اشرف غنی کومعلوم ہو نا چاہئے کہ جب تک طالبان سے مفاہمت کی راہ ہمو ار نہیں ہوتی اسوقت تک افغانستان میں امن کا تصور ممکن نہیں
* * * سید شکیل احمد * * *
افغانستان کو جنگ زدہ ہوئے 4 عشرے سے زیا دہ ہو چلے ہیں، ہنو ز وہا ں امن کے کوئی پائیدار آثار نہیں مل پا رہے۔ ماضی میں امن کے نا م پر درجن بھر کوششیں ہو چکی ہیں۔ وہ اس لئے نا کا م ہوگئیں کہ فریقین میں اتفاق کا فقدان تھا بلکہ ان کو سبوتاژ کیا گیا اور یہ ساری ذمہ داری امریکہ پر ہی عائد ہو تی ہے ۔ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے واشنگٹن میں صحافیو ں کو بتایا ہے کہ 16اکتوبر کو مسقط میں طالبان کو مذکرات کی میز پر لانے کیلئے ان سے با ت چیت کی جا ئیگی۔ یہ کوشش کوئی ڈیڑ ھ سال کے تعطل کے بعد شروع کی جا رہی ہے ۔ پاکستان کے شہر مر ی میں افغانستان میں امن کے قیا م کیلئے ایک سلسلہ جنبانی طالبان سے 2015ء میں ہو ا تھا ، جس کے بعد پاکستان کے شہر چمن کے قریب 2015ء میں ہی ایک ڈرون حملہ کر کے امریکہ نے طالبان کے امیر ملا اختر منصور کو ہلا ک کر دیا تھا جس کے بعد طالبان نے چین میں سہ فریقی کانفرنس میں شرکت سے انکا ر کر دیا تھا ۔
اس ڈرون حملہ کے بارے میں پا کستان کے اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار احمد نے کہا تھا کہ امریکہ نے یہ حملہ امن مذاکرات کو سبو تا ژ کر نے کی غرض سے کیا ہے گویا امریکہ امن مذاکرات میں کسی نہ کسی طور رخنہ انداز ی کر تا رہا ہے۔ ملا اختر منصور سے قبل طالبان لیڈر حکیم اللہ منصور کو بھی ایسے وقت نشانہ بنایا گیاتھا کہ جس دن امن مذاکر ات کا عملی آغا ز ہو نا تھا ۔ امریکہ کو 2عشرے ہو چلے ہیں جن میں وہ افغانستا ن میں اپنا تسلط جما ئے ہوئے ہے۔ایک طرف یہ صورتحال کہ دنیا کے جدید ترین ہتھیا ر وں اور ٹیکنا لو جی سے بھر پور تربیت یا فتہ امر یکی فوج ہے تو دوسری جا نب اس کے مقابلے میں نہتے طالبان ہیںجو دنیا وی طا قت سے محروم ہیں مگر امریکہ ان2عشرو ں میں افغانستان میں اپنا کنڑول حاصل کر نے میں نا کا م ہے ۔دوسری صورتحال یہ ہے کہ اس وقت بھی افغانستان کے 45 فیصد حصہ پر طالبان کا قبضہ اور اثر رسوخ ہے۔طالبان کے دور میں افغانستان میں پوست کی کا شت صفر ہوگئی تھی مگر اس وقت دنیا کی 90فیصد پو ست کی کا شت افغانستان میں ہو رہی ہے ۔
اسی طر ح 40 سال سے35 لا کھ کے قریب افغان مہا جرین پاکستان میں پڑے ہوئے ہیں ، جن کی وجہ سے پاکستان کی معیشت اور سماجی زندگی ایک بوجھ تلے دب کر رہ گئی ہے۔ حال میں افغان مہا جرین کی واپسی کا پر وگرام بنا یا گیا مگر وہ بھی ناکام ہو چلا ہے کیو نکہ جو مہا جرین پاکستان سے واپس گئے ان کیلئے آباد کاری کا کوئی ڈھنگ سے بند وبست ہی نہیں ، نہ تحفظ حاصل ہے اور نہ روزگار کے مواقع ہیں چنانچہ 50 فیصدافغان مہاجرین پاکستان واپس پلٹ آئے اور اِس واپسی کا سلسلہ ہنو ز جا ری ہے ، جس کی وجہ سے پا کستان اور واپس آنے والے مہا جریں کو نئی مشکلا ت کا سامنا ہے۔ مہا جر ین کا مسئلہ یہ ہے کہ ان مہا جر کی حیثیت ختم ہو گئی ہے جس سے مہا جرین کی مراعات سے وہ محروم ہو چکے ہیں ۔
افغانستان میں امریکہ کی یہ بھی ناکامی ہے ، اسی لئے تو پاکستان کے وزیر خارجہ کا مو قف درست ہے کہ امریکہ افغانستان میں مہاجرین کو بسانے کا بندو بست کرے۔ اگریہ کا م کرنے میں وہ ناکام ہیں تو وہا ں امن وامان کس طور قائم کر سکے گا ، جبکہ16 سال سے امریکہ 48 ممالک کی فوجو ں کو لے کر افغانستان میں بیٹھا ہے مگرا فغانستان سنبھال نہیں پا رہا ۔ انھی زمینی حقائق کے پیش نظر نیٹو ممالک نے اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لیں، لیکن کچھ ممالک اب بھی اس گھمنڈ میں ہیں کہ 16 سال کی نا کامی کے بعد بھی ان کا افغانستان کو فتح کرنے کا خواب پو را ہوجائے گا ۔ بقول امریکہ کے وہ اس جنگ میں 783 ارب ڈالر جھو نک چکا ہے۔
اگر یہ رقم امریکی عوام کی فلا ح و بہبود پر خرچ کی جا تی تو اس کااُس کے عوام کو کتنا زیادہ فائد ہ حاصل ہوتا، چنا نچہ قطر میں جو طالبان کو مذاکر ات کی میز پر لانے کی سعی 4 فریقی ممالک جس میں چین ، پاکستان ،افغانستان اور امریکہ بھی کررہے ہیں، اس کی کا میابی کیلئے امریکہ کو اپنا ذمہ دارانہ کر دار ادا کرنا ہو گا ، بصورت دیگر امریکہ کے ما تھے پر شکست اور ناکامی تو لکھی جا چکی ہے، اگر امن مذاکرات کا میا ب ہو جا تے ہیں تو اسی میں امریکہ کی عزت ہے کہ وہ اپنی نا کامی کو ان مذاکرات کی آڑ میں ملفوف کر کے افغانستان خالی کر سکتا ہے ۔ افغانستان میں امن کیلئے ایک کو شش کا میا بی کے ساتھ ہو چکی ہے۔ وہ یہ کہ افغان کمانڈر اور سیا سی رہنما انجینیئر گلبدین حکمت یا ر غارو ں میں بیٹھ کر جدوجہد کی زندگی ترک کر کے افغان حکومت کے ہا تھ مضبوط کرنے کی غرض سے باہر آگئے۔
ان کے اس عمل سے افغان حکومت کو بھرپور فائد ہ اٹھانا چاہیے تھا ۔حکمت یار کے ساتھ مفاہمت ایک بہتر ین اقدام ہے ، مگر مشاہد ے میں آرہا ہے کہ اشرف غنی کو حکمت یا ر کی شخصیت سے جس طر ح مستفیدہو نا چاہیے تھا وہ اس سے احتیاط برت رہے ہیں جو دراصل سیا سی شخصیات کا خوف ہے۔ ویسے بھی حکمت یا ر سیاسی طو رپر دنیا میں ایک قدآور شخصیت ہیں اور ان کی اس خاصیت کو گہن نہیں لگایا جا سکتا چنا نچہ اشرف غنی کو افغانستان کی اس کڑی آزما ئش میں سیا سی قد وکا ٹھ کو پرے رکھنا ہو گا اور افغانستان کے مفاد میں قدم بڑھا نہ چاہیے ۔اشرف غنی کومعلوم ہو نا چاہئے کہ جب تک طالبان سے مفاہمت کی راہ ہمو ار نہیں ہوتی اس وقت تک افغانستان میں امن کا تصور ممکن نہیں ۔
امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس جب اچانک افغانستان کے دورے پر کا بل ایئرپو رٹ پر وارد ہوئے تھے، ا س وقت طالبان نے کا بل ایئرپو رٹ پر راکٹ برساکر امریکہ کو انتہائی حساس علا قے میں بھی اپنی موجو دگی کا احساس دلا یا تھا ۔حملہ کی جگہ ، وقت کے تعین کا انتخاب کرکے طالبان نے اپنی قوت اور دلیر ی کا ثبوت فراہم کیا تھا ، چنا نچہ 16سال سے امریکہ نے ہر حربہ استعمال کرلیا ہے مگر طالبان کو نا قابل شکست ہی پایا ، امریکہ کے وزیر دفاع کی آمد کے موقع پر طالبان کا حملہ اس امر کی بھی غما زی کر تا ہے کہ طالبان نے یہ بھی ثابت کر ڈالا کے افغانستان کے اہم ترین علا قے اور تنصیبات بھی ان کی دسترس سے باہر نہیں۔ جب اور جہا ں چاہیں وہ پہنچ سکتے ہیں اور کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔
ان حالات و واقعات کی روشنی میں امریکہ کو بھی چاہیے کہ وہ افغانستان کی حقیقی طاقت کو تسلیم کرے اور مفاہمت کی راہ کو کھو ٹا نہ کرے بلکہ اس سے اپنے مفادات کے لئے راہ ہموار کرے ، ا س موقع پر دانشمندی ، برد باری اور تحمل کی ضرورت ہے ۔ پاکستان نے امریکی صدر ٹرمپ کی جنو بی ایشیا کی پالیسی کے جو اب میں جو طرز عمل اختیار کیا ہے، اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ اب امریکہ کو یہ بات بھی سمجھ میں آگئی ہو گی کہ پاکستان میں پر ویز مشرف جیسے فوجی آمر کی حکومت نہیں جس نے ایک ٹیلی فون کال پر سب کچھ امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا تھا اور امریکہ کو پھوکٹ میں اپنی ضرورت سے بھی کہیں سوا مل گیا تھا۔ پا کستان میں ایک جمہو ری حکومت ہے جس کی راہ کھو ٹی کرنا کسی کیلئے ممکن نہیں کیو نکہ وہ عوام کا مینڈیٹ حاصل کر کے قائم ہو ئی ہے ۔اس نے شب خون ما ر کر اقتدار حاصل نہیں کیا۔ اس کو معلوم ہے کہ آئند ہ بھی اقتدار اسی عوامی مینڈ یٹ کے ذریعے حاصل کر نا ہو گا۔