فکر اقبال کی سوتے دینی تعلیمات سے پھوٹتے ہیں
ان کا پوراکلام فرمانِ ربانی اور احادیث نبوی کی تجلیوں سے معمور ہے
* * *
علامہ اقبال کا امتیاز یہ ہے کہ ان کی شاعری ایک مستقل ، متعین اور مربوط نظام ِفکر کی تابع ہے جس کی پشت پر ایک عقلی جواز اور ایک سلسلۂ استدلال ہے۔ اس کے باوجود وہ تمام شعری محاسن جو کسی بھی شہرہ آفاق شاعر کے کلام میں متوقع ہوسکتے ہوں ، ان کی شاعری میں موجود ہیں۔ان کی عظمت ، ان کے جذبات کی شدت وصداقت، ان کے کلام کی مقصدیت، ان کے شعر کی مستی وکیف، آہنگ اورموسیقیت میں مضمر ہے۔ان کی عظمت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری کے واضح محرکات ،کلام کی واضح تر اندرونی شہادتیں اور پیام کے نمایاں خد وخال موجود ہونے کے باوجود انہیں وہ کچھ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے جو وہ نہ تھے ، نہ ہوسکتے تھے۔ یہ کوشش برصغیر میں بعض ادبی حلقوں کی جانب سے اب بھی جاری ہے۔ زمینوں ہی پر غاصابانہ قبضہ نہیں ہوتا ، عظمتوں پر بھی ہوتا ہے اور اس کی مثال قریب وبعید ہر زمانے میں ملے گی۔
ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم نے جو اقبال کے معاصر بھی تھے اور خود فلسفہ کے عالم ہونے کے سبب افکارِ اقبال کے تجزیے کا منصب بھی رکھتے تھے، اپنی تصنیف ’’فکر اقبال‘‘ میں اقبال کے ابتدائی دور کی شاعری کے متعلق ، جو وہ دورِ مشق وتقلید قرار دیتے ہیں، یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس میں بھی ’’اقبال کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں جس کے آفتابِ کمال بہت جلد افق سے ابھرنے والا تھا۔ اس دور کو اقبال کی شاعری کی ’’صبح کاذب‘‘ کہنا چاہئے جس کی روشنی طلوع آفتاب کا پیش خیمہ ہوتی ہے‘‘
یہ دور جس کو ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم نے استعارے کی زبان میں ’’صبح کاذب‘‘ قرار دیا ہے اس میں بھی اقبال کے لئے شاعری محض مشقِ سخت یا تفنن طبع کا ذریعہ نہ تھی بلکہ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے جس کیلئے ’’گوش شنوا‘‘ کا فقدان تھا۔ وہ جوکچھ محسوس کرتے تھے جس کا دوسروں کو احساس نہ تھا:
صفت شمع لحد مردہ ہے محفل میری
آہ اے رات بڑی دور ہے منزل میری
عہدِ حاضر کی ہوا راس نہیں ہے اس کو
اپنے نقصان کا احساس نہیں ہے اس کو
ضبط پیغام محبت سے جو گھبراتا ہوں
تیرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہے
’’شمع وشاعر‘‘ سے لے کر ’’خضرراہ‘‘ اور ’’طلوع اسلام‘‘ تک پہنچتے پہنچتے ان کی فکری اورذہنی ارتقا کی سمت اور منزل کے نشانات واضح تر ہوجاتے ہیں۔ پہلے ’’شمع وشاعر ‘‘ کے چند اشعار :
کیوں چمن میں بے صدا مثل رمِ شبنم ہے تو
لب کشا ہوجا، سرودِ بربط عالم ہے تو
بے خبر تو جو آئینۂ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
بالکل ابتدائی دور میں بھی وہ ملت کے مقدر سے مایوس نہ تھے ’’صبح کاذب‘‘ میں بھی ان کی بالغ نظر اور دور بین نگاہ نیر اعظم کے آثار دیکھتی تھی:
آسماں ہوگا، سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پاہوجائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا ، نغمہ توحید سے
’’زندہ رود‘‘ کے مصنف جاوید اقبال نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ ’’اقبال اجل کا ہی پیامی نہیں، زندگی کا، امید کا، عزم وہمت کا ، حرکت وعمل کا، خود اعتمادی کا، ذہنی بیداری کا، وسعت نظرکا، علمی فتوحات کا اور تسخیر کائنات کا پیامی ہے۔ہر چند کہ ’’حکایات بایار گفتن‘‘ اور تغزل میں بھی اس کا کلام ایک اعلیٰ معیارپیش کرتا ہے اور اس کی غزل گوئی نے دورِ حاضر کی غزل گوئی کو متاثر کیا ہے، غزل کو وسعت اور اسلوب کی ندرت، والہانہ آہنگ اور موسیقیت بخشی ہے اور اس کے کلام میں ایسے اشعار بھی ہیں
نہ بادہ ہے ، نہ صراحی نہ دورِ پیمانہ
فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزم جانانہ
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
اقبال کا کہنا ہے کہ خارا شگافوں سے شیشہ سازی کا تقاضا نہ کیا جانا چاہئے:
حدیث بادۂ ومینا وجام آتی نہیں مجھ کو
نہ کر خارا شگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا
اس کو شکوہ ہے کہ :
رنگ وآب شاعری خواہد زِمن
او حدیث دلبری خواہدزِ من
’’شمع وشاعری‘‘1912ء میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسے میں پڑھی گئی۔’’خضرِ راہ‘‘ بھی اسی انجمن میں 10سال بعد 1922ء میں اور ’’طلوع اسلام‘‘ 31مارچ1923ء کو اسی انجمن میں پڑھی گئی۔ آخر الذکر دونوں نظمیں پیش نظر ہوں تو اقبال کے ذہنی سفر اور اس کی منزل کے تعین کے بارے میں کوئی اشتباہ واقع نہیں ہوسکتا اور یہ بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ شاعری کو انہوں نے کیوں وسیلۂ اظہار بنایااور کیسی کامیابی کے ساتھ اس جادو سے اپنے مقصد اور نصب العین کی خدمت لی ہے۔انہوں نے دنیا ئے اسلام نامی نظم میں بڑے درد وسوز کے ساتھ عالم اسلام کے زوال وانتشار ، برادرکشی اور بربادی کا نقشہ کھینچا ہے:
ہوگئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے ہیں آج مجبور ِ نیاز
ہوگیا مانند ِ آب ارزاں مسلماں کا لہو
مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز
لیکن اس نظم میں محض گریہ وماتم ہی نہیں، امید کا پیغام بھی ہے جس کی بنیاد محض خوش فہمی پر نہیں جیسا کہ دوسرے فارسی اردو کے مجموعہ ہائے کلام کے مطالعے سے بھی ثابت ہوتا ہے بلکہ مغربی نظام افکار وتمدن کے عقلی سطح پر بودے پن اور عملی شکل میں انتشارافزا ہونے کے یقین اور اسلامی نظام کے جاندار حیات بخش عناصر پر پختہ اعتماد پر ہے:
ربط وضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اس نکتے سے بالکل بے خبر
کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
اور آخر میں:
مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار
ہر زماں پیش نظر لا یخلف المیعاد وار
اور طلوع اسلام کے یہ اشعار اس امر کی واضح شہادت ہیں کہ محنت کش طبقے سے ہمدردی کے باوجود وہ اشتراکی انقلاب کو نہیں اسلامی انقلاب کو ملوکیت، سرمایہ داری، طبقاتی کشمکش، ظلم وزبردستی اور ناانصافی کی شبِ تاریک کا خاتمہ اور سحر امید تصور کرتے تھے:
یہ نکتہ سرگزشت ملت بیضاسے ہے
کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسباں تو ہے
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
ہاں یہ ضرور ہے کہ شمع وشاعر سے طلوع اسلام تک ان کا لہجہ اور آہنگ خاصا جذباتی ہے۔ مغربی افکار کے منطقی خلاف، مغربی تہذیب کی عین فطرت میں مضمر خرابی کی صورتوں کی جانب اشارہ، تنقیدی تجزیہ وتحلیل اور رائج غیر خدا پرستانہ نظاموں کے بارے میں بالغ نظرانہ پیش بینی اور پیش گفتاری، ضرب کلیم، بال جبریل،ارمغان حجاز اوران کے فارسی مجموعہ ہائے کلام میں ملتی ہے۔
شعروادب اور فی الجملہ فنون لطیفہ کے بارے میں اقبال کا نقطہ نظر کیا تھا، ملاحظہ فرمائیے: 1917ء میں لکھنو کے ایک انگریزی اخبار نیوا ئیر میں اقبال کا ایک انگریزی مضمون شائع ہواتھا۔ اس میں انہوں نے آرٹ کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ فنون لطیفہ بشمول شاعری ان کے نقطہ نظر پر روشنی ڈالتے ہیں اور ان کے کلام کو سمجھنے میں بھی ممد ومعاون ہوتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے اشعار میں بھی کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ مقالہ یورپ سے واپسی کے بعد کے زمانہ میں شائع ہوا۔ سرسید کی تحریک پر حالی کے تغزل کو ترک کرکے ملی شاعری کی طرف رخ کرنے کاتذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم ’’فکر اقبال ‘‘ میں رقم طراز ہیں’’اقبال میں یہ جذبہ شروع سے موجود تھالیکن اس میں شدت اور گرمی مغرب میں پیدا ہوئی۔اس کی طبیعت میں یہ آفتاب ِمحشر مغرب میں طلوع ہوا‘‘ یورپ سے واپسی کے بعد کے زمانے کی شاعری میں وہ ابہام ، جستجو اور خلش کا انداز نہیں پایا جاتا جو اس سے پہلے کی اردو شاعری میں ملتا ہے۔ نیوائیر میں شائع ہونے والے انگریزی مضمون کا عنوان تھا ’’جناب رسالت مآب کا ہمعصرعربی شاعر پر تبصرہ‘‘ اس مضمون کے اردو ترجمے کا اقتباس زندہ رود(تشکیلی دور) سے ماخوذ درج ذیل ہے:
’’آنحضور نے اپنے عہد کی شاعری کی نسبت وقتاً فوقتا ًجن ناقدانہ خیالات کا اظہار فرمایا، تاریخ نے انہیں محفوظ کیا ہے۔ ایک تنقید تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ شاعری کیسی نہ ہونی چاہئے اور دوسری تنقید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ شاعری کیسی ہونی چاہئے۔عین ممکن ہے کہ ایک شاعر خوبصورت اشعار کہتا ہو لیکن اس کے باوجود اپنے معاشرے کو دوزخ کی طرف دھکیل دے۔ ایک دفعہ بنو عبس کے مشہور شاعر عنترہ کا یہ شعر حضور کے سامنے پڑھا گیا :
ولقد ابیت علی ا لطوی والظلمہ
حتیٰ انال بہ کریم الماکل
یعنی میں نے بہت سی راتیں محنت ومشقت میں بسر کی ہیں تاکہ میں اکل حلال کے قابل ہوسکوں۔ رسول اللہ اس شعر کو سن کر بہت محظوظ ہوئے ، آنحضورنے جو اس شعر کی تعریف فرمائی اس سے آرٹ کے ایک اور اہم اصول کی شرح ہوتی ہے کہ آرٹ حیات انسانی کے تابع ہے ، اس پر فوقیت نہیں رکھتا، ارفع آرٹ وہی ہے جو ہماری خوابیدہ قوتِ عزم کو بیدار کرے اور ہمیں زندگی کی آزمائشوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ترغیب دے۔ یہ نعرہ کہ آرٹ برائے آرٹ یا آرٹ قائم بالذات ہے ، انفرادی واجتماعی انحطاط کا ایک عیارانہ حیلہ ہے اور اس لئے تراشا گیا ہے کہ ہم سے زندگی اور قوت دھوکہ دے کر چھین لی جائے‘‘
مذکورہ بالا اقتباس میں جو بات کہی گئی ہے اسی کو ’’فنون لطیفہ‘‘ کے عنوان کے تحت ضرب کلیم میں استعارات کی زبان اور شاعری وساحری کے اسلوب وآہنگ میں پیش کیا گیا ہے:
مقصود ہنرسوزحیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا
جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر گیا
شاعر کی نواہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادسحر کیا