ایک جوڑا بھی گولیوں کا نشانہ بن گیا ،2سال کی بچی کو کسی نے اٹھالیا جو شدید زخمی تھی،ہر کسی کو اپنی پڑی تھی سب جلد ازجلد بہاری کالونی پہنچنا چاہتے تھے
خالد مسعود-ریاض
(نویں قسط)
اور ایک شب جب آدھی گزرگئی تو ہم نے دیکھا گھر کی سامنے والی سڑک کے کنارے ایک لکڑی کی دکان تھی وہاں پر کچھ لوگ جو فوجی لباس میں تھے سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ سب کے ہاتھوں میں اسلحہ بھی تھا۔ اس سڑک کے درمیان اپنا مورچہ بنا لیاتاکہ پاکستا ن کی فوجی گاڑیاں جو گشت پر ہوتی تھیں ان کی مزاحمت کی جائے۔ ہمیں یقین ہوگیا ہندوستانی فوج مکتی باہنی کے ساتھ شہر میں داخل ہوچکی ہے۔ صبح ہوتے ہی کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کیا جائے۔ کیا ہونے والا ہے۔ یہ وسوسہ بے چین کئے جارہاتھا ۔گھر میں ضعیف دادا جان دادی ، اماں ، خالہ ، پھوپی، بہنیں سب کا کیا بنے گا ؟بے شمار سوالات ذہن کو پریشان کرنے لگے۔ ابی جان نے کہا ایسا کرتے ہیں آرمی کیمپ میں کسی طرح جاکر انھیں خبر کردیتے ہیں۔ شاید وہ کمک بھیج کر انھیں بیدخل کر دیں۔ ابی فوراً ہی اکیلے آرمی کیمپ کی طرف روانہ ہو گئے۔ پورے شہر میں سکوت و خاموشی طاری تھی جیسے یہ خاموشی کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہو۔ تھوڑی دیر کے بعد دیکھا ابی کے ساتھ ایک جوان کندھے پر بندوق لٹکائے چلا آرہا ہے۔ اس نے آتے ہی ہمارے گھر کی چھت سے مکتی باہنی کے مور چے پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ یہاں تک کہ بندوق کی گولیاں ختم ہو گئیں اور وہ واپس اپنی کیمپ کی طرف کمال بے نیازی سے اسطرح روانہ ہوا جیسے اس نے مورچے کوتباہ کر دیا ہو۔ ہماری کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ ہوا کیا۔ چند لمحوں بعد ہی یہ خاموشی جے بنگلہ جے بنگلہ کی نعروں سے گونج اٹھی۔ ابی فوراً چھت پر گئے تو کیا دیکھتے ہیں اسی مورچے کے قریب ایک جم غفیر جمع ہے۔ سب کے ہاتھوں میں اسلحہ تھا اور وہ نعرہ بازی کر رہے تھے۔ ابی نے خطرات کو بھانپ لیا۔ فوراً نیچے آئے اور ہم لوگوں سے کہا فوراً گھر سے نکلو۔ ہم سب جس حالت میں تھے اسی حالت میں گھر سے نکل گئے میں صرف بنیان اور تہمند میں تھا۔ اسے تبدیل کرنے کا وقت بھی نہیں تھا ۔ ابی سے پوچھا کہاں جائینگے ؟کہا بس چلو اسٹیشن کے قریب ریلوے لائن کی دوسری طرف بہاری کالونی تھی جہاں صرف اردو بولنے والے کافی بڑی تعداد میں رہتے تھے۔ ہمیں وہی محفوظ جگہ نظر آئی لہٰذا ہم لوگ اسی طرف چل پڑے۔ محلے سے گزرتے ہوئے بنگالی اپنے گھروں سے ہمیں دیکھتے رہے۔ کئی ایک نے ہم سے پوچھا بھی کہ کہاں جارہے ہیں لیکن ہمارے پاس جواب دینے کا بھی وقت نہیں تھا ۔جب اسٹیشن کے قریب پہنچے تو تو گولیاں چلنی شروع ہو گئیں۔ آس پاس کی بڑی عمارتوں پر مکتی باھنی پوزیشن لئے اپنے مورچے پر موجود تھے جس سے اندازہ ہوا مکتی باھنی کا پورے شہر پر قبضہ ہو چکا ہے۔ انھوں نے ہم پر فائر کھول دیا۔ شہر کے ہر محلے سے اردو بولنے والے جو بنگالیوں کے درمیان رہتے تھے ۔وہ بھی اپنی جان بچانے کیلئے اسی بہاری کالونی کی طرف رواں دواں تھے۔ ان مکتی باھنی کی گولیوں کی زد میں کئی افراد آئے جو گولی لگتے ہی گرتے اور تڑپتے رہے لیکن ہم انھیں بچانے کیلئے کچھ بھی تو نہیں کرسکے ۔سب کو اپنی جان کی پڑی تھی۔ ایک نیا جوڑا جن کی گود میں 1/2 سال کی بچی تھی ہمارے ساتھ ہی چل رہا تھا ا نھیں بھی گولی آکر لگی ۔بچی بھی زخمی ہوئی۔ میاں بیوی زمین پر گر کر تڑپ رہے تھے۔ ہمارے ساتھ چلتے ہوئے ایک خاندان کو موقع مل گیا۔ انھوں نے زخمی بچی کو اپنی گود میں اٹھا لیا۔ ہم انھیں تڑپتا چھوڑ کر بچی کے ساتھ ریلوے لائن کراس کرکے بحفاظت بہاری کالونی میں داخل ہو گئے ۔ہماری مہلت زندگی باقی تھی جو ہم بچ گئے۔ اس کالونی میں ابی کے ایک دوست عقیق صاحب رہتے تھے جنھوں نے ہمیں پناہ دی اور ہم سب ان کے گھر پر ٹھہر گئے ۔یہاں سے آرمی کیمپ چند میل کے فاصلے پر ہی تھا ۔آرمی نے بھی خود کو محصور کر لیا تھا کہ انکی تعداد بہت قلیل تھی اور سپلائی لائن بھی کٹ چکی تھی لیکن کالونی کے چند لوگوں کے ساتھ آرمی کیمپ کا رابطہ رہتا تھا اور انھیں حفاظت کیلئے بندوقیں بھی فراہم کر دی تھیں لیکن چونکہ گولیوں کی تعداد محدود تھی اتنی ہی گولی چلانے کوکہا تھا کہ دشمن کو ہماری موجودگی کا احساس رہے۔ اس آبادی کے چاروں طرف مورچے بنا دیئے گئے تھے۔ ہماری اس آبادی پر دن رات گولیاں بھی برستیں اور راکٹ و گولے بھی برساتے لیکن ہدایت کے مطابق ہمارے مورچے سے جوابی فائر چند ہی ہوتے۔ فرسٹ ایڈ کا کوئی سامان بھی نہیں تھا ۔دشمن کی گولیوں اور راکٹ سے کوئی زخمی ہوتا تو اسکی مرہم پٹی بھی نہیں ہوتی اور بیشتر خون ضائع ہونے کی وجہ سے اپنے رب کے پاس پہنچ جاتے۔ ہم اپنے سامنے دم توڑتے ہوئے دیکھتے لیکن کچھ نہیں کرسکتے تھے ۔ہم کتنے بے بس و لاچار تھے۔ ایک دن تو اتنی گولیاں چلیں ،راکٹ برسائے اور کالونی کے آخری کونے پر گھروں کو آگ بھی لگا دی سب کو یقین ہوگیا کہ مکتی باہنی کالونی میں داخل ہو چکی ہے۔ سب ہی نہتے تھے سبکو اپنی موت کا یقین ہو گیا ۔والدہ، خالہ، بہنیں سب ہی نے رونا شروع کردیا۔ وہ سماں کبھی نہیں بھولتا جب ابی نے والدہ اور خالہ کو خنجر تھما کر کہا تھا کہ اگر دشمن سامنے آجائے تو کبھی اپنے آپ کو حوالے نہ کرنا۔ سب کو مارکر خود کو بھی مار لینا۔ ایسے میں مجھے دادی کی وہ باتیں یاد آئیں۔ انھوں نے بھی تو یہیں بتایا تھا تقسیم کے وقت ہندو بلوائیوں نے گائوں پر حملہ کردیا تھا ۔وہاں بھی تو عورتوں سے یہی کہا تھا خود کو حوالے نہ کرنا گائوں کے کنویں میں چھلانگ لگا دینا اور کنواں عورتوں کی لاشوں سے بھر گیا تھا۔ اس آبادی میں کوئی کنواں بھی نہیں تھا۔ جب ہی تو ابی نے خنجر سے خود کوہلاک کرنے کیلئے کہا تھا۔ یہ تو وہی تاریخ دہرائی جارہی تھی اس وقت پاکستان بنانے کیلئے ہمارے آبا ؤ اجداد نے قربانی دی تھی آج انکی اولاد پاکستانی ہونے کے جرم میں قربان ہو رہی تھی یہ ہمارا المیہ ہے۔ ہر طرف رونے اور چیخنے کی آوازوں سے پوری آبادی گونج رہی تھی۔ سب انتظار میں تھے نہ جانے کس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ کس طرح موت آنی ہے ہم سب تو نہتے تھے اور دشمن اسلحے سے لیس اتنے میں آرمی کیمپ سے پیغام ملا جتنے لوگ بھی آسکتے ہیں آرمی کیمپ میں آجائیں۔ آرمی کیمپ بھی دراصل سیٹلائٹ ٹائون میں قائم تھا۔ یہ سیٹلائٹ ٹائون حکومت نے اردو بولنے والوں کیلئے سستی اسکیم کے تحت بنایا تھا ۔جن لوگوں کو قبضہ مل گیا تھا وہ اس میں منتقل ہوچکے تھے جوکمپائونڈ بالکل خالی تھے وہ پاکستان فوج کو د یدیئے گئے تھے۔ آرمی کی طرف سے امید افزا پیغام ملتے ہی سب لوگ زندگی کی ایک امید لیے چل پڑے جو بہاری کالونی کے عقب میں تھا۔ ابی نے بھی ہم سب سے کہا فوراً چلو ہم سب پیدل چل پڑے۔ وہاں پہنچنے کے بعد ہر کوئی اپنی پناہ گاہ کی تلاش میں تھا ۔ اللہ کے فضل وکرم سے یہاں بھی ابا اور ابی کے دوست سعید صاحب مل گئے جو ڈھاکا سے کاروبار کے سلسلے میں راجشاہی منتقل ہو گئے تھے ۔ا نھیں پتہ چلا تو ہماری پوری فیملی کو اپنے گھر لے آئے۔ آرمی اپنے کیمپ میں اور سیٹلائٹ ٹائون کی پوری آبادی محصور تھی۔ دن رات گولیوں اور راکٹ کی بارش ہوتی رہتی۔ ہر طرف سے مکتی باہنی نے گھیرے میں لے رکھا تھا لیکن آبادی میں انھیں داخل ہونے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ ہر فرد کی زبان پر آیت کریمہ کا ورد جاری رہتا شاید اسی کی برکت تھی بلکہ جب پاکستانی فوج نے شہر پر دوبارہ قبضہ کیا تو بہت سے بنگالیوں نے ہمیں بتایا کہ مکتی باہنی والے کہتے تھے کہ داخل ہونے کے تمام راستے پر پاکستانی فوج نے بارودی سر نگیں بچھادی ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ یہ آیت کریمہ کی برکت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں محفوظ رکھا۔ فوجیوں کی مزید کمک مغربی پاکستان سے ڈھاکا پہنچا ئی گئی۔ پھر ڈھاکا سے فوج ان تمام شہروںکیلئے روانہ کی گئی جہاں مکتی باہنی کا قبضہ ہو چکا تھا ۔راجشاہی شہر کیلئے بھی فوج ڈھاکا سے روانہ ہوئی اور راستے میں تمام رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے اور مکتی باہنی اور ہندوستانی ایجنٹوں کی مزاحمت کرتے ہوئے الحمد للہ راجشاہی شہر میں داخل ہو گئی۔ ہر طرف سے توپ کے گولے کی آوازیں بھی آتی رہیں جس سے ہمیں اندازہ ہو گیا کہ فوج شہر میں داخل ہونے والی ہے۔ فوج کے شہر میں داخل ہونے سے پہلے ہی مکتی باہنی اپنے مورچے چھوڑ کر سرحد پار چلی گئی اس طرح 20دن کے بعد بندوقیں خاموش ہوئیں ۔کو ئی گولی گولہ چلنے کی آواز نہیں آئی۔ پورے ماحول میں ایک سکوت طاری ہوگیا ہم گولیوں کی آواز کے عادی ہو چکے تھے۔ میری چھوٹی بہن روحی ( ممتاز شیریں ) نے جو اسوقت 2/3 سال کی تھی معصومیت سے پوچھا تھا کہ بھائی جان آج پٹاخے کیوں نہیں چل رہے ؟پورے شہر پر اب ہماری فوج کا قبضہ ہو چکا تھا۔ جب شہر میں مکمل امن و سکون ہوگیا پھر ہم اپنے گھر کیلئے روا نہ ہوئے۔ راستے میں ہم نے دیکھا ۔لاشیں جگہ جگہ سڑک کے کنارے پڑی ہوئی تھیں جس سے چیل کوے اور کتے اپنی بھوک مٹا رہے تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جو محفوظ مقامات پر پہنچنے سے پہلے گولیوں کا نشا نہ بن گئے تھے یا مار دیئے گئے تھے۔ راستے میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ شہر کی نیو مارکیٹ جو راجشاہی شہر کا واحد جدید شاپنگ سنٹر تھا سے لوگ دکانوں کے تالے توڑکر سامان لوٹ رہے تھے۔ میرے لئے وہ بہت اذیت کا لمحہ تھا جب میں نے شہر کے معتبر اور حلیے سے مذہبی رنگ میں رنگے افراد کو لوٹا ہوا سامان سر پر اٹھائے جاتے دیکھا ۔بدقسمتی سے سارے اردو بولنے والے "بہاری " تھے۔ وہ سب بھول گئے تھے چند گھنٹے پہلے سارے اللہ سے زندگی کی بھیک مانگ رہے تھے جب اللہ نے مصیبت ٹال دی اور مصیبت اور مشکلات سے نکلے چندگھنٹے ہوئے تھے کہ خواہش دنیا میں مگن ہوگئے۔ وہ قرآن کی آیت کی تصویر تھے جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا ! ’’انسان پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تووہ اپنے رب کی طرف رجوع کرکے اسے پکارتا ہے پھر جب اسکا رب اپنی نعمت سے نواز دیتا ہے تو وہ اس مصیبت کو بھول جاتا ہے جس پر وہ پہلے پکار رہا تھا ‘‘(سورہ الزمر آیت 8)
.... باقی آئندہ....
٭٭٭٭٭٭٭٭