یہ آثار ، عمارات اور نشانیاں ہمارے خاندانی شجروں جیسے ہیں جو ہمیں نسل در نسل بتاتے ہیں کہ ہم کون تھے
* * * وسعت اللہ خان* * *
بدامنی و سرکاری غفلت بلوچستان میں دریافت ہونے والی دنیا کی سب سے قدیم منظم بستی مہر گڑھ کے آثار بہت حد تک برباد کر چکی ہے۔1973سے2002تک ( 30 برس ) فرانسیسی ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے موہن جو دڑو ( 5 ہزار برس قدیم ) کی پیش رو مہر گڑھ کی 8 ہزار برس پرانی بستی دریافت کی۔یہاں کے مکین اتنے ترقی یافتہ تھے کہ کپاس اگاتے تھے ، اوزار بناتے تھے، دندان سازی کرتے تھے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی حصہ دار تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب جب مہر گڑھ اجڑنے لگا تو مکینوں نے دریائے سندھ کی جانب ہجرت کی اور یوں عظیم الشان انڈس تہذیب وجود میں آئی۔ 2002 میں رئیسانی قبیلے کے علاقے میں واقع مہر گڑھ میں قبائیلی دشمنی کے چکر میں بارودی سرنگیں بچھا دی گئیں۔فرانسیسی ٹیم کے زیرِ استعمال عمارت پر بلڈوز رچلا دئیے گئے۔
اس ٹیم نے تب تک بمشکل 10فیصد مہر گڑھ دریافت کیا تھا۔پچھلے 13 برس کے دوران ان دریافت شدہ آثار پر مٹی کی تہہ موٹی ہوتی جا رہی ہے… مگر مہر گڑھ کے آثار کی تباہی پر تنقید ایسی ہے جیسے کوئی گنجا گھنے بالوں کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہو۔جیسے کوئی تمباکو نوش صحت مند زندگی کے راز بیان کرے۔ حفاظت اس شے کی ہوتی ہے جسے اپنا سمجھا جائے۔22کروڑ میں کتنے ہیں جو اندر سے سمجھتے ہوں کہ مہر گڑھ ہو کہ موہن جو دڑو ، ہڑپہ یا پھر ٹیکسلا ، مکلی اور چوکنڈی جیسے تاریخی قبرستان اور افغانوں اور مغلوں سے تالپوروں تک کے قلعے ایسے ہی اہم ہیں جیسے ہمارے نانا ، دادا اور پردادا کی تصاویر اور ان کی تسبیحیں اور ان کی باتیں… مگر آپ میں سے کچھ ضرور کہیں گے کہ نہیں ایسا نہیں۔یہ آثار ، عمارات اور نشانیاں ہمارے خاندانی شجروں جیسے ہیں جو ہمیں نسل در نسل بتاتے ہیں کہ ہم کون تھے ، کیوں تھے ، کہاں سے آئے اور کہاں جارہے ہیں۔ہمارے پرکھوں نے کیا کیا اور ہم کیا کررہے ہیں۔
آپ میں سے کتنے جانتے ہیں کہ وادیٔ بولان یا سندھ کی تہذیب کے نمائندہ ہڑپہ ، جام پور کے دلو رائے، ٹھیرو اور چولستان کے پتن منارے کے آثار پر فصلیں دستک دینے لگی ہیں۔ٹیکسلا میں گندھارا تہذیب کے نمائندہ سد کپ شہر کے آثار کو جھاڑیوں سے بچانے کیلئے ہر سال ان جھاڑیوں کو آثارِ قدیمہ کے محافظ اہل کار آگ لگا دیتے ہیں۔چکوال کے نزدیک مہا بھارت کے زمانے کے کٹاس راج مندر ناقدرے موسموں کے رحم و کرم پر ہیں اور قدیم جھیل سکڑ کر ایک چوتھائی رہ گئی ہے،مگر ان مندروں اور جھیل سے کچھ فاصلے پر چند برس پہلے ہی قائم ہونے والے سیمنٹ کے کارخانے نے زیرِ زمین پانی چوس لیا ہے۔اسلام آباد میں مارگلہ پہاڑی سلسلے میں ہوٹلنگ اور کمرشلائزیشن کے راکشس نے ہزاروں برس پرانے2 غاروں کا محاصرہ کرلیا ہے جن کی دیواروں پر ہمارے آبا ؤ اجداد نے مصوری کی۔ مانا کہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے کے ورثے سے بعد کی نسلوں کا کوئی تعلق واسطہ نہیںمگر خود مسلم ورثے کے ساتھ کیا ہوا ؟؟ پشاور کا بالا حصار قلعہ فرنٹیر کور کا صدر دفتر ہے۔
اکبرِ اعظم کا اٹک قلعہ کمانڈو نگرانی میں ہے۔ جہلم کے قریب شیرشاہ سوری کے قلعہ رہتاس کے دروازوں اور اندرونی تعمیر کو بارش اور نمی کھائے جارہی ہے۔ لاہور کے ماتھے کا جھومر مغل فورٹ اور مغل فورٹ کا دل شیش محل۔جہاں چند برس پہلے تک غیرملکی مہمانوں کو ضیافتیں دی جاتی رہیں۔اسی فورٹ کا تاریخی دیوانِ خاص کچھ عرصے پہلے تک نجی تقریبات کے لئے دان ہوتا رہا۔پیسے اور تعلق کی طاقت سے مسلح ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات یہاں شوٹ ہوتے رہے۔ اب ایک نئی آفت اورنج لائن کی صورت میں نافذ ہو رہی ہے جس کے جدید پہئے بچے کھچے اجدادی ورثے کو بھی کچل دیں گے اور سب سے خوبصورت ریاست بہاولپور کا قلعہ دراوڑ باہر سے تندرست اور اندر سے ملبے کا ڈھیر۔اطالوی طرزِ تعمیر کا مظہر صادق گڑھ پیلس جہاں پچھلی صدی میں ہندوستانی و یورپی اشرافیہ کا کون سا نمائندہ مدعو نہیں ہوا،آج بھوت گھر ہے۔شاہی ورثا نے اپنی ہی دولت مفتوحہ سمجھتے ہوئے دروازے اور جالیاں تک اکھاڑ لیں۔
سندھ میں تالپور دور کا شاید ہی کوئی قلعہ ہو جو نوحہ گر نہ ہو۔حیدرآباد کا پکا قلعہ ایک مفلوک الحال کچی بستی ہے۔ کچا قلعہ سیم زدگی کی مسلسل حرمزدگی سے نبرد آزما ہے۔عمر کوٹ کے قلعے میں وہ سرکاری دفاتر قائم ہیں جنہیں قلعے سے باہر بھی کوئی ٹکے سیر نہیں پوچھتا۔ نوکوٹ کے قلعے کے باہر ایک نیلے رنگ کے بورڈ پر محکمہ آثارِ قدیمہ سندھ نامی کسی ادارے کی جانب سے قلعے میں توڑ پھوڑ کرنے والوں کو تادیبی کاروائی سے ڈرانے کی کوشش کی گئی ہیمگر مشکل یہ ہے کہ شام کے بعد اس قلعے میں بسیرا کرنے والے کتے بلیاں تحریر نہیں پڑھ سکتے۔ اور یہ جو ہر مہینے ،2مہینے بعد بندرگاہ یا کسی ائیرپورٹ پر قدیم مجسمے اور نوادارت پکڑے جانے کی خبر چھپتی ہے ؟ اور یہ جو وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب اور گندھارا پیریڈ کے مجسمے اور نوادرات یہاں سے وہاں تک کے عجائب گھروں کے کمروں اور گوداموں میں پڑے ہیں۔ان میں سے کتنے اصلی ہیں۔کتنے دورانِ ترسیل ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں ، کتنے یہاں سے چوری ہو کر نجی عجائب گھروں میں منتقل ہو چکے ہیں ؟ جب جرمن نازیوں نے پیرس کا محاصرہ کرلیا تو انہوں نے شہریوں کو یقین دہانی کروائی کہ آپ کے ورثے کو ہاتھ نہیں لگائیں گے لہذا ہم پیرس میں داخل ہوں تو مزاحمت نہ کرنا۔نازیوں نے اپنا وعدہ نبھایا اور پیرس کو جوں کا توں رہنے دیا۔ اقبال کا دل تو اپنے آباء کی کتابیں لندن میں دیکھ کر بہت دل تلملایالیکن اللہ کا شکر ہے کہ انگریز برِصغیر کا جتنا ثقافتی و تاریخی خزانہ لوٹ کے لے جا سکتا تھا لے گیا۔ یہاں رہتا تو مکمل غتربود ہوچکا ہوتا۔