Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جانوروں کے حقوق سلب کرنےوالی دختر پاکستان ” مستوجبِ سزا“

شہزاد اعظم۔جدہ
کرمچ کی گیند ہو یا کرکٹ کی، اسے آپ نے فضا میں اُچھال کر تو ضرور دیکھا ہوگا۔ جب بھرپور قوت کے ساتھ بلندی کی جانب سفر پر روانہ کیاجاتا ہے تو اس کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے ، مگر جیسے جیسے بلندی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اسکی رفتار سست ہوتی جاتی ہے،د ترین مقام پر پہنچ کر یہ سیکنڈ کے کچھ حصے کے لئے ساکت ہوجاتی ہے اور پھر پستی کی جانب سفر کا آغاز کرتی ہے۔واپسی کے اس سفر کی ابتدا میں اس کی رفتار سست ہوتی ہے مگر جیسے جیسے پستی قریب آتی ہے اس کی رفتار میں اضافہ ہوتاجاتا ہے، بالکل یہی حالت انسان کی ہے کہ جب وہ بچہ ہوتا ہے تو تیزی کے ساتھ بڑھتا ہے، بچپن سے لڑکپن، لڑکپن سے نوخیزی، نوخیزی سے جوانی، جوانی سے منزلِ قرار، پھر ادھیڑ عمری، کھوسٹ پن، فرتوتیت اور عمر ارذل جیسے ادوار اس کی زندگی میں آتے ہیں۔انسان یہ ادوار اسی وقت دیکھتا ہے جب اس کی قسمت میں یہ سب لکھا ہو ورنہ گاہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتا ہے۔بہر حال مذکورہ ادواروتیرہ حیات ہیں۔
یہ حقیقت ہر ذی شعورجانتا ہے کہ بچے زندگی کی پہنائیوں کے مسافر ہوتے ہیں اور کھوسٹ وفرتوت قبر کی تنہائیوں کی جانب پیشرفت کر رہے ہوتے ہیں۔ نوخیز عمری میں زندگی کی شوخیاںاپنی جانب بلاتی ہیں اور فرتوتیت میں موت کی خاموشیاں اپنی جانب گھسیٹتی ہیں۔ جوانی وہ عمر ہے جس کے دوران نگاہوں میں حصولِ منزل کی پیاس دکھائی دیتی ہے اور بڑھاپا وہ منزل ہے جس کے باسیوں کی دھندلائی ہوئی آنکھوں میں حسرت و یاس سجھائی دیتی ہے۔جوانی وہ عمر ہے جس میں انسان منزل کی جانب عزم و حوصلے سے سفر کرتا ہے اور بڑھاپا عمر کی وہ منزل ہے جس میں انسان حقیقت سے مفر کرتا ہے۔
حال ہی میں ایک تصویر دیکھی جو لڑکپن میں قدم رکھنے والی دخترِ پاکستان کی تصویر تھی جس کی عمر کا ہر لمحہ اسے زندگی کی پہنائیوں کی جانب لے جا رہا ہے ۔ دستورِ حیات مد نظر رکھ کر بلا خوفِ تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ معصوم وہ ہستی ہے جس نے عمرِ عزیز کی کئی منازل طے کرنی ہیں، کسی کا گھر بسانا ہے، نسلِ نو کی تربیت اور پرورش کا فریضہ نبھانا ہے، ملک و قوم کے مستقبل کو سنوارنے اور نکھارنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے مگر اسے مفاد پرستوں نے کچرے کے ڈھیر سے گلا سڑا کھانا چن کر جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے کتوں ، بلیوں اوردیگر جانوروں کے ”حقوق پر ڈاکہ“ ڈالنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ معصوم تو کتوں کے حقوق سلب کرنے کے مجرم ہیں۔ پڑھی لکھی، دولتمند ”پہلی دنیا“ میں حقوقِ حیوانات کے تحفظ کی علمبردار عالمی تنظیمیں ان ”مجرموں“ کو سزا دلوانے کی کوششیں ضرور کریں گی۔ ہم چونکہ پہلی دنیا کے ”بے طوق غلام“ ہیں چنانچہ حقوقِ حیوانات والوں کی جانب سے ان کتوں بلیوں کے حقوق سلب کرنے والی دخترِ پاکستان مستوجبِ سزا ہے، اسے جو بھی سزا دی جائے گی ہم اس کی ”حمایت“ کریں گے اور خواہش کریں گے کہ سزا کے اس اقدام سے لوگ عبرت پکڑیں ۔یہ تصویر ایک واقعہ ہے جو تمام باشندگانِ پاکستان کے لئے بلا شبہ شرم کا باعث ہے ۔
آئیے اب تصویر کا وہ رُخ بھی دیکھ لیں جسے جان بوجھ کر چھپایا جاتا ہے۔تصویر کے اس رُخ کی ”ستر پوشی“ بلا شبہ” قومی سانحہ“ ہے کیونکہ ہمارے ہاں کتنے ہی سٹھیائے ہوئے ، کھوسٹ، عمر رسیدہ فرتوت جو زندگی کی پہنائیوں سے موت کی تنہائیوں کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ان کے اس سفر میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ رفتار تیز تر ہوتی جا رہی ہے، انہوں نے ان معصوموں کے حقوق غصب کر رکھے ہیں، ان کے منہ سے نوالے چھین کرتلڑ میں اُتار لئے اورغیر ممالک میں اپنے خزانے بھر لئے ہیں۔وہ زندگی کی بلندیوں کی طرف قدم بڑھاتی نسلِ نو کے ان سپوتوں کو سسک سسک کر موت کاا نتظار کرنے پر مجبور کر نا چاہتے ہیں تاکہ وہ عبرتناک زندگی گزارتے دکھائی دیں جبکہ موت کی طرف جاری اپنے سفر کونشاط آگیں بنانے کے لئے وہ زندگی کے ناز اٹھانے میں مگن ہوجاتے ہیںتاکہ عالیشان موت ان کا مقدر بنے۔ کاش انہیں کوئی سمجھائے کہ عالیشان ملبوسات تو زندگی کے پیرہن ہیں، موت کا جوڑا صرف کفن ہے ۔غصب شدہ مال و دولت سے معمور خزانے اُن معصوموں کے لئے چھوڑ دیں جنہیں زندگی کے لئے پیرہن درکار ہیں اور اپنے لئے اس خزانے میں سے صرف اتنا بچالیں جو کفن کے لئے کافی ہو۔
 

شیئر: