وہ تو شادی سے پہلے ہی 10بچوں کی اماں لگتی تھی
شہزاد اعظم۔جدہ
خواتین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں برداشت اور صبر کا مادہ بے انتہا ہوتا ہے۔یہ بات 99فیصد درست ہو سکتی ہے مگر کم از کم ایک فیصد صریحاًغلط، بے بنیاد اور جھوٹ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی عورت کسی دوسری عورت کی تعریف برداشت نہیں کر سکتی۔خواہ اس سے آپ کا رشتہ کچھ بھی ہو ،آپ اس کے سامنے کسی زنانی کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں تو وہ جُزبُز ہوکر رہ جاتی ہے اور جلا کٹا جواب دیتی ہے جس سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ اسے آپ کی بات ایک آنکھ نہیں بھائی۔
غور کیا جائے تواس حقیقت کی عکاس مثالیں آپ کو اپنے ارد گرد بکھری نظر آئیں گی۔ ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ انہیں رخصتی سے قبل اپنی منکوحہ کے ساتھ ایک 5ستارہ ہوٹل میں عشائیہ تناول کرنے کا موقع ملا۔انہوں نے غنیمت جانتے ہوئے شادی شدہ زندگی کے بارے میں کچھ منصوبہ سازی کرنے کاارادہ کیا مگر بات چیت کا سلسلہ کچھ اس طرح شروع ہوا کہ ان کے تمام ارادوں پر پانی پھِر گیا۔ہمارے دوست نے کہا !
ہوا یو ںکہ ہماری اہلیہ نے دریافت کیا کہ آپ فارغ اوقات میں کیا کرتے ہیں؟ہم نے کہا کہ ایشوریہ رائے کی فلمیں دیکھتے ہیں۔بس میرا یہی جواب تھا جس نے ماحول کا رنگ ہی بدل کر رکھ دیا۔اہلیہ نے حقارت آمیز افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو لمڈھینگ بہت زیادہ پسند ہیں کیا؟میں نے کہا کہ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔وہ گویا ہوئیں کہ پھر ان محترمہ کے ایسے کون سے ”لچھن“ہیں جو آپ کو زیر کرگئے؟میں نے کہاکہ ان کی آنکھوں کی سب ہی تعریف کرتے ہیں۔وہ بولیں ،جی ہاں!اکثر گوالے اس کی آنکھوں کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ وہ بھینسوں کے دیدے دیکھتے رہتے ہیں اس لئے انہیں انسانوں کی آنکھ نہیں بلکہ دیدے ہی اچھے لگتے ہیں۔
میں نے کہا کہ صرف ایشوریہ ہی نہیں،مادھوری کی فلم مل جائے تو اسے بھی بن دیکھے واپس نہیں کرتا۔وہ بولیں کہ ہاں، ہمارے ہاں کے تمام جمعدار اسے بے حد پسند کرتے ہیں۔صبح سویرے جب میں یونیورسٹی جانے کے لئے نکلتی تھی تو سڑک پر جھاڑو دینے والے چوڑے یا بھنگی اسی کی فلموں کے گانے گنگنانے میں مگن نظر آتے تھے۔ویسے کیا آپ کو منہ کے بڑے دہانے پسند ہیں کہ ہنستے ہوئے پوری بتیسی نظر آئے؟میںنے کہا کہ ایسا بھی نہیں۔پھر سوال کیا کہ سری دیوی بھی ٹھیک ہی تھی۔بولیں کہ وہ تو شادی سے پہلے ہی 10بچوں کی اماں لگتی تھی۔آپ نے کوئی موٹی کیوں تلاش نہیں کر لی؟
اس گرما گرم اور ”ترکی بہ ترکی“ ماحول کو بدلنے کے لئے میں نے اپنا رخ لالی وڈ کی جانب کیا کہ شاید وطنیت کا جذبہ میری اہلیہ کے کانوں سے نکلنے والی بھاپ کم کر سکے۔میں نے کہا کہ ویسے تو بابرا شریف کا بھی منفرد انداز ہے۔وہ پیر پٹخ کر گویا ہوئیں کہ اس سے واضح ہوا کہ یا توآپ کو اپنی خالہ سے بہت محبت ہے اور اگر ایسا نہیں تو آپ کباڑی کی دکان کھول لیجئے۔یوں آپ کو اپنے چاروں طرف پرانا مال نظر آتا رہے گا اور آپ لاشعوری طور پر شاداں و فرحاں رہیں گے۔میں نے ایک تیر سے دو شکار کھیلنے کی کوشش کی اور بولا کہ ویسے میری ساس یعنی آپ کی والدہ ماجدہ بھی بہت اچھی خاتون ہیں اور انکے ناک نقش بھی بہت خوبصورت ہیں۔میری اہلیہ نے یہاں بھی مجھے پچھاڑ دیا اور بولیں،اماں کے بارے میں سنا کرتے ہیں کہ وہ کم عمری میں بہت حسین تھیں۔اب تو بے چاری تمام رعنائی کھو چکی ہیں۔بڑھاپا جو ان پر طاری ہو گیا۔ویسے بھی میں نے کہا نہ کہ آپ کو خالہ اور خالہ جیسیوں سے بہت پیار ہوگا۔
جب کسی طور ماحول بہتر نہ بنا سکا تو میں نے آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے اہلیہ سے کہا کہ سچ یہ ہے کہ مجھے ایشوریہ،مادھوری، سری دیوی اور بابرا میں جو خوبیاں نظر آتی تھیں وہ سب کی سب آپ کے اندر موجود ہیں۔وہ سبق آموز انداز میں اس گفتگو کے دوران پہلی مرتبہ مسکرا کر بولیں،میرے بارے میں اکثریت کی رائے یہی ہے۔