قربانی سے فارغ ہوکر اپنے سر کے سارے بال منڈوالیں یاکچھ بال کٹوالیں دونوں طرح ہی جائز ہے ۔ سورہ الفتح ،آیت27میں دونوں صورتوں کا ذکر یوں آیا ہے :
’’ان شاء اللہ تم ضرور مسجد حرام میں پورے امن کے ساتھ داخل ہوگے اپنے سر منڈوائو گے اوربال کٹوائو (ترشوائو)گے اور تمہیں کوئی خوف نہیں ہوگا۔‘‘
اس ارشادِ الہٰی کی رُوسے جائز تودونوں صورتیں ہی ہیں لیکن سرمنڈوانا افضل ہے کیونکہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی نے3 مرتبہ فرمایا :
اے اللہ !سر منڈوانے والوں کی مغفرت فرما ۔‘‘
اورچوتھی مرتبہ فرمایا :
’’اورکچھ بال کٹوانے والوں کی بھی ۔‘‘
حجۃ الوداع کے موقع پر خود نبی اکرم کا پورا سر منڈوانا صحیح بخاری ومسلم میںثابت ہے لہٰذا یہی افضل بھی ہے جس کی تفصیل صحیح بخاری اور فتح الباری میں دیکھی جاسکتی ہے ۔
حلق یاتقصیر کے وقت یہ بات پیش نظر رہے کہ بال کاٹنے کامسنون طریقہ یہ ہے کہ پہلے سر کے دائیں طرف سے کاٹے یاکٹوائے اور پھر بائیں طرف سے جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت انسؓ فرماتے ہیں :
’’نبی (مزدلفہ سے )منیٰ آئے اورجمرہ عقبہ پررمی کی پھر منیٰ میں اپنی اقامت گاہ پرآئے اورقربانی کی، پھر بال کاٹنے والے کو بلایا اور اسکے سامنے اپنے سرِ اقدس کا دایاں پہلو کیا ،پھر حضرت ابوطلحہ ا نصاری ؓ کو بلاکر یہ بال انہیں پکڑادیئے، پھر سرِ اقدس کا بایاں پہلو بال کاٹنے والے کی طرف کرکے فرمایا: مونڈو ، اس نے وہ پہلو بھی مونڈ دیا، وہ بال بھی آپ نے حضرت ابوطلحہؓ کوپکڑائے اورفرمایا : یہ لوگوں میں بانٹ دو ۔‘‘
حلقِ رأس کاحکم صرف مردوں کے ساتھ خاص ہے۔ عورتوں پرصرف تقصیر ہے کیونکہ ابودائود ، ودارمی اور دارقطنی میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ارشادِ نبوی ہے :
’’عورتوں کیلئے سر منڈوانا نہیں ان کیلئے کچھ بال کاٹنا ہی کافی ہے ۔‘‘
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ جب قصر کرنا ہو تو بالوں کو جمع یعنی اکٹھے کرکے ان میں سے انگلی کے پَورے کے برابر کاٹ لئے جائیں ۔ اس میں معمولی کمی بیشی ہو تو بھی حرج نہیں ۔ مرد اس سے زیادہ بھی کاٹ سکتے ہیں مگر عورتیں ایک پورے سے زیادہ نہ کاٹیں۔ سر کے بالوں کے بعد ناخن وغیرہ کاٹنا بھی علامہ ابن قیم ؒ کی تحقیق کے مطابق مسنون ہے ۔
اب احرام کھول دیں اور خوشبو وغیرہ لگائیں کیونکہ صحیحین ،سنن اربعہ اور مؤطاامام مالک میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے :
’’میں آپ کو احرام باندھنے سے پہلے اورطوافِ افاضہ (یاطواف ِزیارت) سے پہلے خوشبو لگایاکرتی تھی ۔ ‘‘
اب صر ف بیوی سے ازدواجی تعلق کو چھوڑ کر باقی وہ تمام اشیاء حلال ہوگئیں جو احرام کی وجہ سے حرام تھیں مگر بیوی سے تعلق صرف تب حلال ہوتاہے جب طوافِ افاضہ بھی کرلیاجائے۔ یہی وجہ ہے کہ طواف سے پہلے والے اس احرام اتار نے کی حالت کو’’تحلل اول‘‘ کہاجاتا ہے اورطواف کرلینے کے بعد بیوی سے تعلق بھی حلال ہوجاتاہے لہٰذا اسے ’’تحللِ ثانی‘‘ یا ’’تحللِ کلی‘‘ کہا جاتا ہے ۔