شاہد نعیم۔جدہ
جینے کی خواہشات میں ہم خود ہیں بے ادب
اس دور میں کسی کو یہ کہنا بھی ہے عجب
آنکھوں میں بے کلی سی ابھرتی ہے ہر گھڑی
مطلب کی بات کیسے کروں میں کسی سے اب
دشت جنوں میں شور شرابا فضول ہے
کوئی تمہارا دوسرا رخ ہو تو کیا عجب؟
یہ سوچتا ہوں کوئی کسی سے جدا نہ ہو
شاید یہ وقت اور ابھی کچھ کرے طلب
خاموشیوں نے ذہن پہ سکہ جما دیا
اس واسطے خفا ہیں یہاں ہم سے سب کے سب
جس آدمی کے ہاتھ میں تیغِ خلوص ہے
اس آدمی سے دل ملا،اس آدمی سے دب
یاروں سے کس طرح میں کروں مصلحت کی بات
شاہد مرے سوا ہے یہاں کون” بے ادب“