صاحبِ احرام ہر نجاست سے، ہر کدورت سے، ہر رذیل اخلاق سے پاک وصاف ہونے کا عزم کر تا ہے
* * * ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ۔مکہ مکرمہ* * *
رحمن کے مہمانِ گرامی قدر حجاجِ کرام کو مقدس سر زمین، حرمین شریفین میں آمد مبارک ہو۔ حجاج کرام! آپ اپنے گھر، اپنی بستی، اپنے شہر اور اپنے اپنے ممالک میں جس قبلہ کا رُخ کرکے اسلام کا عظیم فریضہ نماز ادا کرتے تھے اور کرتے ہیں اور واپسی پر کرتے رہیں گے۔ آج آپ اس قبلہ کی اپنی آنکھوں سے زیارت کر رہے ہیں۔ اس کا طواف کر رہے ہیں۔ اس کے مقامِ ملتزم پر چمٹ رہے ہیں۔ یہ گھر جو بیت اللہ ہے، اسے اللہ کے حکم سے ملائکہ نے، حضرت آدم ؑنے، حضرت خلیل اللہ ؑنے، حضرات بانیانِ کرام نے مختلف ادوار میں اللہ کے نام پر بنایا۔ اسی گھر کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یقینا پہلا وہ گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا جو کہ مکہ مکرمہ میں ہے، لوگوں کےلئے ہدایت ہے(آل عمران96)۔ یہ اللہ تعالیٰ کا گھر ہے، اور آپ کے ہاں کی مسجد بھی اللہ کا گھر ہے۔ اس لئے نہیں کہ اسے اللہ تعالیٰ نے یا اس کے حکم سے ملائکہ نے بنایا بلکہ اس لئے کہ اس مسجد کی عمارت کو آپ نے اللہ کے نام پر بنایا۔ پھر اس کی محراب کا رُخ اللہ کے اسی گھر اور کعبہ مشرفہ کی طرف کیا اور آپ اسی کی طرف رُخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔حجاج کرام! اس شرعی، واقعی حقیقت سے ہمیں یہ درس لینا ہے کہ ہمارے قلوب کا رُخ ہمارے خالق،ہمارے حاجت روا، ہمارے مشکل کشا، ہمارے رحمن ورحیم، ربّ کریم کی طرف ہو کہ ہم اسے ہی معبودِ برحق سمجھ کر اپنا مقصود، اپنا محبوب بنائیں،پھر ہم اس کے اطاعت شعار بندے بنکر رہیں، اسی کے سامنے اپنی حاجات ومشکلات پیش کریں۔ حج کا سفر ایک عبادت کا سفر ہے، ایک فریضہ کی ادائیگی کا سفر ہے، اسلام کے چھٹے رکن کی ادائیگی کا سفر ہے،یہ فریضہ اور رکن ہے جو مخصوص زمانہ میں، مخصوص مقام پر، مخصوص اعمال کی ادائیگی سے عبارت ہے۔ پھر اس کی ادائیگی کے لئے حلال اور پاک مال اس قدر ہو کہ اس سفر کے اخراجات دورانِ سفر اہل خانہ کی ضروریات کا تحمل کرنے والا بندۂ مؤمن ہی اس کا مکلف ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اور اللہ ہی کے لئے لوگوں پر بیت اللہ کا حج فرض ہے۔
جسے اس کی استطاعت ہو، اور جو کوئی منکر ہوا تو اللہ تعالیٰ تمام جہانوں سے غنی ہے۔ حج کے لئے استطاعت کے بعد، کسی مسلم مرد وعورت کے لئے اس کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا درست نہیں۔آنحضرت نے فرمایا:جس نے استطاعت ہوتے ہوئے اسے ترک کر دیا وہ یہودی ہو کر یا نصرانی ہو کر مرے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو ایسے غافل انسان کی گمراہی کی پرواہ نہیں کیونکہ باری تعالیٰ کی طرف سے فرض کردہ رکن کی جس بندۂ مؤمن کو ادائیگی کی فکر نہ ہوتو خالق جل وعلا کو اس کی کیونکر فکر ہو سکتی ہے؟ حج کے بارے میں اولین امر حلال مال کا ہونا ہے۔ حجاج کرام! اس گھر اور حلال مال کے باہم جوڑ کو تو زمانۂ جاہلیت کے کفار ومشرکین بھی مانتے رہے۔ آپ غور کریں بیت اللہ شریف کی عمارت میں جس جگہ کو حطیم کہتے ہیں اور وہ بیت اللہ کی موجودہ عمارت سے باہر خالی جگہ ہے۔ یہ وہ حصّہ ہے، جسے بغیر تعمیر کئے جاہلیت کے دَور میں چھوڑ دیا گیا تھا کہ ان کے پاس جس قدر حلال مال تھا، وہ ختم ہو گیا تھا۔ اور یہ حصہ تعمیر نہ ہو سکا۔ یہ حطیم اس امر کی نشانی ہے اور حجاج کرام کے لئے علامتِ عبرت ہے کہ ہم مؤمن، موحد، اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے ہیں، ہمیں حلال کمائی کا کس قدر اہتمام کرنا ہوگا؟ پھر حج کے تمام اعمال اور مناسک تو سراپا توحیدِ باری تعالیٰ پر ایمان، اپنے خالق ومالک سے عشق ومحبت کا عظیم مظہر ہیں۔
مؤمن بندہ اپنے وطن، اہل وعیال، کاروبار، وظیفۂ نوکری، تمام ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو کر کیونکر یہاں آ رہا ہے؟ آخر تمام متعلقین اور جملہ متعلقہ امور سے فراغت محض باری تعالیٰ کی رضا اور اس کے ساتھ وابستگی اور تعلق ہی کی خاطر ہے۔ بندۂ مؤمن عمر بھر معمول کا لباس ترک کرتا ہے۔ سالہا سال زندگی گزارنے والا ماحول چھوڑتا ہے۔ اعزہ واقارب، دوست واحباب سبھی سے جدائی صرف اللہ جلّ جلالہ سے ’’وصل‘‘ کی خاطر ہی کرتا ہے۔ اپنا سرد ملک ہو یا گرم، اپنے یہاں کی آب وہوا مرطوب ہو یا خشک، موسم سرد ہو یا گرم، سبھی کو کیوں خیرباد کہہ کر آرہا ہے؟ محض اپنے رحمن رحیم، ربّ کریم کی رحمت وکرم کی تلاش میںآرہا ہے۔ اعمالِ حج میں سے احرام، تلبیہ، تکبیر وتہلیل، حج کی میقاتیں، حج کے مناسک، حج کے مقامات ’’مشاعرِ مقدسہ‘‘، سبھی پر گہری ایمانی نگاہ یقینا ایسے بصیرت افروز حقائق ہیںجو حضرت انسان ہی کی حج کے بعد کی زندگی میں اصلاح کی خاطر ہیں۔ ان میں تأمل ونظر یقینا نفع بخش دروس وعبر پر مشتمل ہے۔ ہم اولاً احرام پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ کسی بھی خطۂ ارضی سے آنے والے حاجی کا احرام وہاں کی عمومی عادت کا لباس نہیں، وہ شرق سے آئے یا غرب سے، دنیا کا شمال اس کا مسکن ہو یا جنوب میں وہ مقیم ہو۔ صرف2سفید بغیر سلی چادریں ہی ہر جاجی کے لئے احرام ہے اور وہ بھی الحمد للہ اپنے باطن کو غیر اللہ کی محبت سے، غیر اللہ کی عبادت سے، غیر اللہ کے تعلق، باطنی نجاستوں اور کدورتوں سے صاف کر لینا، پھر ظاہر کو بھی ظاہری نجاستوں سے طہارت حاصل کرنے کے بعد ایک چادر اوپر اور ایک نیچے، حاجی کا یہی احرام بندۂ مؤمن کے لئے اس کے قلب وقالب کی طہارت کا داعی ہے ،پھر باعثِ درس یہ ہے کہ حاجی کی اسی حالت کا اس کے اہل وعیال، اس کے متعلقین، اس کے ماحول والے، اس کی دنیا والے سبھی بلکہ مؤمن بھی، کافر بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ یہ مُحرِم (صاحبِ احرام) ہر نجاست سے، ہر کدورت سے، ہر رذیل اخلاق سے پاک وصاف ہونے کا عزم کررہا ہے۔
یہی احرام ہے کہ حرمت والے گھر کا یہ قاصد اور مسافر اپنی قلب وقالب کی صفائی کا اعلان کرتے ہوئے اللہ کو گواہ بناتا ہے،پھر اس کے اس لباس کے بعد اس کا قول، اس کا تلبیہ پڑھنا، اس کی تکبیر، اس کی تہلیل صرف اللہ تعالیٰ کی عظمت کا بیان ہے۔ اپنی عاجزی وانکساری اور بندگی کا اظہار ہے۔ یہ بندۂ مؤمن کا اپنے خالق ومالک، رب کریم کے ساتھ عشقِ خالص ہے اور ربّ تعالیٰ ہی حاجی کا محبوب خالص ہوتا، پھر ساری دنیا اس پر گواہ بھی بنتی ہے۔ حضور اکرم نے مُحرِم کے لئے سب سے افضل عمل اس کا بآوازِ بلند تلبیہ پڑھنا، تکبیر وتہلیل اور تسبیح کرنا قرار دیا ہے۔ تلبیہ: یعنی ’’لبیک پکارنا‘‘۔تکبیر:یعنی ’’اللہ اکبر پکارنا‘‘۔تہلیل: یعنی’’لا اِلٰہ الا اللہ پکارنا‘‘۔ تسبیح: یعنی’’سبحان اللہ پکارنا‘‘۔ آخر یہی تو ترانہ ہے ہر مُحرِم کا جسے وہ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، اوپر چڑھتے نیچے اترتے، وردِ زبان بنائے ہوئے ہوتا ہے اور یہی تمام حجاجِ کرام کا بحالتِ احرام (اللہ کے نزدیک) افضل ترین عمل ہے جسے بآوازِ بلند کہنا، بلا جھجھک کہنا ہے۔ قلب کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر زبان پر لانا ہے، اللہ کے ہاں سب سے محبوب عمل ہے اور اس محبوبِ برحق کی رضا کا سبب ہے، پھر یہ ترانہ تمام حجاجِ کرام، دنیا کے مختلف ملکوں سے آنے والے ضیوف الرحمن کے مابین توحیدِ باری تعالیٰ اور وحدتِ ملّی ہر دو کا مظہر ہے۔
میقات:میقات وہ مقامات ہیں جو کعبہ مشرفہ سے دُوری پر ہیں اور کعبہ مشرفہ کی ہر سمت پر شارع نے مقرر کر رکھی ہیں۔ یہ میقاتیں وہ حدود ہیں جن کو بغیر احرام کے حاجی کراس نہیں کر سکتا۔ اگر کسی عمرہ یا حج کرنے والے کا بغیر احرام کے یہاں سے گزر ہو گیا اور احرام بھی نہ تھا، تو وہ قصوروار ہے جس کے جبر (پورا کرنے کی خاطر) اس پر دَم (ایک قربانی کا جانور) واجب ہوتا ہے،یا پھر اس کا جبر (پورا کرنا) دوبارہ واپس جا کر وہیں سے احرام باندھنے سے ہوگا۔ در اصل ہر قاصدِ حرم کو تنبیہ ہے کہ کتنی دور سے تمہیں وارننگ ہے کہ تم مُحرِم ہو، خبردار رہو، اس گھر کی عظمت کو، اس گھر والے کی عظمت کو، بہت دور سے ہی حاجی کو یہ شعور دلانا ہے کہ تم ربّ جلیل کے عظیم گھر کی زیارت کے لئے جا رہے ہو۔ تم ان آیات بیّنات کے مشاہدہ کرنے والے ہواسلئے دُور سے سُدھر جاؤ۔ دُور سے ہی اپنی توجہات کو سُدھار لو۔ اپنے قلوب اور دلوں کو اس کی طرف خالص کر لو۔ پھر یہ بھی نہیں کہ یہ احرام اپنی مرضی سے جس طرح چاہو باندھ لو۔
اس کی حدود مکانی بھی ہیں اور حدود زمانی بھی۔ مکانی حدود تو وہ مقامات ہیںجنہیں میقاتِ ’’یلملم‘‘، ’’ذو الحلیفہ‘‘، ’’جحفہ‘‘ اور ’’قرن المنازل‘‘ کہتے ہیں۔ نبی کریم نے٭ اہلِ ’’مدینہ‘‘ یا اس سمت سے آنے والوں کے لئے ’’ذو الحلیفہ‘‘ کو میقاتِ مکانی قرار دیا٭اہلِ ’’شام‘‘ یا اس سمت سے آنے والوں کے لئے ’’جحفہ‘‘ کو میقاتِ مکانی قرار دیا٭اہلِ’’ نجد‘‘ یا اس سمت سے آنے والوں کے لئے ’’قرن المنازل‘‘ کو میقاتِ مکانی قرار دیا٭اہلِ ’’یمن‘‘ یا اس سمت سے آنے والوں کے لئے ’’یلملم‘‘ کو میقاتِ مکانی قرار دیا۔ الغرض چہار دانگ عالم سے آنے والے قاصدینِ حج وعمرہ ان مقامات سے بغیر احرام کے نہیں گزر سکتے۔ یہ حرمِ محترم کا احترام ہے۔ یہ مُحرِم کا تزکیہ وطہارت ہے۔ یہ اس کے اندر اخلاص کو تخم ریزی ہے۔ یہ ربّ جلیل کے گھر کی عظمت کی تثبیت ہے۔ یہ اس مقامِ عالی کی علوّ منزلت ہے جو اولین مھبطِ وحی ربانی ہے۔ جو دعوتِ حق کا اولین نقطۂ آغاز ہے۔ آج مُحرِم بذاتِ خود اس بلدِ امین، مولدِ رسول امین، مرکزِ ہدایت، منبعِ انوار کا قاصد ہے۔احرام والا غافل نہیں، اس کا لباس، اس کی تکبیر وتہلیل، اس کا تلبیہ، ہر حال میں اسے یاد دہانی کرا رہی ہے کہ وہ کون ہے؟ وہ کہاں جا رہا ہے؟ وہ اس حالت میں کبھی کہیں نہیں گیا۔ بڑے بڑے عظمائے دنیا ہوںگے۔ ان کے اپنے اپنے آداب ہوں گے۔ ان کے ملنے والوں کی جُدا جُدا کیفیات ہوں گی مگر ملک الملوک کا یہ بندہ ربّ جلیل کے گھر کی زیارت کے لئے ایک منفرد ہی ظاہری حالت اور عجیب وغریب اندرونی کیفیت سے آرہا ہے۔در اصل یہی وہ ایمانی واردات ہیں جو ہر مُحرِم کے اندر اترنی چاہئیں۔ یہی وہ دروس ہیں جنہیں ہر مُحرِم کو پیدا کرنا ہے، یہی وہ بصائر ایمانیہ ہیں جن کا شعور ہر مُحرِم کو ہونا چاہئے، یہی حج کے ہر عمل اور نُسک سے غرض ہے کہ حاجی پہلے جیسا بندہ نہ ہو، وہ عام بندہ نہ ہو، اس کی حالت عام نہ ہو، اس کی کیفیت عادی نہ ہو۔
مخصوص حالت میں، مخصوص مقام پر مخصوص اعمال سے حاجی کو مخصوص انسان بنانا ہے۔ ایسے احرام والا انسان جس کے دل میں تعلّی وکبر نہ ہو، جس کے قلب میں عُجب وخود پسندی نہ ہو، جس کے اندر کسی کا حقد وبغض نہ ہو، جو ہر قابلِ عُجب اور قابلِ فخر امر کو مٹا کر آئے، ہر زینت کو ترک کرکے آئے، جو تواضع کا خوگر بن کر آئے، غنی وفقیر کے فرق کو مٹا کر آئے، رئیس ورعایا کے فرق کو مٹا کر آئے، چھوٹے اور بڑے کے فرق کو مٹا کر آئے۔ صرف مساوات اور باہمی مودّت ومحبت، توحیدِ باری تعالیٰ اور وحدتِ امت کا یقین احرام کا پہلا اور آخری درس ہے اور یہی مکہ مکرمہ کی فضاؤں کا حسن ہے اور یہی حجاجِ کرام کا شعار ہے۔خوب سمجھ لیں! دل میں ثابت کر لیں اور جس یہ قصور رہا، وہ اسے پورا کرلیں، ما فات کی معافی مانگیں اور آئندہ کے لئے عزمِ صادق کر لیں۔ بیت اللہ کا طواف:طوافِ بیت اللہ کیا ہے؟ حاجی کو شعور ہو کہ اب ایک ایسا عمل شروع ہو رہا ہے، جو دنیا میں کسی جگہ روا نہیں۔ نہ کسی کی قبر کا طواف، نہ کسی کے قصر کا طواف، نہ کسی کے مکتب کا طواف، نہ کسی کے مرقد کا طواف، نہ کسی معبد کا طواف، نہ کسی مسجد کا طواف۔ اگر ہے تو ربّ جلیل کے حکم سے صرف اس کے گھر کا طواف ہے جو اللہ کا بنایا ہوا پہلا گھر ہے، جو کعبہ مشرفہ ہے ، جو قبلۂ عالَم ہے، جو مقامِ ہدایت ہے جہاں پر آیاتِ بیّنات ہیں جس کے گِرد مسجدِ حرام ہے، جس کی کوئی محراب نہیں۔ تمہاری مساجد کی محرابوں کا چاروں طرف سے اسی کی طرف رُخ ہوتا ہے۔ تم اس کا ہر نماز میں مشاہدہ بھی کرتے رہے ہو۔ اللہ کا گھر بعینہٖ اسی جگہ پر ہے جو مبدأ عالمِ ارضی ہے، جو منبعِ انوار ہے، جو مھبطِ برکات ہے، مطلع ہدایت ہے، یہیں سے تمہاری زمین کا آغاز ہوا، اسے یہیں سے کھینچا گیا، تمہاری زمین کا بھی یہی مرکز ہے، اس کے اوپر بیت المعمورہے جو مطافِ ملائکہ ہے۔اس گھر کا طواف اولینِ بشر نے بھی کیا۔ پھر اس پر کئی ادوار گزرتے گئے۔ حضراتِ انبیائے کرام کا بھی یہاں سے گزر ہوتا رہا۔ وہ بھی اس کے طائفین رہے۔ آج آپ کے قدم اسی جگہ پر پڑ رہے ہیں، جہاں ان کے پائوں پڑے تھے۔ بیت اللہ کے چاروں کونوں میں سے حجرِ اسودوالے کونے سے طواف کا آغاز ہوتا ہے۔
بیت اللہ پر پہلی نظر:اللہ تعالیٰ کے مخلص محرمین بندے ربّ جلیل کے عظیم گھر اور مرکز ہدایت پر نظر ڈالتے ہی اپنی تمام حاجات کو قاضی الحاجات کے سامنے پیش کریں، خوب مانگیں اور رو رو کر مانگیں، اس یقین سے مانگیں کہ اپنے مطلوب کو حاصل کرکے ہی رہیں گے۔ وہ اُسی رحمن ہی کے تو مہمان ہیں۔ کون ہے جو اپنے مہمان کی خاطرداری نہ کرے؟ ،اس کی طلب کو پورا نہ کرے؟ ،کریم اپنے کرم کے خلاف سمجھتا ہے کہ مہمان کی خواہش کے مطابق اس کی ضیافت نہ کرے۔ یہی شعور ہر حاجی اور عمرہ کرنے والے کا ہو ،پھر وہ جس سے مانگتا ہے، وہ تو خود کہتا ہے: میں ربّ کریم ہوں، اس کا فرمان ہے: اے انسان! ربّ کریم سے کس چیز نے دھوکہ میں ڈال دیا ہے، اسی نے تجھے پیدا کیا،تجھے خوبصورت شکل وخلقت عطا کی(الانفطار7,6)۔ مانگنے والا بندہ ہو، جس سے مانگے وہ اس کا خالق ومصور ہو وہ رحمن ورحیم ہے، وہ کریم بھی ہو تو بندہ خوب جی بھر کر اس سے اپنی حاجات مانگے۔ اپنے اہل وعیال کے لئے مانگے،اپنے ان اعزہ واقارب کے لئے مانگے جنہوں نے اسے خوشی سے رخصت کیا اوران احباب کے لئے بھی مانگے جنہوں نے اسے رخصت کرتے ہوئے اس کی تکریم کی۔ ہمیں خوب یاد رہے کہ تقریباً 40 برس پہلے جب حجاجِ کرام رات یا دن کے کسی لمحہ مکرمہ مکرمہ کے کسی محلہ میں داخل ہوتے تو فضائیں، صدائے، تلبیہ اور تکبیر وتہلیل سے گونج اٹھتی تھیں۔ سوالی خوب سوال کرتے تھے، مگر آج ہمارے اندر کا بگاڑاور ہمارا مادّیات میں الجھنا کچھ اتنا زیادہ ہوگیا کہ تلبیہ وتکبیر میں بھی حیا کرنے لگے اور مانگنے میں بھی شرمساری ۔
اے حجاجِ کرام! آپ نہ اللہ کا نام بلند کرنے میں شرم محسوس کریں نہ ربّ کریم سے مانگنے میں۔ خوب صدائے تلبیہ بلند کریں اور خوب ربّ کریم سے مانگیں،یہی حجِ کی زینت ہے۔ حاجی یا معتمر جو اتنی قربانیاں دینے والا ہے صرف دین داری بننے کے لئے ہی تو یہاں آیا ہے۔ حجرِ اسودکی بھی اپنی تاریخ ہے اور شرعی حیثیت بھی جسے اسی حدّ تک ہی رکھنا دینداری ہے۔حجرِ اسودجنت سے سفید پتھر کی صورت میں آیاجوبنی آدم کے معافی کی وجہ سے سیاہ ہو گیا۔ اسے دیوارِ کعبہ میں اس کونے میں چن دیا گیا جو مبدأ طواف ہے۔ حجرِ اسود کو اگر چوم سکیںتو سنت ہے۔ اگر نہ چوم سکیں تو اس کا استلام سنت ہے کہ دائیں ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کرنا استلام ہے۔ ہم یہ عمل اس لئے کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہنے ایسا کیا ہے،نیز حجرِ اسود کو چومنے کی خاطر جو ایک سنت عمل ہے دیگر حجاجِ کرام اور معتمر حضرات کو تکلیف دینا اور دھکم پیل کرنا شرعاً حرام ہے۔ دیندار بندہ کبھی کسی سنت کی خاطر حرام کا ارتکاب کرنے والا نہیں ہوتا۔ اس گھر کے 7چکر حجرِ اسود سے آغاز، یہیں پر اختتام۔ یہ ایک طواف کہلاتا ہے۔ دورانِ طواف بیت اللہ کو جانبِ قلب رکھا جائے گا کہ یہ دلوں کی دھڑکن ہے۔
اہلِ ایمان کے قلوب اسی طرف کھینچے چلے آتے ہیں۔ ہر طواف کرنے والا برائے رضائے ربّ البیت اس کے گھرکے چکر کاٹ رہا ہے۔ اس کی غرض محض تعمیلِ ارشاد ہے۔ قرآن کریم نے اس امر کو یوں بیان کیا ہے، کہ کعبہ مشرفہ کی تعمیر کے بعد ہم نے ابراہیم کو کہا کہ تم لوگوں میں حج کا اعلان کر و تو میرے پاس پیدل اور دُبلی اونٹنیوں پر سوار دور دراز سے آئیں گے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے بھی دعا فرمائی تھی کہ اے اللہ! تو لوگوں میں سے بعض کے قلوب کو ایسا کردے کہ وہ اس کی طرف کھچے چلے آئیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کا یہ گھر جو غیر زراعت وادی میں ہے، جو لوگوں کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے، جو اولین گھر ہے۔ صرف اسی کا طواف عبادت ہے۔ یہ عبادت بھی ایسی ہے جو کہ اسی مکان کے ساتھ خاص ہے۔ یہ عمل رحمن کی برکات سمیٹنے کا ذریعہ ہے کہ یہاں پر نازل ہونے والی برکات میں سے سب سے وافر حصّہ طواف کرنے والوں کو ملتا ہے۔یہ وہ شعور واحساسات ہیں جو حرمین شریفین کے قاصدین کے قلوب میں ثابت اور ان کے قوالب ظاہر نظر آنی چاہئیں۔ہم نے ان سطور میں صرف احرام، دعائے بیت اللہ، طواف بیت اللہ اور حجرِ اسود کے بارے میں چند گزارشات کی ہیں۔ انہیں ان کا استحضار رہے۔ ان شاء اللہ