ایک وہ خواب ہیں جو انسان زندگی میں دیکھتا ہے اور ددوسرے وہ خواب ہوتے ہیں جن میں انسان زندگی دیکھتا ہے
* * شہزاد اعظم* *
پاکستانی انسانوں کو اپنی زندگی کے دسویں، بیسویں ، پچاسویں یا ہزارویں ، کسی نہ کسی موڑ پر ایسی شخصیت سے پالا ضرور پڑتا ہے جو ان پر کسی نہ کسی طور احسان کر دیتی ہے اورپھر باقی ماندہ زندگی وہ پاکستانی اس کو اپنا محسن قرار دینے پر مجبورہوجاتا ہے۔ ہم اس حوالے سے بہت ہی خوش قسمت پاکستانی ہیں کیونکہ ہمیں اپنی زندگی کے پہلے ہی موڑ پر مس شکیلہ جیسی شخصیت میسر آگئیں جنہوں نے ہم پرایک احسان نہیں بلکہ انگنت احسانات کئے اور نتیجتاً ہم مس شکیلہ سے ملاقات کے اگلے ہی روزسے انہیں اپنی محسنہ قرار دینے پر'' کمر بستہ'' ہوگئے ، وہ اس طرح کہ ہم ہر صبح تڑکے تڑکے اٹھتے، ناشتہ واشتہ کرتے اور ''کمر پر بستہ'' لٹکا کر اس چہار دیواری کی سمت پیدل ہی روانہ ہو جاتے جس کو سارا جہاں تو ’’اسکول‘‘ کہا کرتا تھا اور ہم اسے ’’مسکنِ شکیلہ‘‘ سمجھتے تھے ۔
یہ در حقیقت ایک سرکاری ٹاٹ اسکول تھا،’’کچی‘‘ جماعت میں ہمارے 7پیریڈ ہوا کرتے تھے جن میں سے 5مس شکیلہ لیا کرتی تھیں اور باقی 2میں سے ایک ماسٹر کلوکا پیریڈ ہوتا تھا جو ہمیں ڈرائنگ سکھاتے تھے اور دوسرا استانی نذیراں کا پیریڈ تھا وہ ہمیں بے تحاشا مارتی پیٹتی تھیں اور اکثر غائب رہتی تھیں۔ ہم خوش ہوا کرتے تھے کیونکہ وہ جب کمرۂ جماعت میں آتیں تو کسی کا کان مروڑ کرلطف اندوز ہوتیں تو کسی کو چھڑی سے پیٹ کر اپنی بھڑاس نکالتیں اور جب غصہ زیادہ ہوتا تو وہ اپنی ربڑ کی جوتی اتارتیں اور ہم جیسے معصوموں کی ’’لترول‘‘ کر دیتیں۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کے ساس سسر انتہائی ظالم قسم کی شخصیات ہیں جن کے سامنے وہ ایک حرف نہیں بول سکتیں چنانچہ ان گھریلو زیادتیوں کا انتقام وہ اپنے شاگردوں سے لیتی تھیں۔اس لئے ہمیں تو صرف اور صرف مس شکیلہ کی تدریس کا انتظار رہتا تھا۔
مس شکیلہ میں ایک بات یہ تھی کہ وہ اپنے شاگردوں کے ہر سوال کا جواب ضرور دیا کرتی تھیں۔ وہ کسی بات کو گول کرنا جیسے جانتی ہی نہیں تھیں۔ ہمیں ان کی یہ عادت بہت اچھی لگتی تھی اس لئے ہم ان سے بھانت بھانت کے سوالات کرتے اور وہ اس کا تفصیلی جواب عطا کرتیں یوں ہمارے علم اور ہماری آگہی میں آئے روز یوں اضافہ ہوتا گیا جیسے آج مہنگائی میں یا وطن عزیز پرقرض کے بوجھ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت ببانگ دہل بیان کرنے میں کسی قسم کی شرمندگی کا احساس کبھی نہیں ہوا کہ آج ہم جتنے ذہین و فطین ہیں،ہمارے اندر جو صلاحیتیں پائی جاتی ہیں، جس قسم کی خوبیاں ہمارے وجود کا حصہ ہیں اور ہمارے جو بھی لچھن ہیں،وہ سب کے سب مس شکیلہ کی عطا کی ہوئی آموزش اور آگہی کا ہی نتیجہ ہیں۔ اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ مس شکیلہ نے ہمیں جس نوعیت کی آگہی فراہم کی، وہ ہمیں کسی ادارے کی کوئی استانی یا ماسٹر نہیں دے سکا۔
اس کی صرف ایک مثال یہاں پیش کی جاتی ہے۔ ایک روز ہم نے مس شکیلہ سے استفسار کیا کہ ذرا یہ بتائیے اسکول کو اسکول کیوں کہتے ہیں اور اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے ہمارے سوال کا ایسا جواب دیا کہ اس کے بعد ہمیں کسی بھی شخصیت سے اسکول کے مفاہیم دریافت کرنے ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ انہوں نے فرمایا کہ : ’’اسکول ہزاروں سال قدیم لفظ ہے ۔ یہ اپنے استعمال کے ابتدائی ایام میں 3الفاظ کا مجوعہ تھا، پہلے اس سہ لفظی لفظ کوذرا سی تقصیر کیساتھ 2لفظوں تک محدود کیاگیا اور اس کے بعد اسکا بے دھڑک استعمال کیا جانے لگاجس کے باعث یہ ایک لفظی لفظ بن کر رہ گیا ہے ۔
مس شکیلہ نے بتایا کہ ہزاروں برس قبل جب خطے کی ماؤں نے اپنے بچوں کے شور شرابے سے تنگ آکران سے روزانہ بنیادوں پر عارضی پیچھا چھڑانے کا شاطرانہ منصوبہ بنایا تو انہیں صبح سے سہ پہر تک کے لئے گاؤں کی حویلی میں بھیجنا شروع کردیا اور وہاں ان کی نگرانی کے لئے ایک خاتون کی تقرری کر دی۔ لوگ اس عورت کو استانی جی کہنے لگے ۔ یوں علاقے کی مائوں نے ’’سکون ‘‘ کا سانس لیا۔اسی دوران ایک ماں نے سوچا کہ ہم تو بچوں کو اس حویلی میں بھیج کر گھر پر اطمینان سے کام کاج کر لیتے ہیں اور جہاں جانا ہوتا ہے ، چلے جاتے ہیں مگر یہ استانی جی بے چاری بچوں کے شور شرابے اور شرارتیں کیسے برداشت کرتی ہوں گی ۔
یہ سوچ کر اس خاتون نے استانی جی سے دریافت کیا کہ ’’یہ سب کڈز جب شور کرتے ہوں گے تو آپ پریشان ہو جاتی ہوں گی ناں؟ اس کے جواب میں استانی جی نے کہا ایسی بات نہیں ’’IT's COOL‘‘۔ اس خاتون نے علاقے کی دیگر مائوں کو جا کر بتایا کہ استانی جی نے میرے سوال کے جواب میں بتایا ہے کہ بچے انہیں تنگ نہیں کرتے وہ ان کے ساتھ بہت خوش رہتی ہیں، ’’اِٹس کول‘‘۔ پھر یوں ہوا کہ کثرت استعمال کے باعث’’ اِٹس کول‘‘کی ’’ٹ‘‘ گھستی گئی اور گھستے گھستے 351سال کے بعد بالکل ہی ختم ہو گئی۔ لوگوں نے ’’اِٹس کول‘‘ میں سے ’’ٹ‘‘ حذف کر کے اسے ’’اسکول‘‘ کہنا شروع کر دیا ۔ یوں قریباً5320برس سے یہ لفظ اسکول ہی چلا آ رہا ہے ۔ یہ بولنے چالنے میں اتنا نرم اور آسان ہے کہ اس میں مزید کسی حرف کے گھسنے کی کوئی توقع نہیں۔‘‘ ہمیں یقین ہے کہ مس شکیلہ کی جانب سے جو آگہی ہمیں فراہم کی گئی ، وہ آپ کے لئے بالکل نئی ہوگی کیونکہ ہم نے لفظ ’’اسکول‘‘ کی ایسی وجہ تسمیہ نہ تو مس شکیلہ سے پہلے کبھی سنی تھی اور نہ ہی گزشتہ 55برس کے دوران سننے کا اتفاق ہوا ہے۔ ہمیں مس شکیلہ نے ا ور بھی بہت سی باتیں بتائیں، عقدے وا کئے اور تسمیہ کی وجود بیان کیں، ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی جانب سے عطا کی گئی آگہی سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہماری ’’ٹاٹیانہ ذمہ داری ‘‘ ہے۔
انہوں نے ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ لوگ زندگی میں خواب دیکھتے ہیں ، خواب کبھی دیکھے جاتے ہیں، کبھی دکھائے جاتے ہیں۔اس حوالے سے مس شکیلہ نے بتایا تھا کہ خوابوں کی متعدد اقسام بیان کی جاتی ہیں مگر میں آپ کو صرف 2اقسام بتانا چاہتی ہوں۔ ایک وہ خواب ہیں جو انسان زندگی میں دیکھتا ہے اور ددوسرے وہ خواب ہوتے ہیں جن میں انسان زندگی دیکھتا ہے۔
مس شکیلہ کی یہ بات ہم نے سنی، سمجھی اور پلے باندھ لی مگر افسوس کہ آج تک ان کا یہ بیان ثابت نہیں ہو سکا۔ ہم نے آج تک کی’’ زندگی میں ہی خواب‘‘ دیکھے ، اس کے علاوہ دوسری قسم کا کوئی خواب نہیں دیکھ پائے ۔ یوں ہم بہت دل گرفتہ تھے کہ ہماری آئیڈیل ہستی کا بھی بالآخر ’’ایک جھوٹ‘‘پکڑا گیا مگر پھر یوں ہوا کہ رواں ہفتے ہم نے ’’خواب میں زندگی‘‘ دیکھ لی ۔ ہم حیران رہ گئے اور آنکھ کھلتے ہی ہم نے مس شکیلہ کے حوالے سے دل میں آنے والے شبہات کو دور کر دیا۔’’ خواب میں زندگی‘‘کیا تھی، یہ پھر سہی۔