Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چھوٹے بھائی نے اداکارہ زیبا کو خط لکھ دیا اور پھر۔۔۔۔

چھوٹے بھائی نے اداکارہ زیبا کو خط لکھ دیا اور پھر۔۔۔۔ چھوٹے بھائی طاہر مسعود نے اسکول کے زمانے سے ہی لکھنا شروع کردیا،مغربی پاکستان کے ادبی رسالوں میں ان کے افسانے چھپنے شروع ہو گئے
* * *خالد مسعود،ریاض* * *
(دوسری قسط)
راجشاہی شہر دریائے پدما کے کنارے آباد ہے اور دریا کے دوسرے کنارے مرشدآ باد صاف نظر آتاتھا جو ہندوستان میں تھا۔راجشاہی شہر تعلیم کا گہوارہ تھا۔یونیورسٹی، میڈیکل کالج ، انجینئرنگ کالج غرض سارے تعلیمی ادارے موجود تھے۔ دور دراز سے لوگ تعلیم حاصل کر نے راجشاہی آتے۔۔ہمارا داخلہ مسلم ہائی اسکول میں ہوا جہاں اردو پڑھائی جاتی تھی لیکن لڑکیوں کا کوئی اسکول نہیں تھا اسلئے سب بہنوں نے بنگلہ میڈیم سے پڑ ھا۔۔اردو لائبریری نام سے شہر میں ہماری واحد دوکان تھی جہاں اردو کی ساری ادبی کتابیں رسالے اور ٹیکسٹ بک دستیاب تھیں۔۔فارغ وقت میں ہم اپنی لائبریری میں ہی بیٹھ کر بچوں کے رسالے پڑھاکرتے ۔لائبریری کا ہمیں ایک یہ فائدہ ہوا کہ ہمارا رحجان اردو ادب سے ہوگیا میرے چھوٹے بھائی طاہر مسعود نے اسکول کے زمانے سے ہی لکھنا شروع کردیا اور مغربی پاکستان کے ادبی رسالوں میں ان کے افسانے چھپنے شروع ہو گئے۔جس میں نقاد' سیپ' نقوش اور آداب عرض شامل ہیں۔مجھے آج بھی یاد ہے جب طاہر نے اپنا پہلا افسانہ جب وہ پانچویں جماعت میں تھے محلے کی ایک ہندو بیوہ پر لکھا جو’’ آداب عرض‘‘ لاہور سے شائع ہوا تو اسکول میں ایک کھلبلی مچ گئی۔ اس وقت معاشرہ شاید کچھ تنگ نظر تھا۔
اسکول ٹیچر نے لعنت ملامت کی کہ اس عمر میں افسانہ لکھتا ہے۔۔۔! لیکن میرے ابی نے طاہر کی بہت حوصلہ افزائی کی اگر وہ حوصلہ افزائی نہ کرتے تومیں سمجھتا ہوں کہ آج طاہر کا شمار صدارتی ایوارڈ یافتہ ادیب، ممتاز کالم نگار اور ایک منجھے ہوئے صحافی کی حیثیت سے نہ ہوتا کیونکہ استاد نے تو ادبی صلاحیتوں کا گلا گھونٹ دیا تھا یہ تو ابی کی حوصلہ افزائی تھی جس نے اس کو دوبارہ کھڑا کیا۔۔۔۔!
 بچپن کا زمانہ ہوتا تھا، خوشیوں کا خزانہ ہوتا تھا
 چاہت چاند کو پانے کی، دل تتلی کا دیوانہ ہوتا تھا
 رونے کی وجہ نہ ہوتی تھی، ہنسنے کا بہانہ ہوتا تھا
 خبر نہ تھی کچھ صبح کی، نہ شاموں کا ٹھکانہ ہوتا تھا
 دادی کی کہانی ہوتی تھی، پریوں کا فسانہ ہوتا تھا
 پیڑوں کی شاخوں کو چھوتے تھے، مٹی کا کھلونا ہوتا تھا
 غم کی زباں نہ ہوتی تھی، نہ زخموں کا پیمانہ ہوتا تھا *
بارش میں کاغذ کی کشتی، ہر موسم سہانا ہوتا تھا
  وہ کھیل وہ ساتھی ہوتے تھے، ہر رشتہ نبھانہ ہوتا تھا۔۔۔!!!
بچپن کی یادوں میں ایک یاد کبھی نہیں بھولتی جب ہمارے ابی نے اسکول کی چھٹیوں میں اپنے ساتھ ہم تینوں بھائیوں کو فلم ’’آگ‘‘ دکھائی ۔ جس میں محمد علی اور زیبا کا کردار تھا ۔فلم دیکھنے کے بعد بھائی طاہر نے ایک خط زیبا کو جوابی پوسٹ کارڈ پر لکھ دیا۔ اس زمانے میں پوسٹ آفس کا جوابی کارڈ ہوا کرتا تھا جو وصول کنندہ بغیر چارجز کے اس پوسٹ کارڈ پر جواب بھیج سکتا تھا۔ غلطی سے بھیجنے والے کا پتہ جو اندر کی طرف ہونا چا ہیے تھا اوپر کی طرف کردیا ۔نتیجتاً وہ خط طاہر کے پتہ پر واپس آگیا جس میں اس نے اپنے اسکول کا پتہ دیا تھا۔ اب وہ خط ہیڈ ماسٹر کے ہاتھ لگ گیا ۔
اب انہوں نے طاہر کی جو گت بنائی کہ فلم اسٹار کو اس عمر میں خط لکھتا ہے۔۔وغیرہ وغیرہ طاہر کو محسوس ہوا کہ اس نے کوئی بہت بڑا جرم کر دیا ہے۔ احساس جرم کی وجہ سے اس کی پریشانی چہرے سے ٹپکنے لگی۔ ابی کو جب ساری باتوں کا پتہ چلا تو انہوں نے کہا پریشان کیوں ہوتے ہو تم نے تو بہت اچھی بات لکھی ہے۔ طاہر نے اپنے خط میں زیبا کی اداکاری کی تعریف کی تھی اور مشورہ دیا تھا کہ آپ کسی غیر مرد کے سا تھ کام نہ کیا کریں صرف اپنے شوہر کے ساتھ کام کیا کریں۔۔ابی نے کہا۔۔۔!
ہاں البتہ تم نے ایک غلطی کی کہ پتہ الٹا کردیا اور خط زیبا کو نہیں مل سکا۔۔ابی کی تربیت کا یہ انداز تھا جس سے ہمیں خود اعتمادی ملی۔۔۔! جب ہم اپنے بوسیدہ مکان سے نئے مکان میں شفٹ ہوئے تو اس نئے گھرکے آنگن میں ٹیوب ویل بھی تھا۔ شفٹ ہوتے ہی ابی نے محلے میں اعلان کر دیا کہ جسے بھی پانی کی ضرورت ہو ہمارے گھر سے لے جائے ۔محلے کی عورتیں اپنا صراحی مٹکا لیکر آتیں اور پانی بھرکر لے جاتیں ان میں محلے کی ہندو عورتیں میںہوتی تھیں ہم شرارتاً انہیں ہاتھ لگا دیتے تو وہ رام رام کہہ کر سارا پانی بہا دیتیں اور پھر دوبارہ پانی بھرتیں کہ ایک مسلمان نے انہیں ہاتھ لگا دیا تعصب کا یہ حال تھا۔
پھروہ میرے ابی سے شکایتیں کرتیں تو ابی ہمیں سمجھاتے کہ بیٹا کسی کو تکلیف پہچانا اچھی بات نہیں ہے یہ ہمارے پیارے نبی کی تعلیم کے خلاف بات ہے۔ ریلوے اسٹیشن پر ہمارا ایک بک اسٹال بھی ہوتا تھا کسی مسافر کی ٹرین چھوٹ جاتی تو ابی اسے اپنے گھر لے آتے ۔اسے کھانا کھلاتے اور اس وقت تک رکھتے جب تک دوسری ٹرین نہ مل جاتی۔۔ آج جب یہ باتیں یاد آتی ہیں تو سوچتا ہوں کہ۔۔۔ وقت کتنا بدل گیا ہے اس وقت نہ دروس کی محافل ہوتی تھیں نہ حدیث پڑھنے کو ملتی تھی۔ آج دروس کی محافل بھی ہیں اور روزانہ حدیث پڑھنے کو بھی ملتی ہیں لیکن ہم عمل سے کتنے دور ہیں اور نہ ہمارے رویئے میں کو ئی تبدیلی نظر آتی ہے۔

شیئر: