حصول علم میں علمائے کرام کی محنتیں
میں نے اپناوطن اس لئے چھوڑا کہ میں امام مالک کو دیکھوں،ان سے علم حاصل کروں، میںہاتھی دیکھنے کیلئے تو مدینہ نہیں آیا
گزشتہ سے پیوستہ
اُس زمانے کے بغداد میں بے شمار علمی حلقے تھے۔ طلبہ دور دور سے آتے اور ان علمی سرچشموں سے اپنی پیاس بجھاتے۔ بقی جامع مسجد دار السلام میں گئے۔وہاں مشہور محدث امام یحییٰ بن معین کا حلقہ علم ِحدیث تھا۔ درس میں شریک ہوئے‘ سوال و جواب شروع ہوئے ۔بقی نے بھی آگے بڑھ کر سوال کرنا شروع کیے۔ یہ تو بڑی دور سے آئے تھے۔ حدیث کے راویوں پر جرح و تعدیل ہو رہی ہے۔ کون ثقہ ہے‘ کون ضعیف ہے‘ کون منکر ہے ؟ بقی نے ایک کے بعد دوسرا ‘پھر تیسرا اور چوتھا سوال پوچھا تو دیگر طلبہ نے شور مچا دیا کہ انہیں بھی سوال کرنے کا حق ہے۔اس نوجوان نے کئی سوال کر لئے ہیں‘ اب اسے چاہیے کہ دوسروں کو موقع دے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ سنت کا یہ جانثار کہاں سے آیا ہے؟ بقی نے کہا: بس صرف ایک سوا ل آخری سوال۔امام یحییٰ بن معین نے سر اٹھایا‘ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ سوال پوچھو؟ بقی نے کہا: آپ یہ بتا دیں کہ ابو عبد اللہ احمد بن حنبل کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ ثقہ ‘ ضعیف یا منکر۔ سوال تو زیادہ مشکل نہیں تھا‘ مگر حالات ایسے تھے کہ امام احمد کی تعریف میں کچھ کہنا خود کو آزمائش میں ڈالنا تھا۔استاذ یحییٰ بن معین نے حالات کی کوئی پروا نہیں کی‘ امام احمد کے ذکر پر ان کا چہرہ تمتما اٹھا۔ کہنے لگے: تم مجھ سے احمد بن حنبل کے بارے میں پوچھتے ہو؟وہ صرف ثقہ ہی نہیں ‘ بلکہ فوق الثقہ ہیں۔ ارے ہم کون ہوتے ہیں‘ ان کے حوالے سے بات کرنے والے‘ وہ امام اہل سنت وجماعت ہیں ۔ وہ تو بڑے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔
امام یحییٰ بن معین کے حلقہ درس کا وقت ختم ہوا۔ بقی بن مخلد نے احمد بن حنبل کے گھر کا پتہ پوچھا۔ لوگ ڈر رہے ہیں۔ اشاروں میں بات ہو رہی ہے۔ گھر معلوم ہوا تو بقی اس طرف چل دیے۔ امام احمد بن حنبل کا گھر بڑا ہی متواضع ہے مگر یہ حکومتی خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں کی نگاہ میں ہے۔ یہاں کون آ تا ہے‘ کون جاتا ہے‘ گھر میں کون داخل ہوتا ہے ؟سب کچھ نوٹ ہو رہا ہے۔
بقی بن مخلد نے دروازے پر دستک دی۔ امام احمد بن حنبل نے دروازہ کھولا۔ پوچھا کون ہو؟ جواب ملا :میں غریب الدیار مسافر ہوں ۔ حدیث کا طالب علم ہوں‘ بڑی دور سے آیا ہوں۔ آپ سے حدیث پڑھنے کے لئے یہ سفر طے کیا ہے۔آپؒ نے پوچھا: کس ملک سے آئے ہو؟ جواب ملا: بہت دور سے آیا ہوں۔ ارے افریقہ سے آئے ہو؟ کہنے لگے: وہاں سے بھی دور‘ بہت ہی آگے اندلس سے آیا ہوں۔ اچھا اتنا لمبا سفر! اب تم کیا چاہتے ہو؟ بقی نے عرض کیا: آپ سے حدیث پڑھنا چاہتا ہوں۔ اسی ایک غرض سے بغداد آیاہوں‘اس کے سوا مجھے دنیا کا کوئی کام نہیں۔ میں تمہاری مدد تو کرنا چاہتا ہوں‘ پڑھانے کے لئے تیار ہوں‘ مگر میرے سبق پڑھانے پر تو سخت پابندی ہے۔
بقی نے کچھ دیر سوچا،غور کیا،کہنے لگے: ابو عبداللہ! میں اس شہر میں نو وارد ہوں ۔مجھے نہ کوئی جانتا ہے نہ پہچانتا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں ہر روز آپ کے پاس فقیرانہ لباس میں آیا کروں گا، دروازہ کھٹکھٹاؤں گااور صدقہ طلب کروں گا۔ آپ باہر تشریف لائیں گے اور مجھے ایک،2 احادیث سنا دیا کریںگے۔
امام احمد نے فرمایا : تمہاری تجویز معقول ہے مگرمیری ایک شرط تمہیں قبول کرنا ہو گی۔ بقی نے عرض کیا: فرمائیے وہ کیا ہے؟ کہنے لگے:اگر تم میرے پاس آکر پڑھنا چاہتے ہو تو پھر شہر کے کسی علمی حلقے اور بطور خاص حدیث پڑھنے پڑھانے والوں کے حلقات میں تم شرکت نہیں کرو گے۔ بقی نے بطِیب خاطر اس پر موافقت ظاہر کر دی۔
بقی سرائے میں واپس آئے ،اپنا لباس تبدیل کیا۔ مانگنے والوں جیسے کپڑے پہنے،اپنی جیب میں قلم دوات ڈالی اور اگلے روز امام احمد بن حنبل کے دروازے پر کھڑے ہو کرآواز لگا رہے ہیں:
أَجْرَ رَحِمَکُمُ اللّٰہُ(اس زمانے کے بغداد میں بھیک مانگنے کا یہی طریقہ تھا)۔
امام احمد باہر تشریف لائے، بقی اندر داخل ہو گئے۔ دروازے کو بند کر لیا گیا۔ بقی کہتے ہیں: امام احمد نے مجھے2 یا 3 احادیث لکھوا دیں۔
قارئین کرام ! بقی بن مخلد کی خوش قسمتی ملاحظہ کیجیے۔ حدیث سیکھنے کی تڑپ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے وقت کی سب سے بڑی علمی شخصیت سے براہ راست احادیث حاصل کر رہے ہیں۔
بقی بن مخلد ہر روز امام احمد کے گھر پر حاضری دیتے ہیں ۔ان سے ایک،2یا زیادہ احادیث کا سبق لیتے ہیں اور انہیں لکھنے کے بعد سرائے واپس چلے جاتے ہیں۔ اس طرح کرتے کرتے انہوں نے قریباً300 احادیث لکھ لیں۔واثق باللہ کا دور جلد ہی ختم ہو گیا۔
واثق کی وفات کے بعد متوکل علی اللہ کا دورِ حکومت شروع ہوتا ہے۔ متوکل اہل سنت والجماعت اور امام احمد سے محبت رکھتا تھا۔ اس نے حکومت سنبھالتے ہی امام احمد پر عائد ہر قسم کی پابندیاں ہٹا دیں۔ انہیں درس و تدریس کی اجازت دے دی گئی۔ امام احمد کے شاگردوں میں بقی بن مخلد کا بھی اضافہ ہوا ۔ جب بقی پڑھنے کے لئے آتے تو امام صاحب طلبہ کو حکم دیتے کہ مجلس میں وسعت پیدا کرو۔ بقی کے لئے امام صاحب کے پاس جگہ بنا دی جاتی۔ وہ امام صاحب کے بالکل ساتھ بیٹھ کرعلم حاصل کرتے۔ امام ِ احمد اپنے شاگردوں کو بتاتے کہ اس نوجوان پر’’حقیقی طالب علم‘‘کا لقب صادق آتا ہے۔
بقی بن مخلد صرف حدیث سیکھنے کے لئے ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے بغداد آئے تھے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ سفر کتنے عرصہ میں اور کتنی صعوبتیں برداشت کر کے طے کیا ہو گا۔
امام احمد اپنے اس شاگرد کیلئے خاص اہتمام کرتے اور اس سے محبت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بقی بیمار ہو گئے۔ شدید بیمار۔سرائے کے مالک کو اُن کے بارے میں معلوم نہ تھا کہ یہ شخص کون ہے؟ اس نے تو خداترسی کر کے بقی کو سرائے میں مفت جگہ دی ہوئی تھی۔ اب اسے یہ خوف لاحق ہوا کہ اگر بقی سرائے میں وفات پا جاتا ہے تو لوگ سرائے کو منحوس سمجھیں گے‘ کہیں گے: ارے یہ تو وہی سرائے ہے جہاں فلاں آدمی وفات پا گیا تھا۔سرائے کے مالک نے اپنے خاص دوست سے اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: میں تو اُس وقت کو کوس رہا ہوں جب میں نے اس نوجوان کو سرائے میں رہنے کی جگہ دی تھی۔
اس کے دوست نے کہا:میرے بھائی! تم اس نوجوان کو نہیں جانتے، اسے میں جانتا ہوں ۔ یہ تو ابو عبداللہ امام احمد بن حنبل کے چاہنے والوں میں سے ہے۔ سرائے کا مالک خودبھی ابو عبداللہ سے محبت وعقیدت کا رشتہ رکھنے والوں میں سے تھا۔ بقی بیمار ہوئے تو امام احمد کو کسی نے بتایا کہ بقی بیمار ہے ۔ پھر ایک روز بازار بند ہو گیا۔ شور مچ گیا کہ ابو عبداللہ سرائے میں اپنے شاگرد کی تیمارداری کے لئے آ رہے ہیں۔ ابو عبداللہ لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے تھے۔ جس جگہ جاتے‘ شاگرد اپنی قلمیں دواتیں ساتھ لئے پیچھے پیچھے ہوتے۔ امام صاحب جو مسئلہ بیان کرتے‘ شاگرد اسے قلمبند کرتے چلے جاتے۔
ابو عبداللہ سرائے میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھ لوگوں کا ہجوم تھا۔ وہ اپنے شاگرد ِخاص بقی بن مخلد کے کمرے میں گئے۔ استاذ نے اپنے شاگرد کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ اسے جلد شفا یابی کی دعا دی اور صبر کی تلقین کی۔ تھوڑی دیر رکے، پھر اپنے گھر لوٹ گئے۔ بقی بن مخلد کی قسمت جاگ اٹھی۔وہ چند دنوں کی بیماری کے بعد صحت یاب ہو کرواپس اپنے وطن اندلس چلے جاتے ہیں۔ وہاں علم حدیث کے فروغ کا فریضہ سر انجام دینے لگے۔
قارئین کرام! انسان کی کوئی نیکی ضائع نہیں جاتی۔ سرائے کے مالک نے یہ دیکھے بغیر کہ بقی کو مفت رہائش دینے سے اسے کیا فائدہ ہوگا، حدیث کے ایک طالبعلم کے ساتھ محض اللہ کی رضا کے لئے نیکی کی تھی۔ اسے اس نیکی کا صلہ آخرت میںتو ان شاء اللہ ملے گا ہی ‘ مگر دنیا میںبھی اللہ تعالیٰ نے اسے بہترین بدلہ ا س طرح عطا فرمایاکہ اس کی سرائے پورے بغداد میں مشہور ہو گئی ۔ لوگ وہاں سے گزرتے تو کہتے: یہ وہ سرائے ہے جہاںامام ابو عبداللہ تشریف لائے تھے۔ سرائے کے مالک کی چاندی ہو گئی،مسافر اس سرائے میں ٹھہرنا اپنے لئے باعث شرف وسعادت سمجھتے تھے۔
قارئین کرام ! بات ہو رہی تھی دین سیکھنے والوں کی جدوجہد کی کہ انہوں نے یہ علم کیسے حاصل کیا؟ اس کے لئے کتنی محنتیں کیں اور کیا کیا مشکلات برداشت کیں؟ آج دنیاوی تعلیم میں کامیاب ہونے والے کسی بھی شخص سے پوچھئے ،ہر ایک آپ کو اپنی کامیابی کی کہانی سنائے گا۔
آج بڑے بڑے ڈاکٹر ‘ انجینیئر، اکانومسٹ‘ بیرسٹر‘ بزنس مین‘ سول سروس میں اعلیٰ مناصب پر فائز لوگوں سے پوچھئے کہ انہیں یہ مرتبہ اور مقام کیسے حاصل ہوا؟ وہ آپ کو بتائیں گے کہ انہوں نے کتنی محنت کی۔ بلاشبہ کامیابی ہوتی اللہ کے فضل و کرم ہی سے ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ حصول تعلیم کے لئے شدید محنت اور جد وجہد کا بڑا عمل دخل ہے۔ قرآن پاک نے اہل علم کی فضیلت کے فلسفہ کو ایک آیت کے چھوٹے سے ٹکڑے میں سمو دیا، فرمایا:
یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ،وَالَّذِیْنَ أُوتُواالْعِلْمَ دَرَجَاتٍ(المجادلہ11)۔
’’اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اصحاب علم کے درجات کو بلند فرماتا ہے۔‘‘
m آئیے ہم امت مسلمہ کی بحرالعلوم شخصیت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓکے حوالے سے ایک واقعہ پڑھتے ہیں:
اللہ کے رسول کے یہ چچا زاد بھائی رسول اللہ کی وفات کے وقت 10سال کے تھے۔ ایک دن اپنی عمر کے ایک انصاری صحابی سے کہنے لگے: اس وقت مدینہ طیبہ میں اللہ کے رسولکے بہت سے صحابہ کرام موجود ہیں جنہوں نے آپکے ساتھ غزوات میں حصہ لیا اور اکٹھے سفر کیے۔ آپکی صحبت میں وقت گزارا ۔ ان کے سینوں میں کتنے ہی اہم واقعات محفوظ ہیں۔ چلو ان کے پاس چلتے ہیں۔ ان سے وہ واقعات و تجربات سنتے ہیں، ان سے علم حاصل کرتے اور مستفید ہوتے ہیں۔ وہ انصاری کہنے لگے: عبداللہ! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اتنے جلیل القدر صحابہ کے موجود ہوتے ہوئے لوگ تمہارے پاس علم سیکھنے کیلئے آئیں گے؟! اس انصاری نوجوان کی سوچ اور فکر یہ تھی کہ اگر کسی نے کوئی مسئلہ پوچھنا ہے تو وہ سیدنا ابوبکر صدیق،عمر فاروق،زید بن ثابت،ابی بن کعب اور معاذ بن جبل جیسے علماء صحابہ سے رجوع کریں گے۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے اس نوجوان کو چھوڑا اور تنہا ہی علم حاصل کرنا شروع کر دیا۔ مسجد نبویؐ میں اصحاب صفہ کا چبوترہ ایک بڑی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا۔ابن عباسؓ 5 وقت کی نمازوں کی ادائیگی کے لئے مسجد نبویؐ میں آتے تو بہت سارے صحابہ کرام ؓسے ملاقات ہو جاتی۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ میں دیگر خوبیوں کے علاوہ اچھا اور عمدہ سوال کرنے کی خوبی بہت نمایاں تھی۔
سیدنا عمر فاروقؓنے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ ہے تو نوجوان‘ مگر اس کی عقل بڑی عمر کے لوگوں جیسی ہے۔ اس کے پاس علم کے لئے کثرت سے سوال کرنے والی زبان اور سمجھ دار دل ہے۔
قارئین کرام! اچھا سوال کرنا بھی فن ہے۔ اگر شاگرد ذہین ہو تو استاذ کو پڑھانے میں مزا آتا ہے۔ مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ اسے بیان کرنے کے بعد سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کا واقعہ مکمل کروں گا۔
امام ابو حنیفہ کی مجلس،ان کے علمی حلقے میں بہت سارے لوگ شرکت کرتے تھے۔ ان سے سوالات کیے جاتے،انہیں جوابات ملتے ۔ ایک مرتبہ ایک شخص کو دیکھا گیا کہ وہ کثرت سے ان کی مجلس میں بیٹھتا ہے ‘ مگر وہ خاموش بیٹھا رہتا ہے ،کوئی سوال نہیں کرتا۔ اس کے لباس‘ پگڑی وغیرہ سے ایسا لگتا تھا کہ وہ خاصا پڑھا لکھا معقول آدمی ہے۔ ایک دن امام صاحب نے اس سے کہا: بھئی! دوسرے لوگ سوالات کرتے ہیںمگر تم خاموش بیٹھے رہتے ہو،تم بھی کوئی سوال کیا کرو۔
اس نے کہا: جی امام صاحب! ٹھیک ہے میں بھی سوال کروں گا۔ اگلے روز اس نے کہا: ذرا یہ تو بتائیے کہ روزہ دار کو روزہ کب افطار کرنا چاہیے؟ امام صاحب نے جواب دیا کہ جب سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ اس نے اگلا سوال داغ دیا: اچھا تو امام صاحب! یہ بتائیں کہ اگر آدھی رات تک سورج غروب ہی نہ ہو تو پھر روزہ دار کیا کرے؟ امام صاحب نے فرمایا: تمہاراخاموش رہنا ہی بہتر تھا،تم سوال نہ کرتے تو اچھا تھا۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بہت بڑے گھرانے کے فرد ہونے کے باوجود بڑے مؤدب تھے۔ انہوں نے خود صحابہ کرامؓ کے گھر جانا شروع کر دیا۔ وہ ان سے خوب سوالات کرتے،احادیث سنتے اور انہیں اپنے دل و دماغ میں جگہ دیتے۔ اللہ کے رسولنے بھی ان کے لئے متعدد دعائیں کی تھیں۔ ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا: اے اللہ! عبد اللہ کو دین کی سمجھ عطا فرما۔
دوسری روایت کے مطابق آپِ نے یہ بھی دعا فرمائی تھی : اے اللہ! اسے قرآن کریم کی تفسیر کا علم عطا فرما۔
قارئین کرام کی دلچسپی کے لئے عرض ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ وہ خوش قسمت شخصیت ہیں کہ جب پیدا ہوئے تو ان کے والد انہیں اٹھا کر اللہ کے رسولکی خدمت میں لے آئے۔ اللہ کے رسولنے اپنے لعاب دہن سے انہیں گھٹی دی۔ اس طرح سب سے پہلی خوراک جو عبداللہ کو ملی وہ اللہ کے رسول کا مبارک لعاب دہن تھا۔
علم حاصل کرنے کیلئے ابن عباسؓ کے نزدیک صبح و شام یا دوپہر کچھ اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ وہ علم کے پیاسے تھے۔ کتنی بار ایسا ہوا کہ وہ دوپہر کے وقت کسی صحابی سے کسی حدیث یا واقعہ کے بارے میں پوچھنے کے لئے ان کے گھر جا پہنچتے۔ اگر وہ قیلولہ کررہے ہوتے تو یہ ان کے گھر کے باہر ہی بیٹھ جاتے اور انتظار کرتے کہ کب صاحب خانہ نیند سے بیدار ہوں اور ان کی بات سنیں،ان کے سوالات کے جوابات دیں۔ بعض اوقات وہ گھر کی چوکھٹ پر ہی لیٹ جاتے۔ گرم اور تیز ہوائیں چلتیں تو گرد و غبار سے ان کا چہرہ اَٹ جاتا۔ صحابی قیلولہ سے فارغ ہو کر گھر سے باہر نکلتے ،گھر سے باہر ابن عباس ؓ کو دیکھتے تو کہتے: اللہ کے رسولکے چچا زاد! آپ کو خوش آمدید! آپ نے آنے کی کیوں زحمت کی۔ مجھے پیغام بھجوا دیا ہوتا ،میں خود حاضر خدمت ہو جاتا۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ جواب میں کہتے: چونکہ ضرورت مجھے ہے ،اس لئے میںہی آپ کے پاس آنے کا زیادہ حقدار تھا۔ پھر وہ ان سے سوالات کرتے اور وہ صحابی جوابات دیتے۔
قارئین کرام! علم حاصل کرنے کیلئے علمائے کرام نے بے پناہ قربانیاںدیں اور محنتیں کی ہیں۔ ایک عالم دین کا کہنا ہے: مجھے دوران تعلیم ہریسہ(دودھ گوشت اور دلیہ سے بنی ہوئی ڈش) کھانے کا بڑا شوق تھا۔ میں اس خواہش کو ایک مدت تک اپنے دل میں چھپائے رہا۔ بارہا میں نے کوشش کی‘ مگر میںہریسہ خریدنے میں ناکام رہا۔ جانتے ہیں کیوں؟ اس لئے کہ ہریسہ بیچنے والا اسی وقت آتا تھا جب ہم استاذکے پاس پڑھ رہے ہوتے۔یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم اپنا سبق چھوڑ کر ہریسہ خریدنے چلے جاتے۔
m امام مالک کے ایک شاگرد کا نام یحییٰ بن یحییٰ اللیثی تھا۔ یہ مسجد نبویؐ میں امام مالک سے حدیث پڑھتے تھے۔ ایک مرتبہ مدینہ شریف میں ہاتھی آ گیا‘ کوئی شخص لے آیا ہو گا۔ مدینہ شریف کے اکثر لوگوں اور طلبہ نے ا س سے پہلے ہاتھی کبھی نہیں دیکھا تھا۔ طلبہ نے امام مالک ؒسے اجازت لی اور ہاتھی دیکھنے چلے گئے‘ مگر یحییٰ اللیثی نہ گئے۔ امام مالک نے پوچھا :یحییٰ !کیا تم نے پہلے کبھی ہاتھی دیکھ رکھا ہے؟ یحییٰ نے جواب دیا کہ نہیں تو۔
امام مالک نے کہا: تمہارے دوسرے ساتھی تو ہاتھی دیکھنے چلے گئے ہیں‘ تم کیوں نہیں گئے؟ یحییٰ اللیثی نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ میں نے اپنے وطن کو اسلئے چھوڑا کہ میں امام مالک کو دیکھوں،ان سے علم حاصل کروں۔ میںہاتھی دیکھنے کیلئے تو مدینہ شریف نہیں آیا۔
(جاری ہے)