی سے پاک ہو مگر افسوس کہ ہمارے صاحبان کو ان سب باتوں سے کوئی سروکار نہیں ۔ ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ ہمارے ذمہ داران کو معلوم ہی نہیں کہ ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔
 
 
 
 

شیئر: