مالدیپ کے احتجاج سے میانمار کو کوئی فرق نہیں پڑے گا تاہم حق کی آواز بلند کرنے کے ریکارڈ کا اندراج ہوگا
* * *سید شکیل احمد* * *
جب میا نما ر کی فوج اور بدھ مت کے انتہا پسند پیر و کار مظلو م روہنگیا مسلما نو ں کو اپنی بر بریت اور شدائد کا نشانہ بنا کر ان کو جنگلو ں میں دھکیل رہے تھے، اس وقت ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مو دی میا نما ر کی قائد آنگ سان سوچی کے ساتھ مل کر یہ ہمدردانہ الفاظ ادا کررہے تھے کہ وہ میا نما ر میں رخائن کے علا قہ میں حکومت کو تشدد پسند و ں کی جانب سے پیش مشکلا ت کا احساس ہے جبکہ دوسری جانب پوری دنیا رخائن کے مظلو م مسلمانو ں سے ہمد ردی کا اظہا ر کررہی ہے ، حتیٰ کہ جنو بی ایشیا کا ایک ننھے منّے سے ملک مالدیپ نے میا نما ر سے تجا رتی تعلقات منقطع کر نے کا اعلان بھی اسی مو قع پر کیا ہے ۔مالدیپ ایک چھو ٹا ملک ہے۔ اس کی طرف سے تجا رتی بائیکا ٹ کے فیصلے سے میانما ر کو کوئی فرق تو نہیں پڑ ے گا تاہم عالمی سطح پر ایک ننھے سے ملک کی جانب سے حق کی آواز بلند ہو نے کے ریکا رڈ کا اندراج توہو جائے گا ۔
جہا ں تک روہنگیا مسلما نو ں کا مسئلہ ہے، وہ مفاہمت کے ذریعے حل ہوسکتا ہے۔ہند ، چین اور روس یہ3 ممالک ہیں جو سب سے زیا دہ مدد میانما ر کی کر تے ہیں اور ان کا میانما ر کی حکومت پر گہر ا اثر ہے چنانچہ یہ تینوں ممالک کوشش کریں اور میا نمار حکومت پر دباؤ بڑھائیں تو نہتے مسلمانوں کا قتل عام بھی بند کر اسکتے ہیں اور مستقل حل بھی تلا ش کر سکتے ہیں ۔ جہا ں تک ہندوستانی رویے کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل کی جنگی حکمت عملی میں نئے طور طریقوں کے موضوع پرمنعقدہ سیمینا ر سے خطاب کر تے ہوئے ہندکے آرمی چیف جنر ل بپنراوت نے کہا ہے کہ چین اور پاکستان کے ساتھ2محا ذوں پر بیک وقت جنگ کے امکا نا ت ہیں اور یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ جمہو ری وجوہر ی ممالک جنگ میں نہیں کود تے، یہ ایک بے بنیا د تصور ہے اور ہمارے معاملے میں درست نہیں ۔ ہند کو چین اور پاکستان سے خطرہ ہے جبکہ پاکستان سے مصالحت کا کوئی امکان نہیں ،چین نے اپنی طا قت دکھانا شروع کر دی ہے اور آہستہ آہستہ ہندکی زمین پر قبضہ کرنے کا ارداہ رکھتا ہے ۔ ہند کے آرمی چیف نے یہ بات چین کے ساتھ ڈوکلا م کے تنا زع پر اپنی فوجیں پیچھے ہٹانے کے بعد کہی ہے۔ڈوکلا م پر چین کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کا علا قہ ہے ۔ عام خیال یہ تھا کہ ہند کی جانب سے فوجوں کی واپسی کے بعد حالات کو سنو ارنے میں مدد ملے گی مگر عملاًایسا نہیں لگ رہا کیونکہ جنرل پین نے فوج کو جنگ کیلئے تیا رکر نے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی جنگ کیلئے تیا ر کر نے کا منصوبہ پیش کیا ہے ۔حیر ت کی بات ہے کہ برکس کا نفرنس میں دہشتگردی کے بارے میں جو قرار داد منطو رکی گئی ہے ، اس کے بارے میںہندوستانی میڈیا جیت کا جشن منا رہا ہے اور ہندکی ایک بہت بڑی سفارتی کا میا بی قر ار دے رہا ہے ۔
برکس اتحاد ، جس میں 5 ممالک شامل ہیں ،9سال ہو گئے ہیں۔ یہ اتحاد دراصل چین ،جنو بی افریقہ ، اور برازیل نے مل کر بنایا تھا جس میں بعد ازاں روس اور ہندبھی شامل ہو گیا تھا۔ اس اتحاد کا مقصد بنیا دی طور پر صنعتی اور تجا رتی طو رپر ترقی یا فتہ ممالک کی اجا رہ داری کو تو ڑ نا تھا اور اپنی معاشی حا لا ت کو مستحکم کرنا تھا۔ گویا یہ یو رپی یونین کی طر ز کا اتحاد ہے۔ ان ممالک نے اپنی کرنسی کے استحکا م کیلئے بھی کا م کیے اور آپس میں لین دین مقامی کرنسی میں کر نے کا فیصلہ کیا تاکہ عالمی مالی اداروں سے جان خلا صی ہو سکے تاہم حیر ت کی بات یہ ہے کہ یہ اتحاد سرمایہ کا ری کی بنیا د رکھتا ہے جبکہ چین سرما یہ داری مخالف نظریہ کا ملک قرار پا تا ہے۔ ان حالا ت میں اس کی اتحاد میں شمولیت عجیب سی ہے۔ ہند میں سرمایہ داری اوراشراکیت کا ملا جلا رحجا ن ہے، اس کی حد تک بات درست ہے ، تاہم اگر ان ممالک کا جائزہ لیا جا ئے تو چین کے مقابلے میں ہند کی سالا نہ شرحِ ترقی چین کے مقابلے میں زیا دہ ہے۔، وقت کے ساتھ ساتھ طا قت کا توازن بدل رہا ہے اس لئے مستقبل میں برکس کی رکنیت کا دائر ہ بھی بڑھے گا کیونکہ اقوام عالم کے نا م پر جو ادارے کا م کر رہے ہیں ا ن پر سے اعتما د کم ہو تا جا رہا ہے ۔دنیا کی سب سے بڑی 25 ملٹی نیشنل کمپنیو ں میں سے 19 کا تعلق امریکہ سے ہے تو اس سے اند ازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے یو رپ کو کس طرح اپنی معیشت میں جکڑ رکھا ہے ۔ جہا ں تک چین اورہند کا تعلق ہے تو ان کا بھی سرمایہ ان ملٹی نیشنل کمپنیو ں کی وجہ پھنس کر رہ گیا ہے اور یہ بڑی رکا وٹ کا باعث ہیں چنا نچہ ہند کا رحجان امریکہ کی طرف انھی مجبوریو ں کی بنا ء پر جھکا ہو اہے ۔
اسی طر ح روس میں نجی ملکیت کی قانو ن سازی کے بعد بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا رحجا ن روس کی جانب نہیں اور نتائج مختلف آرہے ہیں ۔مثلا ًرواں سال امریکہ کا جی ڈی پی18ٹریلین ڈالر رہا جبکہ برکس ممالک کا مجموعی طو رپر 37 ٹریلین ڈالر رہا۔ اسی طرح برکس کا گروتھ ریٹ5 فیصد ہے جبکہ امریکہ کا گروتھ ریٹ صرف 2 فیصد رہا ہے۔ اس طرح برکس کا پیدا واری ریٹ امریکہ کے مقابلے میں ڈیڑ ھ سو فیصد زیادہ ہے۔ اگر برکس کی کا میا بیو ں کا جا ئزہ لیا جا ئے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بہت تھوڑے عرصے میں برکس ممالک نے ترقی کی ہے جس کا اندازہ یو ں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کا دفاعی بجٹ برکس کے مقابلے میںدوگنے سے بھی زیا دہ ہے مگر جنگی صلا حیت صرف چین کے برابر ہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ چین دنیا کی ایک نئی سپر پا ور بن گیا ہے۔
اس نے دنیا کی سب سے بڑی دوربین ایجا د کر کے خلا ئی تحقیق میں ترقی یا فتہ ممالک سے بھی آگے قد م بڑھا دیا ہے اور امریکہ سمیت کئی ممالک کی خلا ئی اجا رہ داری کو تو ڑ دیا ہے۔ اسی طرح اس نے اپنے تعلیمی نظام میںبڑی جدت پیدا کی ہے اور تعلیم پرسب سے زیادہ خرچ کر نے والا ملک بن گیا ہے ۔ معاشی طور پر اس کی مضبوطی کا عالم یہ ہے کہ ڈالر ز کے ذخائر کے لحاظ دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے اور اس کو وہ اقتصادی جنگ کے طور پر بھی استعمال کر سکتا ہے ۔ برکس اتحاد جو صرف مالی اتحاد نہیں بلکہ معاشی ، معاشرتی ، سیا سی اور دفاعی بنیا دو ں پر بھی اتحا د ہے تو ایسے میں ہند اور چین کے درمیان جنگ کے امکا نا ت کیسے قرار پا تے ہیں اور ہندوستانی آرمی چیف کی جانب سے جو ہر ی جنگ کی بات کرنا عجب مخمصہ ہے ۔
اس مر حلے پر انھو ں نے پاکستان کی بات بھی کی ہے۔ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ایسے اتحا د سے کیو ں دور ہے جبکہ گزشتہ سال برکس کا نفرنس میں دہشتگردی کے حوالے سے پاکستا ن کو ملو ث کر نے کی قرار داد کو چین نے ویٹو کر دیا تھا مگر اس مرتبہ جو قرا ر داد منظور کی گئی ہے ایک تو یہ کہ برکس کا اجلاس چین کے شہر میں ہو ا۔دوم اس قرا ر داد کی منظوری پر ہند بغلیں بجا رہا ہے ، گو یا قرار داد براہ راست پاکستان کو ملوث قرار نہیں دیتی بلکہ یہ قرار داد اُن مبینہ تنظیمو ں کے بارے میں ہے کہ جن پر الزام لگایا جا تا ہے کہ وہ دہشتگردی کی کا رروائیوں میں ملوث ہیں ۔ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اس قرار داد کو مستر د کر دیا اور کہا ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں موجو د ہیں ۔