سعودی اخبارات میں شائع ہونے والے مختلف کالمز کا ترجمہ نذر قارئین ہے:
بے وقوف بنانے والوں کی دستگیری نہ کرو
سطام الثقیل۔ الاقتصادیہ
گداگری ہمارے معاشرے میں رائج ہے۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہوگا جسے اس رواج کا علم نہ ہو۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کوئی گداگر ہمارے سامنے آکر جھوٹے قصے سناکر ہماری ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش نہ کرتا ہو۔
گداگر ایک طرح سے شفٹوں میں کام کرنے والے ملازم کی حیثیت حاصل کئے ہوئے ہیں۔ آپ کسی سگنل پر کھڑے ہو ںیا کسی سڑک سے گزر رہے ہوں، کسی وجہ سے آپ کی گاڑی رک گئی ہو آپ کو کوئی نہ کوئی گداگر اپنی طرف متوجہ ہوتا ہوا ضرور نظر آئیگا۔ انسداد گداگری کے افسران شاذو نادر ہی آپ کو ملیں گے حالانکہ اخبارات گداگروں کی گرفتاری کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔
حق یہ ہے کہ انسداد گداگری مہم اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوگی تاوقتیکہ سعودی شہری اور مقیم غیر ملکی اس سلسلے میں اپنا کردارادا نہ کریں۔ کردار یہ ہو کہ ہم میں سے کوئی بھی شخص کسی بھی گداگر کو خود کو بے وقوف بنانے کی اجازت نہ دے۔ گداگروں میںوہ بھی ہیں جو لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے روایتی طور طریقے اختیار کرتے ہیں اوروہ بھی ہیں جو اس سلسلے میں فنکاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پُرلطف سچائی یہ ہے کہ ہر طرح کے گداگروں کو جھوٹی کہانیوںپر یقین کرنے والے سعودی شہری اور مقیم غیر ملکی بآسانی مل جاتے ہیں۔
سعودی شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں کا سماجی و مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اپنے طور پر یہ طے کریں کہ انہیں امداد طلب کرنے والے ہر کس و ناکس کی مدد نہیں کرنی۔ بھیک مانگنے والوں کو دیکھ کر انسانیت نواز لوگوں کے دل پسیج جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی اس کیفیت پر قابو پانا ہے۔ انسانیت نواز کیفیت پر اسی وقت قابو پایا جاسکے گا جب ہمیں اس بات کا پورا یقین ہوجائیگا کہ گداگروں کی مافیا بین الاقوامی سطح پر کام کررہی ہے ۔ یہ لوگ پیشہ ور گداگر ہیں۔ یہ مشکوک اور دہشتگرد تنظیموں کی طرح ہمارے بچوں کو اغوا کرکے ان سے گداگری کراتے ہیں۔ یہ داعش ، حزب اللہ اور حوثیو ں سے کسی طور کم نہیں۔ اگر ہم نے اس سلسلے میں اپنا کردارادا کیا تو سیکیورٹی اور انسداد گداگری کے ادارے اس رواج کی بیخ کنی میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہ اسی وقت ہوگا جب ہم مشترکہ فیصلہ کریں گے کہ ہم نے گداگروں کو عطیات نہیں دینے۔ اگر ایسا کرلیا گیا تو ہمارے یہاں ایک بھی گداگر نظر نہیں آئیگا۔
٭٭٭٭٭٭
اسلام سے نابلد کی سینہ زوری
جھاد الخازن ۔ الحیاۃ
پتہ نہیں ! قارئین نے جیرارڈ پاٹن کا نام کبھی سنا ہے یا نہیں؟ یہ انگریزسیاستدان اور لندن سے انڈیپنڈنٹ پارٹی سے یورپی پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ انہوں نے چند برس قبل یورپ میں مساجد کثرت سے تعمیر کرنے پر اعتراض کرکے ہنگامہ برپا کردیا تھا۔ چند روز بعد اس کا ہنگامہ تھما تو ان کا نام بھی ہمارے ذہنوں سے اوجھل ہوگیا۔ اس بار وہ پہلے سے زیادہ گھنائونی مہم کیساتھ واپس آئے ہیں ۔ ا نہوں نے تجویز کیا ہے کہ مسلمانوں سے اس اقرار نامے پر دستخط کرائے جائیں کہ وہ تشدد کو مسترد کرتے ہیں اور یہ کہ قرآن کریم کے کچھ حصے ناقابل عمل اور غیر ا سلامی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ قرآن پاک میں موجود غیر اسلامی آیتوں کو مقدس کتاب سے خارج کردئیے جائیں۔ اس ضمن میں انکا دعویٰ ہے کہ قرآن کی کچھ آیتوں میں حکم دیا گیا ہے کہ یہودیوں کو وہ جہاں بھی ملیں قتل کردو اور اس طرح کی کچھ دیگر تحریریں بھی ہیں۔ بقول انکے یہ غیر اسلامی ہیں۔
اس سے غالباً انکا اشارہ سورۃ توبہ کی اُس 5ویں آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے جسکا مفہوم ہے:
’’پس جب محترم مہینے گزرجائیں تو مشرکین کو جہاں پائو قتل کرو اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور انکی خبر لینے کیلئے ہر گھات میں بیٹھو، البتہ اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اورزکوٰۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو،اللہ درگزر کرنے والا اوررحم فرمانے والا ہے۔‘‘
آیت مذکور میں اُن مشرکوں کی بابت حکم دیا گیا تھا جو عہد شکنی کا وتیرہ اپنائے ہوئے تھے۔ اسکے باوجود اس آیت میں انکے لئے ایک گنجائش بھی رکھی گئی ہے ، وہ یہ کہ اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں تو انہیں چھوڑ دیا جائے۔
قرآن مجید میں یہودیوں کی بیخ کنی کا حکم کسی بھی آیت میں نہیں دیا گیا حالانکہ انہوں نے مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازش رچی تھی جس پر ان کے کچھ لوگوں کی سرزنش بھی ہوئی تھی۔ پھر بھی انہیں بذریعہ وحی ہلاک کرنے کا حکم نہیں دیا گیا کیونکہ وہ اور عیسائی اہل کتاب ہیں۔
قرآن نے مسلمانوں کو اہل کتاب سے خوش اسلوبی سے نمٹنے کا حکم دیا ہے ۔ سورہ یونس، آیت 14میں ارشاد ہے:
’’ان لوگوں سے پوچھ لو جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں۔‘‘
نیز سورہ نحل کی آیت نمبر 43میں ہے:
’’اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے(یہاں اہل ذکر سے مراد علمائے اہل کتاب ہیں) ۔
حرف بحرف یہی الفاظ سورۃ انبیاء کی آیت 7کے بھی ہیں۔
اس تناظر میں سورۃ بقرہ کی آیت 120کی بھی یہاں مثال دی جاسکتی ہے جسکا مفہوم ہے :
’’یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہونگے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔‘‘
اس آیت میں قتل یا کسی اور سزا کی ہدایت نہیں بلکہ یہ انسانی مزاج کی ایک حقیقت کا اظہار ہے، نیز سورۃ بقرہ، آیت نمبر 111میں ہے:
’’انکاکہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائیگا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو یا عیسائیوں کے خیال کے مطابق عیسائی نہ ہو۔‘‘
اس میںبھی انسانی مزاج بتایا گیا ہے کہ ہر شخص کا یہی خیال ہوتا ہے کہ صرف وہی راہ راست پر ہے۔
قرآن کریم نے تمام مومنوں کے ساتھ انصاف کیا ہے۔اسکا کہناہے:
’’یقین جانو کہ نبی عربی کے ماننے والے ہوں، یا یہودی ہوں یا عیسائی ہوں یا صابی ہوں جو بھی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائیگا اور نیک عمل کریگا اُسکا اجر اسکے رب کے پاس ہے، انہیں نہ کسی کا خوف ہوگا اور نہ رنج (سورۃ بقرہ، آیت 62)۔
یہی عبارت سورۃ مائدہ کی 69ویں آیت میں بھی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس میں صابی کا لفظ ’’عیسائی‘‘ سے پہلے مذکور ہے۔
قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور انکی والدہ کی منفرد حیثیت بیان کی ہے اور سورۃ مائدہ کی آیت نمبر 82میں عیسائیوں کو یہودیوں سے بہتر قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے:
’’تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پائوگے اور ایمان لانے والوں کیلئے دوستی میں قریب تر اُن لوگوں کو پائو گے جنہوں نے کہاتھا کہ ہم نصاریٰ ہیں، یہ اسی وجہ سے ہے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں، اور ان میں غرور نفس نہیں ہے۔‘‘
یہ سچ ہے کہ قرآن نے اسلام اور مسلمانوں سے یہودیوں کی دشمنی اجاگر کی ہے تاہم قرآن نے انہیں قتل کرنے کا قطعاً حکم نہیں دیا ۔
اب میں عیسائیوں کی بابت قرآنی بیان کا باقی ماندہ حصہ پیش کرنا چاہوںگا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے انکی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہوجاتی ہیں، وہ بول اٹھتے ہیں کہ پروردگار! ہم ایمان لائے ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔‘‘ (سورۃ مائدہ 83)۔
اب میں برطانوی رکن پارلیمنٹ جیراڈ ہیٹن کے موضوع کی طرف ایکبار پھر واپس آتا ہوں ۔
ان کیلئے میرا یہی مشورہ ہے کہ وہ خود کو اپنے ملک تک محدود رکھیں کیونکہ ان کی معلومات کا خزانہ برطانیہ تک ہی محدود ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کو انکے حال پر چھوڑ دیں اور اس حوالے سے اپنی کم علمی ، بے وقوفی اور انتہا پسندانہ افکار کا مظاہرہ کرکے خود کو بدنام نہ کریں۔
اگر انہیں مذہب کا فہم ہوتا یا وہ معقولیت پسند ہوتے تو غالباً وہ توریت میں نسل کشی کے حکم پر احتجاج ضرور کرتے۔ مثال کے طور پر توریت میں رب یسوع کو حکم دیتا ہے:
’’مردوں ، خواتین اور بچوں کو قتل کردو۔اونٹوں ، چوپایوں اور گدھوں کو مار ڈالو اور سونا ، چاندی ، لوہا اپنے پاس رکھ لو‘‘۔
یہ رب کا نہیں بلکہ کسی تجارت پیشہ انسان کا کلام لگتا ہے۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہناچاہتا۔
٭٭٭٭٭٭