Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہیلز اور ڈولفنز انسان کی طرح معاشرتی زندگی گزارتی ہیں

لندن ....   آبی حیاتیات کے  رہن سہن کے بارے میں تحقیق و مشاہدے کے نتیجے میں جو رپورٹ سامنے آئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ وہیلیں اور ڈولفنیں  بڑی حد تک انسانوں کی طرح معاشرتی زندگی گزارتی ہیں۔ اس تحقیقی رپورٹ کی نگراں ڈاکٹر سوشان شلزنے  بتایا ہے کہ  اس حوالے سے سامنے آنے والی یہ اپنی قسم کی پہلی رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہیلوں اور ڈولفنوں کی ثقافت بہت زیادہ حیرت انگیز ہے او راس میں ان کی  ساخت بالخصوص بڑے بازوئوں کا عمل دخل ہے او راپنی جسامت کے لحاظ سے انکی دماغی صلاحیت بھی اچھی خاصی ہے۔ یہ جانور بڑی بڑی بستیاں بناکر رہتے ، ایک دوسرے کے ساتھ سیر و تفریح کرتے ہیں۔مخصوص زبان میں باتیں اور ایک دوسرے کو پکارتے ہیں۔اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ان کے دماغ کا حجم بھی حیرت انگیز طور پر بڑا ہے۔ قدرت نے انہیں یہ کمال بھی عطا کیا ہے  کہ وہ ایک دوسرے کی آواز نہ صرف  پہچانتے ہیں بلکہ اسکی بہترین نقالی بھی کرلیتے ہیں۔ انکی اپنی زبان ہے اور اپنا لب و لہجہ جس کی مدد سے وہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ حد یہ کہ بات چیت کے علاوہ جب وہ خوشی یا مستی کے اظہار کیلئے سیٹیاں بجاتے ہیں تو یہ بھی سمجھ جاتے ہیں کہ یہ سیٹی کس نے بجائی۔ ایک دوسرے کو پکارنے کیلئے ہر وقت ایک نیا انداز اختیار کرتے ہیں اور جب کوئی نووارد انکے پاس آتا ہے تو اسے خوش آمدید کہنے کے انداز بھی انوکھے ہوتے ہیں۔ وہیلوں اور ڈولفنوں کی ذہانت کے بارے میں پہلے بھی کئی رپورٹیں آچکی ہیں مگر ان کے رہن سہن کا یہ معاشرتی پہلو اور رشتوں اور تعلقات کی اہمیت کے احساس نے نئی تحقیق کو منفرد بنادیا ہے۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ اپنے بچوں کو مختلف چیزیں استعمال کرنے کی تربیت بھی دیتی ہیں۔ سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کبھی کبھار ڈولفنیں کسی کی غیر موجودگی میں بھی اسے آواز دیتی ہیں یعنی  وہ گپ شپ بھی کرتی ہیں اور غائبانہ تذکرہ بھی۔سائنسدانوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ وہیلوں اور ڈولفنوں کے پاس اگر انگوٹھے ہوتے تو انسان ان سے رشک کرنے لگتا۔

شیئر: