Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حرمین شریفین کی زیارت ، سہولتیں دیکھ کر عقل دنگ رہ گئی

صفائی کا عملہ ہر جگہ مستعد ، یوں لگتا تھا کہ جیسے کہہ رہا ہو” پھینکو کچرا، میں ابھی صاف کرتا ہوں
مظفر اعجاز۔کراچی
اس مرتبہ رب کریم نے حرمین شریفین کی حاضری عطا فرمائی تو ہمیں اب سے 21 برس پرانا باب یاد آگیا ۔جب ہم سعودی عرب پہنچے تو ہمیں لوگوں نے یہی بتایا کہ میاں وہ زمانہ کب کا گزر گیا جب فراوانی تھی۔ یہ بات جب ہم نے محترم شعاع النبی ایڈووکیٹ کے سامنے کہی تو وہ ہنسے اور کہنے لگے اب سے 22 سال قبل یعنی 1974ءمیں جب ہم مملکت آئے تھے تو اس وقت بھی لوگ یہی کہہ رہے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ جس کا رزق جتنا جہاں لکھا ہے وہ وہاں سے حاصل کرے گا۔ اللہ کریم نے مقرر فرمادیا ہے تو کوئی روک نہیں سکتا اور جب اللہ کریم روک دے تو کوئی دے نہیں سکتا۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ ہم نے پانچ سال کام کیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے 2001ءمیں واپس پاکستان چلے آئے لیکن شعاع النبی نے ایک اور بات کہی تھی کہ یہاں سعودی عرب میں رہنے کے لئے ایک شرط ہے کہ اپنے ذہن میں رکھنا کہ تمہیں واپس جانا ہے۔ یہ انتہائی مقدس سرزمین ہے، یہاں بڑے اہم مقامات ہیں لیکن یہ سب ایک دن چھوڑنا پڑےںگے لہٰذا تیاری واپسی کی رکھنا ۔ کم از کم ہم نے تو ایسا ہی کیا۔
حال ہی میں عمرے کا قصد ہوا ۔سفر کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ وسیلہ¿ ظفر ہوتا ہے اور اس سفر کے بارے میں کیا کہنے جو عمرے کے لئے کیا جائے۔ آدمی ہر طرح ظفریاب ہوتا ہے۔ عمرہ کرکے قبولیت کے نتیجے میں اچھے لوگوں کی صحبت کی وجہ سے مملکت اور خادم حرمین شریفین کی جانب سے معتمرین اور ضیوف الرحمن کی پذےرائی اور خدمت کے سبب، غرض ہر طرح سے کامیابی۔ 
سفر کا احوال یہ ہے کہ اتوار18 جون کو پی آئی اے کے ذریعے روانگی تھی۔ جس کو بتائیںکہ پی آئی اے سے جارہے ہیں، وہ کہتا کہ ارے کیا غضب کیا تم نے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ واقعی اللہ کریم نے رحم فرمایا اور پی آئی اے کی پرواز نہایت پر سکون طریقے سے اپنے وقت پر روانہ ہوکر اپنے وقت پر جدہ پہنچ گئی۔ 18 جون کو پاکستان اورہندوستان کے درمیان کرکٹ میچ کا فائنل بھی تھا۔ اگر چہ ہم یہ بھول چکے تھے لیکن پائلٹ نے بار بار اعلان کرکے یاد دلادیا۔ دلچسپ امر یہ ہوا کہ ہمارا روزہ سعودی عرب کی جانب سفر کی وجہ سے طویل ہوتا جارہا تھا یہاں تک کہ افطار کا وقت قریب ہوا تو فضائی میزبانوں نے مسافروں میں ڈبے تقسیم کئے لیکن ہر ایک کو ڈبہ پکڑاتے ہوئے ہدایت کی جارہی تھی کہ جب اعلان ہو تو کھانا، گویا ہم روزانہ بغیر اعلان کے ہی کھانے لگتے ہیں۔ اچانک پائلٹ نے لاﺅڈ اسپیکر آن کیا۔ سب کے ہاتھ ڈبوں کی طرف بڑھے لیکن پائلٹ نے صائمین کے لئے ایک اور فرحت کا اعلان کیا وہ روزہ کھولنے کا نہیں تھا .... بلکہ 180 رنز سے ہندوستان کو”بدترین کرکٹی شکست “سے دوچار کرنے کا اعلان تھا۔ لوگوں نے اس پر مبارکباد کا تبادلہ کیا اور پھر اگلے اعلان کا انتظار کرنے لگے یعنی افطاری اور بالآخر لینڈنگ سے 15 منٹ قبل اعلان ہوگیا۔ ہمیں تو پتا ہی نہیں چلا کہ ہم پی آئی اے سے جدہ پہنچے ہیں یعنی اس کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی روشنی میں جو خدشات تھے ان میں سے کوئی بات درپیش نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ لینڈنگ بھی نہایت نرم انداز میں ہوئی۔ جدہ ایئرپورٹ سے رات 2 بجے سامان وغیرہ لے کر باہر نکلے۔ مکہ مکرمہ کیلئے گاڑی تک چونکہ ہم تاخیر سے پہنچے تھے چنانچہ وہ گاڑی بھی تاخیر سے ہی روانہ ہوئی۔ ڈرائیور نے بہر حال راستے میں سحری کروادی۔
یہاں اس ادارے کا ذکر کرنا ضروری ہے جس کے ذریعے اس سفر کا پروگرام ترتیب دیاگیا یہ کراچی کا ایک گروپ ہے جو ایک سعودی گروپ کاشریک کار ہے ۔جدہ میں ہمارے پہلے حج کے منتظم محترم مسعود جاویدتھے جو اب اس دنیا میں نہیں۔ان کے ساتھ شاہد محمود انور اس گروپ کے مالک ہیں۔ پرواز کی بکنگ سے واپسی تک نہایت پروفیشنل انداز میں رہنمائی کی گئی ۔یہاں تک کہ واپسی سے ایک رات قبل فون کرکے یاد دلایاگیا کہ کل آپ کی واپسی کی پرواز ہے۔ اتنا وزن لے جاسکتے ہیں، زمزم ایئرپورٹ پر ملے گا۔5 گھنٹے پہلے پہنچنے کی کوشش کریں۔ بہر حال” کراچی سے براستہ جدہ کراچی “تک کاسفر پتا ہی نہیں چلا۔ 
ہاں تومکہ مکرمہ پہنچنے کی بات ہورہی تھی۔ ہم وہاں فجر کے بعد پہنچے۔ مقامی معلم کے ایجنٹ نے ایک ہوٹل کے سامنے بس سے اتر وا دیا ۔ ہوٹل کے دروازے تک سامان لے کر پہنچے۔وہاں سے بنگالی بھائی ایک وہیل چیئر پر ہوٹل پہنچانے پر راضی ہوئے۔ وہیل چیئر ہمارے لئے نہیں بلکہ سامان کے لئے تھی۔
ہم سوچ رہے تھے کہ سیدھے عمرہ کرنے جائیں یا آرام کریں۔ احرام باندھے ہوئے 15 گھنٹے ہورہے تھے۔ فیصلہ ہوا کہ آرام کرکے عصر کے وقت چلے جائیں گے ۔یوں 24 گھنٹے کے احرام کی حالت میں رہنے کے بعد ہم عمرے کے لئے حرم پہنچے۔ رش حسب معمول تھا اورہمیں چونکہ پرانا تجربہ تھااس لئے خود کو ریلے کے حوالے کردیا۔ اندر جانے سے قبل یاد آیا کہ افطار کا سامان تو لیا ہی نہیں۔ بے ساختہ منہ سے نکلا، اب آگے بڑھو جس کے مہمان ہیں وہ خود عطا فرمائے گا اور پانچ منٹ بعد فون پر بات ہوئی کہ خواتین کے حصے میں جاتے ہوئے سعودی حکومت کی جانب سے روزہ داروں کے لئے افطار کے دو ڈبے مل گئے ہیں اور بیٹھنے کی جگہ بھی۔ ہم نے بتایا ہماری طرف بھی یہی کیفیت ہے۔ حرمین شریفین میں آنے والے اللہ کریم کے مہمان ہیں ان کا انتظام بالضرور ہوتاہے اور بہترین ہوتا ہے۔ جب عمرہ کرکے ہوٹل آئے تو لفٹ کے دروازے پر ایک اور نوٹس دیکھا کہ سحری کا انتظام ہوٹل انتظامیہ کی طرف سے ہے۔ لیجیے افطار و سحر دونوں کا انتظام ہوگیاتھا۔ 
کوئی 17 برس بعد اہل خانہ کے ساتھ عمرے کی سعادت نصیب ہوئی۔ گھر والے تو حرم مکی شریف اورحرم مدنی شریف دونوں ہی میں ترقی اور بے انتہا سہولتوں میں اضافے پر حیران تھے، انہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ گئی ۔ شاید کسی کو روایتی طور پر حرم مکی شریف میں داخل ہوکر سیدھے باب ملک فہد سے خانہ کعبہ تک جانے اور خانہ کعبہ کو دیکھ کر پہلی نظر پر دعا کی قبولیت والے معاملے میں کچھ مشکل محسوس ہو .... حرم شریف میں توسیع اور پورے مکہ مکرمہ میں صفائی کا جو اہتمام تھا، وہ سب کا سب زائرین اور ضیوف الرحمن کے لئے ہی تو ہے۔ ہمیں تو پہلے کے مقابلے میں آسانیاں زیادہ محسوس ہوئیں۔ کچھ باتیں پہلے دو تین دن سمجھ میں نہیں آئیں لیکن پھر سب کچھ سمجھ میں آگیا۔ افطار سے کوئی گھنٹہ بھر قبل رکاوٹیں کھڑی کرکے لوگوں کو مختلف سمتوں میں بھیجا جارہا تھا۔ قریب جانے پر معلوم ہوا کہ عمرہ کرنے اور طواف کا ارادہ رکھنے والے اندر چلے جائیں۔ صرف افطار کرنے یا نماز پڑھنے کا ارادہ رکھنے والے دائیں بائیں سے اوپر جائیں یا باہر صحن میں بیٹھیں۔ تنہا مرد الگ جانب جائیں، فیملی کے ساتھ آنے والے اندر جائیں ، وغیرہ۔ یہ سب پہلے بھی ہوتا تھا لیکن اب ایک سپاہی پوسٹر ہاتھ میں لئے کھڑا تھا کہ صرف عمرہ والے اندر جائیں۔ عربی، انگریزی اور اردو میں یہ عبارت تحریرتھی۔ صفائی کا عملہ جن میں بیشتر بنگالی تھے، ہر جگہ مستعد کھڑا تھا۔ جب ہم نماز کے لئے حرم شریف جاتے تو ایک دو نہیں، کئی لاکھ لوگ اس سمت سے جاتے اور آتے تھے۔ اس عملے کو دیکھ کر ہمیں یوں لگتا تھا کہ جیسے کہہ رہا ہو” پھینکو کچرا، میں ابھی صاف کرتا ہوں۔“کاغذ کا کوئی پرزہ وہ سڑک پر نہیں رہنے دیتے۔ ظاہر ہے ان کی کوئی نگرانی بھی کررہا ہوتا تھا۔ جب دوسرے عمرے کے لئے میقات جانے کا اتفاق ہوا تو شہر مکہ مکرمہ کی بہت سی سڑکیں دیکھیں۔ سارا علاقہ پہلے سے زیادہ صاف اور شفاف۔ ایسا بھی نہیں تھاکہ یہاں لوگ نہیں رہتے تھے۔ یہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ تھا۔ لاکھوں معتمرین اس شہر مقدس میں موجود تھے لیکن مجال ہے جو سڑکوں پر کچرا نظر آجائے۔ اسی دوران نجانے کیوں ہمارے خیالات میں ”دراندازی“ ہوئی اور بلا وجہ کراچی یاد آگیا۔ کیا مکہ مکرمہ کے میئر کے پاس بہت اختیارات ہیں؟ سویپر وہاں بھی ہیں، کراچی میں بھی ہیں ۔بس وہاں کارکن پوری ڈیوٹی دیتے ہیں یہاں کراچی میںتو 50 فی صد سویپر ہی” سیاسی“ہیں پھر بھلا صفائی کیا ہوگی۔ خیر، کراچی تو جدہ جاکر بھی بار بار یاد آیا۔ اس کا ذکر بعد میں کریں گے۔ 
دوسرے عمرے کے بعد ختم قرآن کریم کا مرحلہ تھا ۔اس روز حرم شریف میں داخل ہونا مشکل لگ رہا تھا لیکن حسب معمول خود کو ریلے کے حوالے کردیا اور اندر پہنچ گئے۔ ایک رات قیام اللیل کے لئے لوگوں نے مکہ مکرمہ ٹاورز کے پیچھے ایک سڑک پر صف بندی کرلی۔ تھوڑی دیر میں نمازیوں کی تعداد اتنی بڑھی کہ دوسری جانب کی سڑک پر بھی صفیں بن گئیں اور راستہ بند ہوگیا۔ یہ تقریباً ایک لاکھ کے لگ بھگ لوگ تھے لیکن 15 منٹ سے بھی کم وقت میں پولیس نے سڑک کا ایک ٹریک خالی کرالیا۔ کوئی لاٹھی چارج نہیں ہوا، کوئی مارپیٹ نہیں ہوئی، بس ایک آواز تھی ”یا حاج،طریق، طریق یا حاج“ یہ راستہ ہے حاجی صاحب اور لوگوں کو سمجھایا کہ نفل نماز کے نام پر راستہ نہ روکو۔ اس آپریشن کا سبب کیا تھا۔ یہ ایک لاکھ لوگ صف باندھ کر سڑک پر کھڑے ہوگئے اور حرم شریف سے نکل کر آنے والے 3 سے 5 لاکھ افراد کا ریلا قریب پہنچ چکا تھا۔ اگر بروقت سڑک خالی نہ کرائی گئی ہوتی تومشکلات کا سامنا ہو سکتا تھا۔
مکہ مکرمہ میںہم نے اس سے قبل بھی عید منائی تھی لیکن اس مرتبہ کچھ مختلف معاملہ تھا۔ بے چینی سے عیدالفطر کا انتظار تھا۔ سعودی عرب میں یہ مخمصہ نہیں ہوتا کہ چاند دیکھنے کے لئے ”رویت ہلال کمیٹی“ بیٹھے گی، اعلان ہوگا یا اختلاف ہوگا۔ انہوں نے ایک نظام بنایا ہوا ہے جس کے تحت عید ین اور رمضان کریم کے بارے میں اعلانات کردئیے جاتے ہیں۔ چاند دیکھنے کا بھی اہتمام ہوتا ہے اور شہادتیں بھی لی جاتی ہیں، غلطی ہوجائے تو رجوع بھی کرلیتے ہیں لہٰذا ہم نے بھی منصوبہ بندی کرلی تھی۔ بہت چالاکی کے ساتھ سب لوگ رات کو ہی ایک ایسی جگہ جاکر بیٹھ گئے جہاں سے خانہ کعبہ سامنے نظر آرہا تھا۔ یہ سوچا کہ یہیں بیٹھ کر رات گزاریںگے۔ فجر کے ایک گھنٹے بعد نماز عید ہوجائے گی اور پھر آرام سے ہوٹل جاکر نیند پوری کریںگے لیکن صفائی کے عملے نے بتایاکہ اگلے 2 گھنٹے میں پورے حرم شریف کی دھلائی اور صفائی ہوگی آپ لوگ ڈھائی بجے رات کے بعد آئیں چنانچہ ہوٹل واپس آنا پڑا۔ پونے تین بجے اسی طرح کی دوسری جگہ مل گئی اور عید کی نماز تک وہیں بیٹھے رہے ۔ فجر کے بعد عیدالفطر کی نماز کے انتظار میںتھے کہ برابر میں بیٹھے ایک صاحب نے سوال کیا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں ؟ہم نے بتایا کہ کراچی سے۔اچھا !وہاں بجلی کا تو بُرا حال ہے، کے الیکٹرک کچھ سدھری۔ ہم نے ان کے ساتھیوں کی گفتگو سننے اور جاننے کے باوجود سوال کیا، بزرگو! آپ کہاں سے آئے ہیں؟ انہوں نے بتایاکہ ڈیرہ غازی خان۔ ہم نے کہا اچھاڈاکٹر نذیر کے علاقے سے؟بس اس کے بعد وہ کہیں اور ہم سنا کئے کے مصداق بزرگ کہنے لگے کہ بڑا زبردست آدمی تھا۔ یہ بھٹو کا دور تھا اور مصطفی کھر گورنر تھا۔۔ ڈاکٹر نذیر جیسا آدمی پورے ڈی جی خان میں نہیں تھا۔ وہ تو ڈی جی خان کے ماتھے کا جھومر تھا۔وہ ایم این اے تھا لیکن ہر کوئی ان سے مل لیتا تھا۔ مجھے یاد ہے، وہ کلینک میں بیٹھا تھا، بدمعاش آئے، گولیاں چلائیں اورڈاکٹر نذیر کو قتل کردیا۔ سارا ڈی جی خان رویا۔ آج بھی یاد آتی ہے تو دل روتا ہے۔ ہمارا مان تھا ڈاکٹر۔
اس گفتگو سے دو باتیں واضح ہوئیں ،ایک یہ کہ پہلے کراچی کا حوالہ دو تو لوگ پوچھتے تھے کہ وہاں حالات کیسے ہیں، بوری میں لاشیں اب بھی ملتی ہیں،گھر سے نکلنا مشکل تو نہیں ہوتا، یار فیملی کے ساتھ کیسے رہتے ہو؟ یعنی کراچی کی شناخت قتل و غارت، بھتہ، بوری بند لاش تھی تاہم اب” کے الیکٹرک“ اس شہر بے نوا کی شناخت ہوگئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ڈاکٹر نذیر جس کا مان تھے، کہیں وہ انہیں بھول تو نہیں گئے۔ باباجی انہیں جس طرح یاد کررہے تھے اس درد کو ہم نے اپنے دل میں محسوس کیا۔
عید کی نماز پڑھ کر باہر نکلے تو منظر ہی بدلا ہوا تھا۔ کل تک معتمرین کو سختی سے اِدھر اُدھر بھیجنے والے نوجوان پولیس اہلکار ایک دوسرے کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے حرم شریف سے باہر آنے والوں کو عید کی مبارک باد دے رہے تھے، مخصوص انداز میں ہاتھ ملا رہے تھے ۔ان کے چہروں سے خوشی عیاں تھی۔ یہ بالکل نیا رویہ تھا۔ رات تک نظام کو سیدھا رکھنا تھا، اب یہ چھوٹے چھوٹے نو عمر پولیس اہلکار ضیوف الرحمن کی خدمت کرکے آج عیدالفطر کے روز خود بھی مسرور تھے اور مٹھائیاں تقسیم کررہے تھے۔
عید کا دن تو مکہ مکرمہ میں گزارا، زیادہ وقت ہوٹل میں اور مسجد میں، اگلے روز صبح فجر کے فوراً بعد مدینہ منورہ روانہ ہونا تھا لیکن عید کی شام کو امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب کے ساتھ ایک نشست تھی۔ ہم نے اس میں شرکت کی۔ وہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس نشست میں مکہ مکرمہ میں مقیم پاکستانیوں کی ملک کے لئے بے چینی قابل دید تھی۔ سب کو پانامہ کے فیصلے کی بھی فکر تھی۔ اچانک ایک ساتھی محمد علی نے سوال کرلیا کہ آپ کی جماعت اپنا ٹی وی کیوں لانچ نہیں کرتی۔ بہر حال ایسا ہوجائے تو اچھا ہی ہے۔ اس جواب اور بات سے قطع نظر یہ بات ہے سوچنے کی.... لیکن اس میں صبر اور تحمل کی سخت ضرورت ہوگی۔ کسی کو دوچار کروڑ میں چینل بنتا نظر آتا ہے تو کوئی ایک مکان کی قیمت میں چینل بنانے کے منصوبے رکھتا ہے۔ یہ سب ٹھیک سہی لیکن یہ صندل ہے،اس کا رگڑنا اور لگانا درد سر یہ بھی تو ہے۔
بہر حال عیدالفطر کے دوسرے روز مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔ ایک اچھی بس کا انتظام کیاگیاتھا۔ بس اچھی تھی۔ مدینہ منورہ پہنچے تو دوپہر کا وقت تھا۔ ہوٹل میں پہلے سے براجمان لوگ کمرہ خالی نہیں کررہے تھے۔ ہمارے ایجنٹ نے ساتھ لے جا کر ہمیں کمرے میں داخل کرایا اور دو نوجوان جو وہاں مقیم تھے، ان سے کہا کہ یہ فیملی روم ہے آپ کو متبادل جگہ بھیج دیتے ہیں۔ بہر حال یہ انتظام بھی ہوگیا۔ بہر حال مدینہ منورہ میں نماز جمعہ ادا کی، سلام عرض کیا۔ ایک روز اسلامک میوزیم بھی گئے جس میں قرآنی آیات پاک کی مدد سے کائنات کے نظام کو سمجھایا گیا تھا۔ نہایت خوبصورت اور زبردست وڈیو گرافی اور آواز تھی۔ قرآن کریم میوزیم نہ جانے کا افسوس رہا۔ 
یہاں ہمیںعبدالرزاق واسو بھی ملے، انہوں نے کہا کہ صبح آپ کو زیارت کے لئے لے جاﺅں گا۔ ہم سمجھے کہ وہ مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر آئیں گے لیکن جب وہ زیارت کی طرف لے جارہے تھے تو ساتھ نئی مصروفیات بھی چل رہی تھیں۔ ہم نے پوچھ ہی لیا کہ آپ کی مصروفیات کیا ہیں؟ کہنے لگے کاروبار کرتا ہوں۔ مزدور کے طور پر آیا تھا ،آج کاروبار کررہا ہوں۔ تو وقت کیسے نکالتے ہیں؟ کہنے لگے زائرین کی خدمت کے لئے میں وقت نہیں نکالتا۔ وقت خود زائرین کے لئے نکل آتا ہے۔وہ ہمیں مختلف مقامات کی زیارت کے بعد مسجد قبا لے جارہے تھے۔ انہوں نے خود ہی ایک مشورہ دیا کہ مسجد قبلتین پہلے چلیں۔ اس کے بعد عصر کی نماز قبا جا کر پڑھیں تا کہ پہلے دو نفل پڑھ لیں پھر قبا میں عصر کی نماز پڑھ لیں، مسجد قبا کے صحن میں اتارتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں ذرا ایک صاحب کو مسجد نبوی شریف سے ہوٹل تک پہنچا کر آجاﺅں۔ جتنی دیر میں ہم نے مسجد قبا میں دو نفل ادا کیں، تلاوت قرآن کریم کی ، آرام کیا اور عصر ادا کی، اتنی دیر میں وہ اپنا کام کرکے آگئے۔
(باقی آئندہ)
 
 
 
 
 

شیئر: