میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو ،واہ رے جمہوریت ’’نوازو‘‘ مٹی کے مادھوؤ،کچھ شرم کچھ حیا !
* * *محمد مبشر انوار* * *
جمہوری نظام کے دلدادہ مگر جمہوریت کے لبادے میں آمروں سے کہیں زیادہ بڑے آمر اس زمین پر دندناتے پھرتے ہیں،ملک و قوم کی رگوں سے خون نچوڑلینے کے بعد نعش تک کو بھنبھوڑتے ہیں ،نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی کئی نسلوں کو غیروں کے آگے گروی رکھ کر عوامی نمائندگی کے دعوے کرتے ہیں۔ عوام کے نام پر مہنگے ترین قرضے حاصل کرکے ذاتی بینک و تجوریاں بھرتے ہیں،میرٹ کی دھجیاں سرعام بکھیرتے ہیں،ملکی قوانین کا ،عدالتوں کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں،نا گزیریت کے نام پر جونکوں کی مانند اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی قیادت سے چمٹے جاتے ہیں،تقدس ووٹ کے نام پر جعلی ووٹوں کا اندراج کرواتے ہیں،انہی جعلی ووٹوں سے بیلٹ باکسز بھر کرعوامی رائے کی تضحیک و تذلیل کی جاتی ہے۔
حیرت ہوتی ہے جب یہی عوامی نمائندگان پارلیمنٹ کے فلور پر گم سم بیٹھے،ایسے شخص کے لئے آئین و قانون میں تبدیلیاں کرتے نظر آتے ہیں،جسے صادق و امین ثابت نہ ہونے پر ملک کی سب سے بڑی عدالت نا اہل قرار دیتی ہے۔ حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے والی سیاسی جماعتیں اور ان کے اراکین پارلیمنٹ تک ایک ایسے قانون کے حق میں ووٹ دیتے پائے جاتے ہیں جو مسلمہ نا اہل شخص کو سیاسی جماعت کا صدر بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ عدالتیں جو کسی بھی مہذب اور تعلیمیافتہ معاشرے میں مسلمہ طور پر قوانین کی تشریح کے ساتھ ساتھ انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتی ہیں بلکہ انصاف فراہم کرنے کی ضامن بھی ہوتی ہیں،کے پر ہی کاٹ دو۔فی الوقت صرف ایک شخص کو بچانے کی خاطر ایسے قانون کو ہی بدل دو،جو ایسے خائنوں کی راہ میں رکاوٹ ہو،فی الوقت اس لئے کہ آج اس قانون کا اطلاق مسلم لیگ ن پر ہوا ہے مگر کل کو اس کا اطلاق دیگر جماعتوں (بشمول حزب اختلاف) پر بھی ہو گا،اس حقیقت کو قبل از وقت بھانپتے ہوئے ہی تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ غیر موجود رہے اور یوں خاموش تائید کے مجرم بنے۔
ریاست میں لوٹ مار کی کھلی چھٹی حاصل کرنے کیلئے احتساب عدالتوں کو ختم کرنے کی کوششیں بھی عروج پر ہیں کہ نہ احتساب عدالتیں ہو ں گی اور نہ ہی محاسبے کا کوئی خطرہ باقی رہے گا،زیادہ سے زیادہ دیوانی عدالتیں اس قسم کے مقدمے سنا کریں گی ،جن کی اہلیت سے حکمران اشرافیہ بخوبی واقف ہے کہ کیسے ان عدالتوں سے نپٹا جا سکتا ہے اور ایک معمولی سا دیوانی مقدمہ نسلوں تک چلتا رہتا ہے۔ بالخصوص ایسے حالات میں جب حکمران یہ اختیار رکھتے ہوں کہ کسی بھی طرح افسر شاہی کو اپنا مطیع کر سکتے ہوں،نچلی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کو سالوں تک لمبا کھینچ سکتے ہوں وہاں ان کے خلاف کسی بھی مقدمے میں انصاف کا حصول کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ اس کے علاوہ ان مقدمات کی پیروی کے لئے ،ملک کے بہترین وکلاء کی خدمات بعوض ریاستی وسائل ان کو حاصل ہیں اور حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ کرواتے یہ سیاستدان کھل کھیل رہے ہیں ،ان سے ملک و قوم کی رہبری اور اصلاح کی توقع کیسے اور کیونکر؟ویسے دل دکھتا ہے جب سیاستدانوں کے یہ سارے حقائق قلم کے سپرد کرتا ہوںکہ باقی دنیا میں جمہوریت ،جمہوری حکومتوں اور جمہورکے نمائندگان کی ساکھ کو دن بدن بہترین بنانے کے جتن کئے جا رہے ہیں تا کہ جمہوریت کے ثمرات عام آدمی کی روزمرہ زندگی میں اسے فائدہ پہنچائیں جبکہ ہمارے ملک میں تعفن زدہ جمہوریت جو انڈے بچے دے رہی ہے،اس میں ملک کے تمام وسائل یہ حکمران اشرافیہ لوٹ کھسوٹ رہی ہے یا اس کے ساتھی حصہ بقدر جثہ وصول کرتے جارہے ہیں اور عام آدمی کی زندگی بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔
ایک طرف ہمارے خودساختہ جمہوری رہنماؤں کی یہ روش ہے اور دوسری طرف ان کی یہ دلی خواہش کہ جمہوری روایات کے عین مطابق ملک کے تمام ادارے ان کی حیثیت و مرتبے کے سامنے سرنگوں رہیں بالخصوص وہ مقتدرہ حلقے جو ایسی کسی بھی خواہش کے سامنے بند باندھنے کی طاقت رکھتے ہیں(بلا شک و شبہ تسلیم کہ مسائل کا وہ حل قطعی نہیں)کہ سویلین ادارے تو جمہوری رہنما کب کے تسخیر کر چکے اور آج ان سویلین اداروں میں خال ہی کوئی محمد علی نیکو کارا یا شارق کمال صدیقی جیسا افسر نظر آتا ہے وگرنہ تو صورت حال ایسی ہے کہ سب بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے میں مصروف ہیں۔
حلف ریاست کی خدمت کا اٹھارکھا ہے مگر چاکری ان بے ایمان ،ہوس اقتدار کے بھوکوں کی کر رہے ہیں،قانون ان کو اختیار دیتا ہے کہ کسی بھی ماورائے قانون حکم سے انکار کر دیں مگر کسی میں بھی اتنا حوصلہ نہیں کہ خم ٹھونک کر ماورائے قانون احکامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر سکیں۔ حلف اٹھانے کے لئے جو کارروائی ختم نبوت کے حوالے سے حکومتی اراکین کی جانب سے ہوئی ،بعد ازاں ،صرف ایک دن کے لئے جس طرح اس ترمیم کا بونگا دفاع کیا گیااور پھر اس ترمیم کو واپس لیا گیا،حیران ہوں کہ دل کو روؤں یا جگر کو پیٹوں میں؟؟کیا اس ترمیم کا مقصد فقط اتنا تھا کہ اس کی آڑ میں من چاہی ترامیم منظور کروا لی جائیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو؟کوئی بھی ملزم یا سزا یافتہ شخص سیاسی پارٹی (مسلم لیگ کے اکثریتی مرکزی عہدیداران کی قانونی حیثیت اس وقت بلا شبہ ملزمان کی سی ہے اگر ہم وزن نام رکھنے کی ضرورت محسوس ہو تو اس پس منظر میں کوئی بھی بڑی آسانی سے اس جماعت کا نام تبدیل کر سکتا ہے) کا صدر بن جائے،احتساب بیورو کو ختم کر دیا جائے،نا اہلی کی سزا کم کر دی جائے،عدلیہ کے اختیارات کو پابند کر دیا جائے،اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتیاں ایگزیکٹو کے توسط سے ہوں،ان کی اہلیت و قابلیت سے قطع نظر تقرری کا پیمانہ وفاداری ہو،دفاعی بجٹ کو پارلیمان میں زیر بحث لایا جائے(جو یقینی طورپر مستحکم اور حقیقی جمہوری ممالک میں ہوتا ہے اور ہونا چاہئے)،فوج اور ایجنسیوں کو سویلین اتھارٹی کا پابند کیا جائے،فوج میں تقرریاں و تبادلے بھی وزیر اعظم کی صوابدید پر ہوں بعینہ وہی صورتحال ہو جو سویلین اداروں میں ہے اور جیسے محمد علی نیکو کارا اور شارق کمال صدیقی کو حکم عدولی پر نشان عبرت بنایا گیا ویسے ہی فوجی افسران کی گو شمالی بھی کی جاسکے۔
تھیوری کے حوالے سے یہ سب باتیں اور قوانین بلا شک و شبہ جمہوریت کی اساس ہیں مگر جس ایک فرد واحد میں یہ سب اختیارات مرتکز کئے جا رہے ہیں،اس کے لئے فقط عوام سے منتخب ہونا کافی ہے یا اس کی اخلاقی ساکھ کا بھی کوئی معیار ہے؟حضور والا!جن جمہوری ممالک سے متاثر ہو کر آپ یہ ترامیم کر رہے ہیں،وہاں کا فرد واحد اور اس کی اخلاقی ساکھ کے معیارکا بھی موازنہ ضرور کریں کہ صدر مملکت یا وزیر اعظم کے مرتبے پر فائز شخص نہ تو کسی عدالت کے سامنے جانے سے کتراتا ہے اور نہ ہی سزا ملنے پر ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا واویلا کرتا ہے۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو ،واہ رے جمہوریت ’’نوازو‘‘ مٹی کے مادھوؤ،کچھ شرم کچھ حیا !