جس طرح رسول اکرم کی ذات گرامی شرف وفضل کا درجہ رکھتی ہے اسی طرح ازواج مطہراتؓ بھی اپنی ذات میں افضل اور اشرف ہیں
ڈاکٹر محمد امین عامر۔مغربی بنگال
خطہ ارض پر طبقہ اناث میں امہات المومنین یا ازواج مطہرات کا وہ طبقہ نہایت پاکیزہ ترین ، معزز ترین اور محترم ترین طبقہ ہے جنہیں یہ خصوصیات اور عزت واحترام نبی کے عقد میں شا مل رہنے کی وجہ سے حاصل ہے ۔قرآن کریم نے گرچہ کسی ایک امّ المومنین کا بھی نام نہیں لیا مگر ”امہات “ اور ”ازواج“ کے الفاظ استعمال کر کے سبھی امہات المومنین اور ازاوج مطہرات کو یہ شرف اور اعزاز بخشا ہے کہ وہ عام مسلمان عورتوں کے نسبتاً احترام و عزت اور شرف واعزاز میں حد درجہ افضل و اکرم ہیں اور ان کا مقام و مرتبہ دیگر مسلم خواتین سے بہت بلند وبالا ہے۔ اس مقالہ میں ہماری یہ کوشش ہے کہ قرآن و حدیث کے آئینے میں امہات المومنین کی ذات گرامی اور انکے مقام و مرتبے کا جائزہ لیں تاکہ زندگی کی آخری سانس تک ان کا پاس و لحاظ اور آداب و احترام ملحوظِ خاطر رہے اور ذرہ برابر بھی انکے تعلق سے کوئی منفی خیال وسوسہ انداز نہ ہو سکے۔
سب سے پہلے ہم قرآن مجید کے حوالے سے امہات المو¿منین پر گفتگو کریں گے اور ان سے متعلق آیات پر دیگر مفسرین کی بحث پیش کریں گے۔قرآن میں ہمیں سب سے پہلے سورة الاحزاب کی یہ آیت ملتی ہے جس میں پیغمبر اسلام کی بیویوں کو مومنوں کی ماوں سے تعبیر کر کے عام مسلمانوں کو ان کی عزت اور احترام ملحوظ رکھنے کی ہدایت اور تعلیم دی گئی ہے،چنانچہ قرآن کا فرمان ہے
”نبی کا مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق ہے ،اور آپ() کی بیویاں ان کی مائیں ہیں،اور اللہ کے حکم میں مسلمانوں اور ہجرت کرنے والوں سے زیادہ آپس کے رشتہ داروں کا ایک دوسرے پر حق ہے سوائے اس کے کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ احسان کرو،یہ کتاب کا لکھا ہے۔( الاحزاب6)۔
اس آیت میں عام مسلمانوں سے نبی کی بالاتر شخصیت اور ذات گرامی کا تذکرہ کرنے کے علاوہ آپ کی ازواج کا بھی تذکرہ کر کے مسلمانوں کے یہ ذہن نشیں کرایا گیا ہے کہ جس طرح رسول اکرم کی ذات گرامی شرف وفضل کا درجہ رکھتی ہے اسی طرح ازواج مطہراتؓ بھی اپنی شخصیت اور ذات میں نہایت افضل اور اشرف ہیں یعنی ان کے احترام و تکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں مومن مردوں اور مومن عورتوں کی وہ مائیں ہیں۔
نبی کا مسلمانوں سے اور مسلمانوں کا نبی سے جو تعلق ہے وہ تو تمام دوسرے انسانی تعلق سے ایک بالاتر نوعیت رکھتا ہے۔کوئی رشتہ اس رشتہ سے اور کوئی تعلق اس تعلق سے جو نبی اور اہل ایمان کے درمیان ہے، ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا اور نبی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی منہ بولی مائیں تو کسی معنیٰ میں بھی ان کی ماں نہیں لیکن نبی کی بیویاں اسی طرح ان کے لئے حرام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں حرام ہیں۔یہ مخصوص معاملہ نبی کریم کے سوا دنیا میں کسی اور انسان کے ساتھ نہیں۔ اس سلسلہ میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ازواجِ نبی صرف اس معنیٰ میں امہات المومنین ہیں کہ ان کی تعظیم وتکریم مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح نہیں ہو سکتا تھا۔
امہات المومنین کی زندگی کا ایک آئینہ وہ ہے جس میں ان کی کچھ ایسی تصویر بھی عام عورتوں کی طرح جھلکتی نظر آتی ہے جسے قرآن نے واضح الفاظ میں پیش کیا ہے مگر امہات المو¿منین کو جب قرآن کی وہ آیت سنائی گئی تو انہوں نے” سمعنا و اطعنا“ کے مصداق رسول اللہ سے علیحدگی اختیار کرنا گوارا نہ کیا اور آپ کی صحبت میں رہ کر دنیا کے عیش وآرام کو آخرت کی ابدی زندگی پر ترجیح دی چنانچہ قرآن انکا وہ آئینہ اس طرح پیش کرتا ہے
اے نبی() ! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی¿ دنیا اور زینت ِ دنیا چاہتی ہو تو آو¿ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں اور اگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اورا ٓخرت کا گھر ہے تو (یقین مانوکہ) تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست اجر رکھ چھوڑے ہیں۔(الاحزاب29,28)۔
اس آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف رقمطراز ہیں
فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہو گئی تو انصار و مہاجر ین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا۔نبی چونکہ نہایت سادگی پسند تھے ،اس لئے ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئے اور بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی جو ایک مہینہ تک جاری رہی۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے آیتِ مذکور نازل فرما دی۔ اس کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضرت عائشہؓ کو یہ آیت سنا کر انہیں اختیار دیا تا ہم آپ نے انہیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کے بجائے اپنے والدین سے مشورہ کے بعد کوئی اقدام کرنا۔حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا :یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں آپکے بارے میں مشورہ کروں ؟ بلکہ میں اللہ اور رسول اللہ کو پسند کرتی ہوں۔ یہی بات دیگر ازواج مطہرات ؓ نے بھی کہی اور کسی نے بھی رسول کو چھوڑ کر دنیا کے عیش وآرام کو ترجیح نہیں دی۔
(مکمل مضمون روشنی میں ملاحظہ کریں)