ماہ محترم کی فضیلت و عظمت کیلئے یہ بات کافی ہے کہ رسول اللہ نے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے
* * * مولانامحمد عابد ندوی۔ جدہ* * *
اسلامی سال کا پہلا مہینہ ماہ محرم بڑی عظمت و فضیلت والا اور محترم مہینہ ہے۔ سورہ توبہ آیت 36 میں یہ حقیقت بیان ہوئی کہ سال کے12 مہینوں میں 4 مہینے محترم ہیں جنہیں’’ اشھر حرم ‘‘ کہا جاتا ہے۔ حدیث پاک کی رو سے یہ4 مہینے رجب، ذوقعدہ، ذوالحجہ اور محرم کے مہینے ہیں۔ ماہ محرم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہوئے اسے " اللہ کا مہینہ" کہا گیا۔ حضرت ابو غفارؓ روایت کرتے ہیں کہ میںنے رسول اللہ سے دریافت کیا کہ رات کا کونسا حصہ بہتر ہے اور (مہینوں میں) کونسا مہینہ افضل ہے؟ رسول اللہنے ارشاد فرمایا: ’’ رات کا بہترین حصہ اس کا درمیانی حصہ (یعنی آدھی رات کے بعد کا حصہ) ہے اور افضل مہینہ اللہ کا مہینہ ہے جسے تم لوگ محرم کہتے ہو‘‘(سنن کبر ی نسائی/ دارمی) ۔ اس طرح حضرت ابوہریرہؓ ایک روایت اس طرح نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’ رمضان کے مہینے کے بعد افضل روزہ اللہ کے مہینے کا روزہ ہے جسے تم لوگ محرم کہتے ہو اور فرض نماز کے بعد افضل نماز رات کی نماز ہے‘‘ (صحیح مسلم )۔ ان احادیث کی بنا پر بعض اہل علم کی یہ رائے منقول ہے کہ ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل مہینہ محرم ہے اور اس ماہ میں نفل روزوں کا اہتمام بہتر و پسندیدہ اور باعث فضیلت ہے۔ ماہ محرم کی فضیلت و عظمت کیلئے یہ بات کافی ہے کہ رسول اللہ نے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہوئے اسے اللہ کا مہینہ فرمایا۔ جب کسی چیز کی نسبت اللہ کی طرف ہوجائے تو یہ اس کیلئے باعث شرف بات ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی تعریف کرتے ہوئے انہیں " رحمان کے بندے" کہا (الفرقان 63 )خانہ کعبہ کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوے اسے " میرا گھر" کہا(البقرہ 125، الحج 26 )۔
رؤے زمین کی دیگر مساجد کی عظمت کا راز بھی یہی ہے کہ انہیں احادیث مبارکہ میں " اللہ کا گھر" کہا گیا۔ اسی طرح ماہ محرم کو اللہ کا مہینہ قرار دینے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس مہینہ کاایک خاص مرتبہ ہے۔ طاعات و عبادات او راعمال صالحہ میں روزہ کا بھی ایک خاص مقام ہے۔ دیگر اعمال صالحہ کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے روزہ کی نسبت بھی خاص طور پر اپنی طرف کی ہے،جیسا کہ ایک حدیث قدسی کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: " روزہ میرے لئے ہے اور میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا کیونکہ روزہ دار نے میری وجہ سے اپنی خواہشات اور کھانا پینا چھوڑا ہوتا ہے۔" (متفق علیہ) ۔ جب روزہ کی نسبت اللہ کی طرف اور تمام مہینوں میں محرم کا مہینہ " اللہ کامہینہ" ہے تو پھر نفل روزوں کیلئے اس سے بہتر وقت اور مہینہ کونسا ہوسکتا ہے؟ جیسا کہ اوپر حدیث پاک میں صراحت گزری البتہ یہ حقیقت بھی ذہن میں رہے کہ شوال کے 6 روزے ، یوم عرفہ کا روزہ اسی طرح ذی الحجہ کے ابتدائی 9 دنوں میں روزوں کا اہتمام تو صحیح احادیث کی رُو سے زیادہ فضیلت والا عمل ہے جبکہ محرم کے روزوں کی فضیلت سے مطلق نفل روزوں کی فضیلت مراد ہے کہ نفل روزوں کیلئے زیادہ موزوں وقت اور مہینہ محرم کا مہینہ ہے۔ ماہ محرم اور اس میں نفل روزوں کی عمومی فضیلت کے ساتھ ساتھ اس مہینے کے دسویں دن کی اور اس دن روزہ رکھنے کی خاص فضیلت ہے۔ محرم کے دسویں دن کو اصطلاح میں یوم عاشوراء کہا جاتا ہے۔ بعض صحیح احادیث او رتاریخی روایتوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ماضی میں اس دن (یعنی 10 محرم کو ) بڑے اہم امور انجام پائے۔ مثلاً اس دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جو دی پہاڑ پر رکی۔
اس دن اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لشکر کو دریا میں غرق کرکے بنی اسرائیل کو ان کے ظلم و ستم سے نجات دی۔ ایک قول کے مطابق اس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے شرف ہمکلامی نصیب ہوئی۔ شاید انہی امور کے سبب یہود اس دن نہ صرف روزہ رکھتے ہیں بلکہ اسے عید اور خوشی کے طور پر مناتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں قریش بھی اس دن (یوم عاشوراء) کی تعظیم کرتے، کعبۃ اللہ کو غلاف پہناتے اور روزہ رکھتے تھے۔ منقول ہے کہ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، اسود بن یزید ؒ سے عبید بن عمیرؒ کہتے ہیں: ’’ محرم اللہ کا مہینہ ہے، اس میں ایک دن (یوم عاشورہ) ایسا ہے جس میں حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، اگر تم اس دن روزہ رکھ سکو توضرور روزہ رکھنا۔‘‘(لطائف المعارف )۔ اسی طرح حضرت وہب بن منبہؒ کہتے ہیں: ’’ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ وحی بھیجی کہ اپنی قوم کو حکم کرو کہ وہ عشرہ محرم میں میرا قرب حاصل کریں اور دسویں روز میری طرف متوجہ ہوں تاکہ ان کی مغفرت کردوں۔‘‘(لطائف المعارف ) ۔ الغرض زمانۂ قدیم سے عاشورہ محرم کو تاریخی اہمیت اور فضیلت و عظمت حاصل ہے۔ عاشورہ محرم کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر صحیح احادیث میں اس دن روزہ رکھنے کی ترغیب آئی ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن عباسؓسے ایک روایت اس طرح مروی ہے کہ رسول اللہ جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہود کو دیکھا کہ وہ یوم عاشورہ کو روزہ رکھتے ہیں۔ ان سے پوچھا کہ اس دن تم لوگ کیو ںروزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ عظیم دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ اسلام اوران کی قوم (بنی اسرائیل) کو نجات عطا فرمائی۔ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کردیا ۔ پس موسیٰ(علیہ السلام) نے اس دن شکرانہ کے طور پر روزہ رکھا، ہم بھی (اسی لئے) اس دن روزہ رکھتے ہیں،اس پررسول اللہ نے ارشاد فرمایا : ’’ ہم تم سے زیادہ موسیٰ (علیہ السلام) سے قریب اور حقدار ہیں۔‘‘ پس رسول اللہ نے خود اس دن روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی (یعنی اہل ایمان کو) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا(متفق علیہ)۔
عاشورہ محرم کے روزہ کے سلسلے میں مروی روایات کو سامنے رکھنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں رسول اللہ کا اپنا معمول اس دن روزہ رکھنے کا تھا لیکن آپ نے دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیا۔ ہجرت کے بعد لوگوں کو تاکید سے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا البتہ جب ماہ رمضان کے روزے فرض کردیئے گئے تب آپ نے اس کاحکم ترک فرما دیا البتہ آپ کا معمول اخیر عمر تک یوم عاشورہ کو روزہ رکھنے کا تھا نیز آپنے لوگوں کو اس کی ترغیب بھی دی اور اس کا بے پناہ اجروثواب بھی بیان فرمایا چنانچہ اہل علم کی رائے یہی ہے کہ عاشورۂ محرم کا روزہ ابتداء (یعنی ہجرت کے بعد) فرض تھا ۔ ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد صوم عاشورہ کی فرضیت ختم ہوگئی البتہ استحباب و فضیلت برقرار ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ’’ یوم عاشورہ کو زمانۂ جاہلیت میں ہی قریش روزہ رکھا کرتے تھے اور سول اللہ بھی اس دن روزہ رکھتے تھے، پھر جب آپمدینہ منورہ تشریف لائے تو اس دن خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ کا حکم فرمایا، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپنے عاشورہ کے دن روزہ (روزہ رکھنے کا حکم) چھوڑ دیا ،پس جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے روزہ نہ رکھے۔‘‘(صحیح بخاری)۔ یوم عاشورہ کو روزہ رکھنے کی فضیلت اور ترغیب کے سلسلے میں حضرت ابو قتادہ انصاریؓ سے ایک روایت اس طرح مروی یہ کہ رسول اللہسے ایک مرتبہ مختلف نفل روزوں کے بارے میں سوال کیا گیا، انہی میں یوم عرفہ کے روزہ کے بارے میں دریافت کیاگیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: " مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ یوم عرفہ کو روزہ رکھنے سے گزشتہ سال اور آئندہ سال کے گناہ (یعنی گناہ صغیرہ) معاف کردیئے جائیں۔" پھر جب آپسے یوم عاشورہ کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپنے ارشاد فرمایا: " مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ یوم عاشورہ کو روزہ رکھنے کے عوض بندہ سے گزشتہ سال کے گناہ معاف فرما دے۔" (مسلم وترمذی )۔