Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آبائی وطن اور گھر ، انسان کی جنت

یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں، نہ ہی یہ ہمارا اصل ٹھکانہ ہے، ہم مسافر ہیں، صراط مستقیم ہمارا راستہ ہے اور جنت ہماری منزل
* * * *    محمدکبیر بٹ ۔ ریاض* * * *

آبائی گھر کی محبت اور وطن کی خو شبو خا لق ارض وسما ء نے انسا ن کی فطرت میں اس طر ح دا خل کر دی ہے جس طرح آٹے میں نمک ڈال کر اسے اچھی طرح گوندھ کر یکجا کر دیا جا تا ہے ۔پھر ہم پر دیسیوں سے زیا دہ کون اس حقیقت کو جا ن سکتا ہے کہ اپنا گھر اور آبا ئی وطن کتنا پیا را ہو تا ہے ۔ ہم میں سے ہر ایک دن اور را ت کے اوقات میں اپنے وطن اور آبا ئی گھر با ر کو کتنی مرتبہ یا د کرتا ہے اور را توں کوگہری نیند میں بھی خواب کی حا لت میں اپنے گھرکی سیر کر آتے ہیں ۔وطن سے دورمگر اس وطن اور گھر با ر کو دل میں بسا ئے بعض دیوا نے اپنی گا ڑیوں کے پیچھے اپنے وطن اور علا قے کے نا م یوںکندہ کر دیتے ہیں کہ وہ نقش کالحجرہو جا تے ہیں جو اس با ت کی غمازی کر تے ہیں کہ وطن کی محبت اور گھرپہنچنے کا شوق دل و دماغ کی گہرائیوں میں پیوست ہو چکے ہیں ۔
    پہلے ہم فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کی بے وطن ا ور گھر سے دور ہونے کی بات کرتے تھے لیکن اب تو برما کے مسلمان شام اور لیبیا اور یمن کے مسلمان بھی بے گھر ہو چکے ہیں۔ ہم ان سب بے گھروں کے حق میں دعائیں بھی کرتے ہیں اور ان کو بد نصیب بھی کہتے اور سمجھتے ہیں۔ یہ ساری مثالیں صرف اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے دی گئی ہیں کہ اپنا گھر اور پیارا وطن انسان جہاں بھی رہے اس کے دل میں بستے رہتے ہیں بلکہ اس کا دل و دماغ اپنے ہی گھر اور وطن کے خواب ہر وقت دیکھتا رہتا ہے۔یہ وہ عارضی اور حقیر دنیا کے گھر بار اور وطن ہیں جن کی خاک کبھی نصیب ہوتی ہے اورکبھی وہ بھی نصیب نہیں ہوتی، پھر ہم اس کے لئے اس قدر تڑپتے ہیںلیکن افسوس صد افسوس انسان کی اُس غفلت اور انسان کی حالت پر کہ وہ اپنے اصلی گھر اور حقیقی وطن کو بھول چکا ہے ۔
     قارئین کرام!اللہ تعالیٰ نے ہمارے جد امجد سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کیا پھر ان کی پسلی سے حضرت حوا علیہا السلام کی پیدائش ہوئی ۔ اس جوڑے کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں بسایا اور فرمایا:
    ’’اورہم نے کہا اے آدم !تم اور تمہاری بیوی اس جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو بفر اغت کھائو اور پیو ۔‘‘(البقرہ35)۔
     غور کیجئے !اگر آدم ؑ  کو جنت سے نہ نکالا جاتا تو ان کی ساری اولاد ،میںاور آپ سب آج  اپنے آبائی گھر اور ز مین و آسمان سے زیادہ وسعتوں والی جنت میں خوب مزے اور عیش کر رہے ہوتے لیکن قضاء و مقدر ، حکمتِ ربانی ، کچھ انسان کی خطا اور نسیان کی کمزوری اور شیطان کی مداخلت نے انسان کو جنت سے نکال کر زمین پر پہنچا دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس وسیع و عریض زمین بلکہ ساری دنیا کو انسان کے لئے امتحان گاہ قرار دیا اور آدم و حوا علیہم السلام کو زمین پر بھیجتے وقت اپنا اٹل فیصلہ یوں صادر فرمایا ۔ تم سب( آدم و حوا اور ابلیس ) یہاں سے نیچے اتر جائو (یعنی جنت سے زمین پر ڈال دیا گویا بلندیوں سے پستیوں کا یہ سفر ہمارا مقدر ٹھہرا)اور فرمایا: تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت و رہنمائی بذریعہ انبیاء ؑ اور کتبِ سماوی آتی رہے گی جو اس ہدایت کی روشنی میں اپنے سفر کو مکمل کرے گا۔ میں اسے پھر دوبارہ اپنے گھر اور آبائی وطن (جنت)کا وارث بنا دوں گا اور جو میری اس ہدایت کی روشنی سے منہ موڑ کر زندگی بسر کرے گا وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوگا اور آخرت میں جہنم کا ایندھن بنے گا ۔یاد رکھیے وہ جنت اور آبائی گھر اب محض گیت گانے سے نہیں ملیں گے بلکہ اس کے لئے جاں گُسِل محنت اور جانی و مالی ایثارکرنا پڑے گا۔ مقابلہ بڑا سخت ہے:
    ’’اے اولادِ آدم خبردار ! شیطان تمہیں کسی فتنے میں نہ ڈال دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو (جھوٹی قسم کھا کر ورغلایا اور) جنت سے نکلوا دیا ۔‘‘(الاَعراف27)۔
     اللہ تعالیٰ سے ابلیس لعین نے قیامت تک مہلت مانگی تو اللہ تعالیٰ نے مہلت دے دی۔تب اس نے قسم کھا ئی کہ ان کے راستے میں اس صراط مستقیم پر جم کے بیٹھ جائوں گا اور ان پر حملے کروں گاسامنے سے اور پیچھے سے، دائیں سے اور بائیں سے اور تُو ان میں سے بہت تھوڑے لوگوں کو اپنا شکر گزار پائے گا(القرآن)۔
     یہ ہے شیطان کا چیلنج اور اس نے کھل کر کہاکہ میں ان کو گمراہ کر کے جہنم میں اپنے ساتھ لے جائوں گا۔
     اس کے جواب میں رب کریم نے فرمایا :
    ’’میرے مخلص بندوں پر تیرا کوئی بس نہ چلے گا اور یاد رکھ جب تک وہ توبہ کرتے رہیں گے میں ان کے قصور معاف کرتا رہوں گا۔‘‘
     ان حقائق کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے مرتبے اور مقام کو پہچانیں، اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اس بات کو سمجھیں کہ دنیا کی جس امتحان گاہ میں ہمیں بٹھایا گیا ہے ،یہاں ہمیں کتنا سخت معرکہ درپیش ہے اورہمارا دشمن(شیطان )کتنا طاقتور اور جدید ترین اسلحہ سے لیس ہے ۔ کیا ہم نے اس چیلنج کو سمجھا اور مقابلے کی بھر پور تیاری کی ہے؟ یہ ہے اس مضمون کا مقصدِ حقیقی!اللہ نے ہمیں صراط مستقیم پر چلانے آبائی گائوں اور اپنے گھر جنت تک پہنچانے کے لئے قرآن مجید فرقان حمید اور سید الانبیاء محمد الرسول کے ذریعے مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔
     اھدنا الصراط المستقیم(ہمیںسیدھی راہ دکھا) کا ورد  روزانہ کتنی مرتبہ کروایا جاتا ہے تاکہ یہ با ت ہمارے دل و دماغ میںہر وقت تازہ رہے کہ یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں، نہ ہی یہ ہمارا اصل ٹھکانہ ہے۔ ہم مسافر ہیں، صراط مستقیم ہمارا راستہ ہے اور جنت ہماری منزل ۔بقول ڈاکٹر نذیرشہیدؒ:
    ’’دعوت اور اقامت دین کی جد و جہد ہی وہ راہ ہے جس پر چل کر تم ایک سر سبز و شاداب (جنت) میں پہنچو گے جس میں کبھی خزاں نہیں آتی ۔جس نے اس کانٹوں بھری راہ کو چھوڑ دیا ،وہ نعمتوں بھری جنت میں نہیں پہنچ سکتا ۔ ‘‘
     جنت کا راستہ (صراط مستقیم) پھولوں کی سیج نہیں، یہ راستہ کانٹوں سے اٹا پڑا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:
    ’’جنت کے گرد ایسی چیزوں کی باڑ لگا دی گئی ہے جو نفس کو سخت ناگوار گزرنے والی ہیں اور جہنم کے گردایسی چیزوں کی باڑ لگا دی گئی ہے جو نفس کو بڑی مر غوب ہیں (یعنی خواہشاتِ نفس)۔‘‘
     جو اس دنیا میں بلندی سے پستی کی طرف گرنا چاہتا ہے وہ خواہشاتِ نفس اور دنیا کے مزوںکے پیچھے پڑا ہے اور خود بخود پستی اور گراوٹ کی ا تھاہ گہرائیوں میں گر کر جہنم میں پہنچ جائے گا لیکن جسے صراط مستقیم جنت کی راہ پر چلناہو اسے ہر لمحہ ہوشیار اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے ۔اسے ہروقت ہماگیر اور ہما جہت لڑائی لڑنی ہے ۔ یہ لڑائی ہے خواہشات نفس کے خلاف، داخلی اور خارجی دشمنوں کے ساتھ، اور جانے ، انجانے دوست نما منافقین اور شیطان کے چیلوں کے ساتھ ، شرکیہ اعمال و افعال اور بدعات کے ساتھ ۔وجاھدونی اللہ حق جھادہ ھواجتبکم’’ اور اللہ کی راہ میںجد وجہد کرو جیسا کہ اس کا حق ہے‘‘ ۔اس اللہ نے تمہیں اسی مقصد کے لئے منتخب کیا ہے تاکہ تم ساری زندگی شیطانی قوتوں اور ابلیسی ہتھکنڈوں کے خلاف کشمکش میں لگے رہو اور جب یہ جنگ جیت کر میرے پاس پہنچو تو میں تمہیں اپنی رضا کی سند سے نواز کر سدا بہار جنتوں میں داخل کر دوں گا۔
    ’’ورضوان من اللہ اکبر‘‘اور اللہ کی رضا ہی سب سے بڑی چیز ہے ۔ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اس کشمکش کی نزاکتوں اور اس مقابلے کی وسعتوں اور مشکلات کا شعور اور ادراک رکھتے ہیں ۔ یاد رکھیئے ہمارا دشمن بڑا مکار، ہماری نظروں سے اوجھل مگر ہمارے جسم میںخون کی طرح گردش کرنیوالا، دلوں میں ہر وقت وسوسے ڈالنے اور دماغوں کو نئے نئے فتنوں سے گمراہ کرنیوالا ہے۔ اسکے مقابلے کے لئے ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہنا ، ذکر و فکر اور عبادات کے ذریعے اس رب سے تعلق مضبوط کرنا ، قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں غور و فکرکے ذریعے صراط مستقیم پر قائم رہنے کے لئے رہنمائی حاصل کرنا اور شیطان کے تمام حربوں اور چالوں سے آگاہی حاصل کرنا ۔ ہرہر قدم پر اپنا احتساب کرکے یہ جایزہ لیتے رہنا کہ قدم جادئہ حق صرا ط مستقیم سے ہٹ تو نہیں گئے ؟ دا نستہ یا نادانستہ شیطان نے کسی اور راہ پر تو نہیں لگا دیا ؟ سوچ و فکر کے زاویے اور عمل کے دائرے درست سمت پر ہیں یا نہیں ؟ خود احتسابی کا یہ عمل اس راہ پر استقامت اختیار کرنے کیلئے ناگزیر ہے۔
    اللہ تعالیٰ ہمیں شیطانی چالوں سے محفوظ و مامون فرمائے اور صراط مستقیم پر قائم رکھے،آمین ۔
وما علینا الا البلاغ ۔                                                            
 

شیئر: