افضل خان کے کلام کی تقریب رونمائی،اک نگر اور بھی ہے اس کے نگر سے آگے
افضل کی شاعری کا اپنا ڈھنگ ہے، ان کی شاعری اپنے اسلوب اور اثر پذیری کی وجہ سے قبولیت کا درجہ حاصل کر چکی ہے، کلام میں اپنوں سے دوری کا رنگ غالب، دمام میں تقریب، مشاعرے کا بھی اہتمام
شاعر کا شعور سے تعارف کب ہوا یہ تو کسی کے علم نہیں ہوتا لیکن ایک دن آتا ہے جب شعر قرطاس پر اتر کر شاعر کا تعارف بن جاتا ہے۔ یہی اشعار بارش کی ننھی بوندوںکی طرح برستے ہوئے ایک شفاف ندی کا روپ دھار لیتے ہیں اور وہ ندی قلب و نظر کی کھیتیاں سیراب کرتی ہے۔ پھر وہ باسعادت گھڑی بھی آتی ہے جب کسی شاعر کا شعری مجموعہ کلام اشاعت سے مراحل سے گزر کر تعارفی تقریب کی منزل تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک انتہائی شفیق انسان مخلص دوست اور ادب نواز شخصیت سید ابر ار حسین نے اپنے دولت کدے پر افضل خان کے اوّلین شعری مجموعہ کلام ’’اک نگر اور ‘‘ کی تعارفی تقریب کا اہتمام کیا ۔ اس تقریب کی صدارت کہنہ مشق شاعر خاکہ نگار شعری مجموعہ کلام ــ’’شام کی زد میں ‘‘ کے خالق ، اوورسیزپاکستانی رائٹرز فورم کے صدر اقبال احمد قمر نے کی۔ مہمانانِ خصوصی کی نشستوں پر نامور ادبی شخصیت و سماجی کارکن خواجہ احسان قادر اور صاحبِ جشن افضل خان تشریف فرما تھے۔ سید ابرار حسین میزبانِ خصوصی کی نشست پر متمکن تھے۔ تقریب کی نظامت جدید لب و لہجے کے شاعر لئیق اکبر سحاب نے کی اپنے دلکش انداز میں انجام دی۔محفل دو حصو ں پر مشتمل تھی پہلے حصے میں ’’اک نگر اور‘‘ اور افضل خان کی شخصیت پر روشنی ڈالی گئی جبکہ دوسرے حصے میں شاندار مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔
تقریب کا آغاز تلاوتِ کلام ِ پاک سے کیا گیا جس کی سعادت ٹوسٹ ماسٹرز کلب کے ایریا گورنر اور مترنم لہجے کے شاعر وقار صدیقی نے حاصل کی ۔ ’’اک نگر اور ‘‘پر اظہار ِ خیال کرتے ہوئے لیئق اکبر سحاب نے کہا کہ افضل کی خان شاعری کا اپنا آہنگ ہے۔ ان کی شاعری اپنے اسلوب اور اثر پذیری کی وجہ سے مقبول عام کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔عبداللہ عامر نے کہا کہ افضل خان اپنے اندازِ فکر میں کہیں معاشرے سے نالاں اور کہیں فرسودہ روایات پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ اِ ن کا مزاج اصلاحی ہے اور اِن کی سوچ بدلتے زمانے سے ہم آہنگ ہے۔’’اک نگر اور ‘‘افضل خان کا پہلا شعری مجموعہ ہے یہ نگرمیرا آپ کا اور ہم سب کا ہے۔ مسعود جمال نے کہا میری افضل خان سے پہلی ملاقات اقبال احمد قمر اور فرحت پروین کے توسط سے سید ابرار حسین کے دولت خانے پر ہوئی تھی۔ افضل خان کی شاعری میں اپنوں سے دوری کا رنگ غالب ہے۔ پردیس کا دکھ ان کو بے چین رکھتا ہے اور یہ اُسے اشعار میں ڈھال دیتے ہیں۔ افضل خان کا شمار منطقہ شرقیہ کے بہترین شعرا میں ہوتا ہے۔
محمد ایوب صابر نے کہا کہ افضل خان نے شعری سفر پر نکلنے سے پہلے اساتذہ سے دُعائوں کا ثمر حاصل کیا ۔ ’’اک نگر اور ‘‘ افضل خان کا اوّلین شعری مجموعہ کلام ہے۔ اس کا میں نے بغور مطالعہ کیا یہ کتاب اپنے اندر فہم و فراست اور حکمت و دانش کے موتی سمیٹے ہوئے ہے۔ افضل خان کا اصل میلان غزل کی طرف ہے۔ غزل میں انہوں نے پامال زمینوں پر شعری فصل اُگانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنی فہم و فراست سے شعری زمین تیار کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِن کے کلام میں تازگی کا احساس ملتا ہے۔ سعید اشعر نے کہا میں نے مشاعروں میں افضل خان کے جس کلام کا جائزہ لیا ہے اُس کے اجزائے ترکیبی میں مجھے تین عناصر نظر آئے ہیں۔ ان کی شاعری میں روایتی انداز برتنے کا اندازموجود ہے ۔ یہ اپنے اشعار کو تلقین کے انداز میں بھی کہتے ہیں اور تیسرا جو اہم رنگ ہے انہوں نے جدید موضوعات کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے اور اس انداز کو برتنے میں ان کے پاس تشبیہات اور استعاروں کی کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ اِن کے مصرعے جدید رنگ کے مطابق فضا قائم کرتے ہیں۔ سید ابرار حسین نے کہا کہ سعودی عرب کے حالیہ قیام میں افضل خانؔ کا غالب رجحان شعر گوئی کی طرف رہا ہے اور اس عرصے میں انہوں نے شاعری کو بھرپور وقت دیا ہے لیکن افضلؔ خان شعری مجموعہ چھپوانے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ میں نے ہی اصرار کر کے ان کو راغب کیا ۔اب ان کا مجموعۂ کلام چھپ گیاہے۔یہ تقریباً ساری شاعری میری سنی اور پڑھی ہوئی ہے اور بہت اچھی ہے ۔آپ یقیناً محظوظ ہوں گے۔خواجہ احسان قادر نے کہا کہ افضل خان ابتدا میں گائیکی کی طرف مائل تھے اور ہارمونیم پر ان کی انگلیاں رقص کرتی تھیں۔ اِس کے بعد ذکا ء صدیقی کے ساتھ یہ اسٹیج پر اپنا کلام پیش کرنے لگے اور آہستہ آہستہ موسیقی سے زیادہ وقت شاعری کو دینے لگے۔ اقبال احمد قمر نے کہا کہ شعر گوئی کی پہلی شرط ہے کہ شعر میں شعریت ہوجو کہ افضلؔخان کی شاعری میں بدرجہ اتم موجود ہے اور دوسری جذبے کی سچائی، اگر جذبے سچے نہ ہوں تو شعر میں لکنت پیدا ہو جاتی ہے جو شاعر اور قاری دونوں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔
وارداتِ قلب ہو یاقصۂ غمِ دنیا، افضل ؔ خان ہر دو کی مکمل ترسیل کرنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ اقبال احمد قمر نے صدارتی کلمات اد ا کرتے ہوئے کہا کہ آج کی تقریب ایک تعارفی تقریب ہے اِس کے بعد افضل خان کے شعری مجموعہ کلام کی رونمائی کا بھرپور اہتمام کیا جائے گا۔ اِس موقع پر افضل خان نے اظہار تشکر کرتے ہوئے تمام شعرا ء اور خصوصا سید ابرار حسین ، اقبال احمد قمر، خواجہ احسان قادر، ساجد فاروق ،مسعود جمال ، غزالہ کامرانی اور ایوب صابر کا شکریہ ادا کیا ۔ اس موقع پر انہوں نے بحرین ، جبیل ،الاحسا ، دمام اور الخبر سے تشریف لائے ہوئے شعرا کا خصوصی ذکر کیا۔
اب محفلِ مشاعرہ کا آغاز ہوا ۔ شعرا نے اپنے منتخب کلام سے حاضرین محفل کے دل جیت لیے۔ ہر شعر داد کی صورت میں اپنا حق وصول کر رہا تھا۔ ہر شعر انہاک سے سنا جا رہا تھا اور دل کھول کر داد دی جا رہی تھی۔ شعری فضا نے مسحور کُن ماحول قائم کر دیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے شاعری کا کوئی مقابلہ ہے جس میں ہر کوئی اپنا بہترین کلام پیش کر رہا تھا۔ ایک ایسی یاد گار شعری نشست تھی جس کو مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ لئیق اکبر سحاب، دائو د اسلوبی، سلیم حسرت، اقبال اسلم ، غزالہ کامرانی، وقار صدیقی، ایوب صابر، تنویر احمد تنویر، سعید اشعر، ریاض شاہد، اقبال طارق، افضل خان اور اقبال احمد قمر نے اپنا کلام پیش کیا۔ ڈاکٹر اکرام چودھری، ڈاکٹر سعید چودھری،ڈاکٹر آصف معین، مظفر احمد، ساجد فاروق، جارج خان، مصطفی علی شاہ، سید منصور شاہ، معراج الدین صدیقی نے شرکت کرکے محفل کو رونق افروز کیا۔ شیر علی خان، افتخار احمد اور ملکانہ نے مہمانوں کی خاطر داری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ رات کے تیسرے پہر یہ یادگار محفل اختتام پذیر ہوئی۔ قارئین کے ذوق کی تسکین کے لیے شعرا کے کلام سے نمونے کے طور پر اشعار پیش ہیں۔
٭٭لئیق اکبر سحاب:
نہ میٹھے بنو اتنے کوئی نگل لے
نہ کڑوے بنو کوئی چل دے اُگل کر
بدلتے رہے خود کو ہم جس کی خاطر
وہ ملتا ہے ہم سے نگاہیں بدل کر
٭٭دائود اسلوبی:
زمینِ شعر کو لہجہ نیا دیا ہم نے
ترے خیال کا چہرہ بنا دیا ہم نے
ہر ایک لفظ کرے گا دھماکے ذہنوں میں
زمیںِ شعر میں ایٹم اُگا دیا ہم نے
٭٭اقبال اسلم :
افق پر طلوعِ سحر دیکھتے ہیں
بس اک خواب ہے رات بھر دیکھتے ہیں
ہماری نظر آخر ی دائو پر ہے
ابھی زیر ہیں پر زبر دیکھتے ہیں
٭٭سلیم حسرت:
چھوڑتی کیوں نہیں مجھ کو اکیلا تُو کبھی
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے
بس تری دیوار کے نیچے پڑے رہتے ہیں ہم
عشق نے ہم کو بنایا ہے بھکاری ہائے ہائے
٭٭وقار صدیقی:
کیوں وہ پہلی سی عنایت کی نظر اب نہ رہی
کیا ہو ا سلسلہ ء لطف و کرم ٹوٹ گیا
خون کے چھینٹے ہیں دامن پہ پریشاں کیوں ہو
ماس مچھلی تو نہیں ہے کہ دھرم ٹوٹ گیا
٭٭غزالہ کامرانی:
دعویٰ نہ کر غموں کی تپش جھیل جائے گا
خود کو ذرا سنبھال بڑی تیز دھوپ ہے
سائے میں آ کے بیٹھ جھلس جائے گا یہ رنگ
اے یارِ خوش جمال بڑی تیز دھوپ ہے
٭٭محمد ایوب صابر:
وہ پردیسی خیالوں میں بسا رکھتے ہیں گھر اپنا
وطن سے دور رہ کے بھی ٹھکانہ یاد رکھتے ہیں
میں اپنے گائوں کو دن رات ایسے یاد کرتا ہوں
کہ جیسے لوگ گُم گشتہ خزانہ یاد رکھتے ہیں
٭٭تنویر احمد تنویر:
ہے جسم و جاں کا سنگم ضد
کہ جوں پورب کی پچھم ضد
عطا سب زخم اُس کے ہیں
مری تب سے ہے مرہم ضد
٭٭ریاض شاہد:
وہ جن کے چہرے بہاروں کے ترجماں ٹھہرے
ملے ہیں پیڑ یہ اُن کو لگے لگائے ہوئے
کہ تیرگی کو بھی شرمندہ کر دیا اُس نے
وہ ایک شخص ہے تنہا دیا جلائے ہوئے
٭٭اقبال طارق:
خیالِ یار مرا اوڑھنا بچھونا ہے
سو مجھ پہ حرف بڑے معتبر اترتے ہیں
چراغِ شوق میں جلتی ہیں عمر کی نیندیں
تو چند خواب کہیں لوح پر اترتے ہیں
٭٭سعید اشعر:
بیدا ر سا اندھیرا جو راتوں کے گرد ہے
اِ س کا ہی عکس میری اِن آنکھوں کے گرد ہے
لہجہ بدل بدل کے کہانی بیان کی
لیکن حجاب میرے ارادوں کے گرد ہے
٭٭افضل خان:
اک نگر اور بھی ہے اُس کے نگر سے آگے
اک سفر اور ہے اِس ایک سفر سے آگے
روشنی کی جو تمنّا ہے اندھیروں سے نہ ڈر
اک سحر اور ہے اِس ایک سحر سے آگے
٭٭اقبال احمد قمر
محبت تھی کبھی لیکن مری جاں
بس اک رشتہ نبھایا جا رہا ہے
اگر کچھ پاسِ عزت ہی نہیں تو
بچا لو جو بچایا جا رہا ہے