پاک ، امریکہ تعلقات،نیا زاویہ اختیار کرنے کو تیار
اتوار 15 اکتوبر 2017 3:00
امریکہ سی پیک کے معاملے میں کوئی سبق نہیں پڑھا سکتاکیونکہ اس میں روس اور چین کا بھی مفاد شامل ہے
* * سید شکیل احمد * *
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک نیا زاویہ اختیا ر کرنے کو ہیں۔ تبصرہ نگار تو یہ کہہ رہے ہیں کہ بظاہر امریکہ اور پاکستان تعلقات کو ایک خوش گوار نہج پر لانے کا دکھاوا کررہے ہیں۔ دراصل اسلام آباد کو سخت پیغام پہنچا نا مقصود ہے ۔جب امر یکہ نے سی پیک کے منصوبے پر زبان کھولی اور اس کی گزر گا ہ کو متنازعہ علاقہ قرار دیا تو پا کستان کے مبصرین نے کہا کہ امریکہ ہند کی زبان بول رہاہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہ تھا ۔ امریکہ اپنی ہی زبان بول رہا ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ ہند اس معاملے پر امریکی زبان بول رہا تھا ۔ ہند کو سی پیک سے اتنے خدشات نہیں جتنے امریکہ کو ہیں ۔
سوویٹ یونین کا شیرازہ بکھر جانے کے بعد سے جنو بی ایشیا ،اور وسطی ایشیا میں طا قت کا تواز ن بگڑ گیا تھا ۔امریکہ نے ہند کے ساتھ پا رٹنر شپ کر کے طا قت کے تواز ن کو مزید بگاڑا ۔ امریکہ افغان جہا د کے ایا م میں پاکستان سے بہت سی امور میں ما ت کھاچکا تھا کیونکہ جنر ل ضیاء الحق نے امریکہ کو افغانستان میںبراہ راست گھس بیٹھنے کے تما م راستے مسدود کر دیئے تھے اور یہ امریکہ کیلئے بڑی چوٹ تھی۔ تب سے ہند کا امریکہ نے اپنے چہیتو ںکی فہر ست میں نا م درج کر لیا ۔
یہ امریکی بھول ہی تھی کہ وہ سمجھ بیٹھا کہ طا قت کا توازن اس کے ہاتھ لگ گیا ہے حالانکہ تاریخ یہ سبق دیتی ہے کہ طاقت کا تو ازن کبھی ایک طرفہ نہیں رہا۔ بڑی طا قتو ں کا گھمنڈ ہمیشہ چھو ٹی طا قتو ں نے ہی ملیا میٹ کیا ہے۔وہ سوویٹ یونین کی شکست کو بھول گیا کہ روس نے ایک چھو ٹی طاقت سے شکست کھائی اور اب بھی وہ سبق بھلا رہا ہے کہ افغانستان میں روس کی طرح اس کو بھی شکست ہو چکی ہے چنا نچہ ٹر مپ کی جنوبی ایشیا کے بارے میں ایک طر ح سے اعتراف شکست ہے جو وہ اسکے ذریعے پاکستان کے کند ھو ں پر بندوق رکھ کر توپ چلانا چاہتا ہے ۔ سوویٹ یو نین کی شکست کے بعد اس خطے میں بڑی اہم تبدیلیا ں آئی ہیں جو ہر طرح سے امریکہ کے مفاد میں نہیں۔ اس شکست کے بعد ہند جنو بی ایشیا میں ایک اقتصادی اور فوجی عسکری قوت بن کر ابھر ا تو ہے مگروہ اپنے مفا دات کے علا وہ کسی دوسری طا قت کا کند ھا بننے کو تیارنہیں،جیسا کہ ما ضی میں پا کستان اپنا کند ھا امریکہ کو دیتا رہا ہے ۔
افغانستان میں کردار کی ہندوستانی چاہت امریکہ کیلئے نہیں اپنے مفادات کیلئے ہے۔ یہ چاہت کوئی نئی نہیں بلکہ ہند کی آزادی کے دن سے ہے جب ہند کا امریکہ کے ساتھ دوستی کا رشتہ دور کا بھی نہیں تھا ۔ ہند کو اس وقت بھی ہز ار جتن کے باوجود تعبیر نہیں ملی تھی اور اب امریکی کندھو ں کا سہارا لیکر بھی نہیں ملے گی ۔ ایسے رشتے فطرتی ہو تے ہیں بناوٹی نہیں ہو ا کرتے۔ پا کستان اور افغانستان فطرتی رشتو ں کے رکھشا بندھنوں میں پیر و گئے ہیں جس کو فطرت کے علاوہ کوئی جدا کرنے کی طا قت نہیں رکھتی ،چنا نچہ امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلر سن اوروزیر دفاع اسی ماہ پا کستان آرہے ہیں ۔
پاکستانی کہتے ہیں کہ جم جم آئیں ان کا استقبال و سواگت ہے ۔ سی پیک کے معاملے پر امریکہ جو پہلے ہند کی زبا ن میں بول رہا تھا، اپنے وزراء کی پاکستان روانگی سے قبل اپنی ہی زبان کیو ں کھول دی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ جانتا ہے کہ ہند کے ذریعے یہ کامیا بی نہیں مل سکتی چنا نچہ اپنا معاملہ خود اپنے ہا تھ میں لیا جا ئے تاکہ پاکستان کے دورے پر اس موضوع پر کھل کربات کی جا سکے ، دیکھنے کا عمل یہ ہے کہ اس امرکا جا ئزہ لیا جا ئے کہ امریکہ کو اس منصوبے سے کیسا بیر ہے ۔وہ جانتا ہے کہ طاقت کے جس عدم تواز ن سے اس نے ون ورلڈ پالیسی کے نا م پر مفادات چاہے تھے وہ تو پورے نہیں ہو پا ئے، الٹا اس خطے میں مزید 3 طاقتو ں نے بھی سر اٹھالیے ہیں اور وہ چین اور روس کے علا وہ پاکستان خود بھی ہے۔ جتنا صاف سی پیک کے بارے میں امریکہ نے اظہا ر نہیں کیا اس سے زیادہ پا کستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کھل کر بار بار کہہ دیا ہے کہ اب پاکستان کو امریکہ کی ضرورت نہیں رہی ۔
امریکہ جا نتا ہے کہ ہند خطے میں ایک طا قت ہو نے کے باوجود وہ کر دار ادا نہیں کر سکتا جو پا کستان کا فطرتی طو رپر ہے اور وہ پاکستان کی اہمیت کو نظر اند از بھی نہیں کرتا چنانچہ ماضی کے حالات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکہ نے ایک طرف پاکستان کو اقتصادی بحران میں الجھا ئے رکھا ہے تو دوسری طرف حالات کی مجبوری سے ہاتھ بھی بڑھا ئے رکھا ہے ، مثلاًکوریا کی جنگ ختم ہوئی تو پاکستان کو خوش کرنے کیلئے کوریا سے اپنی واپسی پر سیبر طیا رے پاکستان کو تحفہ میں دے دیئے تھے جس نے 65 کی جنگ میں رنگ جمایا تھا اور یہ بات امریکہ کیلئے حیر ان کن تھی کیونکہ یہ کوریا کی جنگ میںکافی مفید ثابت نہیں ہو ئے تھے ۔
بہر حال امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کی پا کستان آمد سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ایک نہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اہم تبدیلی رونما ہو نے کو ہے۔پہلے جب بھی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں مذاکر ات ہو ئے تو اس میں پاکستان کی آج سے مختلف پو زیشن ہو تی تھی اور امریکہ بھی ان کمزوریوں کو پرکھنا جانتا تھا ۔
آج امریکہ بدلے ہو ئے حالات میں مذاکر ات کی میز پرآیا ہے ۔پہلے کی طر ح پاکستان کسی کمزور پو زیشن میں نہیں چنا نچہ امریکہ سی پیک کے بارے میں پاکستان کو کوئی سبق نہیں پڑھا سکتا کیونکہ اس میں صرف پاکستان کا مفاد نہیں بلکہ رو س اور چین کا بھی براہ راست مفا د شامل ہے چنانچہ کوئی ایک طر فہ دباؤ قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ امریکیو ں کے پاکستان میں قدم ہمیشہ سبز ہی ثابت ہو ئے ہیں۔ اس مر تبہ یہ اس رنگ میں نظر نہیں آرہے کیونکہ چین اور روس کے درمیا ن جو کشید گی تھی وہ اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔
اب دوستی کے مضبوط ہا تھ دونو ں طاقتو ں نے تھا م لئے ہیں چنانچہ مغرب کا یہ خواب بھی کھوٹا کردیا ہے کہ آئند ہ تیسری عالمی جنگ ایشیا میں لڑی جائیگی ۔ اب چین اور روس کی دوستی امریکی دشمنی کی عکا سی کر تی ہے۔ ما سکو اوربیجنگ کی دوستی نا قابل تغیر نظر آرہی ہے ۔ ہند کو اُس وقت خوشی ہو ئی تھی جب امریکہ نے پاکستان کو دہشتگردی کا ذمہ دار ٹھہریا تھا مگر یہ کا وش پاکستان کی سیاسی قیا دت نے جس انداز سے ناکام بنادی ہے وہ ان کی سوجھ بو جھ کی عمدہ دلیل ہے ۔
پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف جو ایو ب خان کے دور کے دبنگ اپو زیشن لیڈر خواجہ صفدر کے صاحبزادے ہیں، انھو ں نے بھی سیا ست میں دبنگ کر دار اپنا رکھا ہے۔ امریکہ میں بیٹھ کر ہی انھو ں نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کوصاف کرنا ہے جس پر حسرت پر ستوں نے دانت بھینچے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ نے اعتراف جر م کرلیا ہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ انھو ں نے کہا کہ امریکہ یا افغانستان نشاند ہی کر ے پاکستان خود کارروائی کرے گا اور ہمر اہ افغانستان کے نمائند وں کو کا رروائی کے دوران ساتھ رکھنے کو بھی تیا ر ہے کہ وہ اپنی آنکھو ں سے مشاہد ہ بھی کر لیں ۔
پاکستان واپسی پر ان کا جو اب بھی لا جو ا ب تھا کہ اگر ان کا بیا ن درست نہیں توپھر نیشنل ایکشن پلان کیو ں بنایا گیا ، جس کا کوئی جواب کسی کے پا س نہیں ۔یہا ں یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کو سب سے زیادہ مصیبت ہمیشہ عالمی اسٹیبلشمنٹ سے رہی ہے۔ خانگی اسٹیبلشمنٹ گلے نہیں پڑی اور اب عالمی اسٹیبلشمنٹ کے نمائند ے آرہے ہیں۔ دیکھیں کیا رنگ بکھر کر جا تے ہیں ۔