افغانستان میں مامور امریکی فوج کے اعلیٰ ترین افسر جنرل جان نکلسن کا منگل کے روز ایک پریس کانفرنس میں دیا گیا بیان پڑھ کر مجھے سب سے پہلے وہ سفید ریش افغان اور موٹی توند والا امریکی یاد آئے جنہیں میں نے ابوظبی ائیرپورٹ کے ٹرانزٹ لاؤنج میں دیکھا تھا ،پھر میرے ذہن میں وسطی افریقی جمہوریہ کا خود ساختہ بادشاہ جین بیڈل بوکاسا آیا اور آخر میں جمہوریہ کانگو کا 3دہائیوں تک بلاشرکت غیرے اقتدار میں رہنے والا آمر موبوٹو سیسے سیکو مجھے یاد آیا۔ پہلے جنرل نکلسن کا بیان۔ اس نے منگل کے روز صحافیوں کے ایک اجتماع میں کہا کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی دی گئی تنبیہ کے باوجود پاکستان اپنے شمالی علاقوں سے دہشتگردوں کے ٹھکانے ختم نہیں کر رہا او ریوں امریکی کوششوں کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی، تو سب سے پہلے مجھے ابوظبی ائیرپورٹ کا ٹرانزٹ لاؤنج یاد آیا۔ میں لندن جارہا تھا۔ پرواز براستہ ابوظبی تھی۔ ٹرانزٹ لاؤنج میں کاؤنٹر پر چائے کی پیالی کیلئے بیٹھ گیا۔ دائیں ہاتھ ایک بڑی گول مٹول توند والا لحیم شحیم امریکی بیٹھا کافی سے دل بہلا رہا تھا۔ اتنے میں ایک سفید ریش شلوار قمیض میں ملبوس شخص ہاتھ میں ایک پلیٹ سنبھالے کاؤنٹر پر آن کھڑا ہوا۔ پلیٹ میں ایک بھنا مرغ پڑا تھا۔ اس نے کاؤنٹر کی دوسری طرف کھڑے فلپینی سے سوال کیا کہ آیا بھنا مرغ حلال تھا یا نہیں۔ اسے بتایا گیا کہ وہاں حلال گوشت ہی استعمال ہوتا ہے۔ بوڑھے کی آنکھوں میں شک کی لہر دیکھ کر میں نے اسے سمجھایا کہ سب خلیجی ریاستوں میں حلال ہی درآمد ہوتا تھا۔ تب میں نے دیکھا کہ اسکے بائیں ہاتھ کی انگلیاں غائب تھیں۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ افغانی تھا اور جہاد کے دوران اپنی انگلیوں سے محروم ہوا تھا۔ پلیٹ ہتھیلیوں پر سنبھالے وہ کاؤنٹر سے ہٹ گیا۔ امریکی سے گفتگو کا جلد ہی آغاز ہو گیا۔ وہ کسی آئل کمپنی میں ملازم تھا۔ قابل رشک مراعات ملتی تھیں۔ 3ہفتے کام ، 3ہفتے رخصت، ہوائی جہاز کا ٹکٹ ، مشاہرہ میں نے نہ پوچھا ۔ تب وہ اچانک بولا "میرا خیال ہے کہ خلیجی ریاستوں کو امریکہ سے تعلقات بہتر کرنے کیلئے مزید امریکیوں کو یہاں روزگار کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔ امریکی فوجی جو افغانستان ، ویت نام اور بغداد کی جنگوں میں معذور ہو چکے ہیں ہماری اقتصاد پر بوجھ ہیں۔ خلیجی ریاستیں اگر انہیں یہاں روزگار کے مواقع فراہم کریں تو یہ اقدام دوطرفہ تعلقات کو بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ "
مجھ سے نہ رہا گیا۔ اس سفید ریش افغان کی طرف اشارہ کر کے میںنے امریکی کو مخاطب کیا"تم شاید اس تلخ حقیقت سے لاعلم ہو کہ افغان جنگ کے علاوہ اب اس خطے میں ایک دہشتگردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہو چکا ہے جس میں تقریباً ایک لاکھ 10ہزار افغان مارے جا چکے ہیں۔ 11ستمبر 2001ء کے بعد سے جب سے تم لوگوں نے اس خطے میں اپنی جنگ کا آغاز کیا ہے صرف افغانستان میں ساڑھے 3لاکھ مرد ، عورتیں اور بچے معذور ہو چکے ہیں اور وہ بوڑھا افغان جو اپنے انگشت بریدہ ہاتھ پر مرغ سنبھالے پیٹ کی آگ بجھا رہا ہے کبھی تمہارا ہی اتحادی تھا۔ اس کی طرح کے لاکھوں ہوں گے جو اپنے اندھے مستقبل کیلئے ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ان بے نواؤں کو آباد کرنے کا سوچا جائے؟ ان ریاستوں میں متاثرہ افغانیوں اور پاکستانیوں کو ملازمتیں فراہم کی جائیں"۔ موٹے امریکی کا منہ کھلا اور اس میں سے برگر کے ٹکڑے اس کی پھولی توند پر آگرے۔
جان نکلسن کا بیان سن کر مجھے جمہوریہ وسطی افریقہ کا آمر جین بیڈل بوکاسا بھی یاد آیا۔ فوج میں کرنل تھا۔ یکم جنوری 1966ء کو ایک فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار میں آیا۔ فرانس اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کی آشیرباد حاصل تھی۔ پہلے 11برس اپنے آپ کو صدر کہلواتا رہا اور آخری 4برس شہنشاہ بنا رہا۔ انتہائی ظالم شخص تھا۔ اسکے حکم پر پہلی 2مرتبہ جرم کے ارتکاب پر چور کا ایک، ایک کان کاٹ دیا جاتا۔ تیسری دفعہ چوری کرنے پر ہاتھ ۔ اس کی اہلیہ کے پاس مدارس کے بچوں کو یونیفارم فروخت کرنے کا ٹھیکہ تھا۔ ہر طالبعلم کیلئے لازمی تھا کہ وہی وردی خریدے۔ ایک سو بچوں نے انکار کر دیا ۔ بوکاسا نے انہیں گرفتار کرایا او رجیل خانے میں ڈلوا کر اپنی موجودگی میں محافظوں سے قتل کرادیا۔ رسم تاجپوشی پرنادار قوم کے 2کروڑ ڈالر صرف کرائے جبکہ صرف تاج کے ہیرے جواہرات اضافی 50لاکھ ڈالر کے تھے۔ 14برس اقتدار میں رہا۔ فرانس اور امریکہ بڑی باقاعدگی سے حمایت کرتے رہے۔
افریقی تاریخ کے بدترین آمروں میں سے ایک، وائٹ ہاؤس کی افریقہ کیلئے آزادی اور جمہوریت کی ایک مثال! پھر امریکی جنرل جان نکلسن کا بیان پڑھ کر مجھے جمہوریہ کانگو کے آمر موبوٹو سیسے سیکو کا ذہن میں آیا۔ 1960ء میں کانگو نے بلجیم سے آزادی حاصل کی۔ وطن کو آزادی دلانیوالے رہنما پیٹرس لو ممبانے اعلان کیا کہ اسکے ملک کی ساری معدنی دولت جسے بلجیم صدیوں سے لوٹتا رہا تھا، اب سیاہ فام مقامی آبادی کی تھی۔ اس نے حکم دیا کہ بلجیم کے فوجی کانگو سے نکل جائیں۔ مسئلہ گمبھیر ہوا تو امریکہ بہادر آن کودا۔ فوجی کرنل موبوٹو سیسے سیکو کے ہاتھوں نوجوان حریت پسند رہنما لوممبا کو گرفتار کرایا پھر رات کی تاریکی میں کہیں جنگل میں ہی قتل کرادیا۔ معدنی دولت کا مالک بلجیم ہی رہا اور کانگو کے ہیرے یاقوت اور زمرد اینٹورپ کے جوہریوں کے ہاتھوں سے گزر کر نیویارک ، لندن کی درخشندگی بڑھاتے رہے۔ برطانوی اور امریکی چھتر چھایا میں موبوٹو 32برس کانگو پر حکمران رہا اور بدلے میں اپنے وطن کی معدنی دولت مغرب کی گود میں ڈالتا رہا۔
تو منگل کے روز جب جنرل نکلسن کا بیان میں نے پڑھا تو چند افسردہ حقائق بھی میرے ذہن میں آئے۔ دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان اب تک 120ارب ڈالر ، 35ہزار شہری اور 4ہزار فوجی جوان اور افسران گنوا چکا ہے۔ بدلے میں امریکہ سے سپورٹ فنڈ میں صرف 14ارب ڈالرملے ہیں اور یہ بیان؟
"لو وہ بھی کہہ رہے ہیں یہ بے ننگ و نام ہے"
اس پریس کانفرنس میں ایک سوال ضرور پوچھا جانا چاہئے تھا او روہ تھا کہ امریکہ افغانستان میں اب کیوں بیٹھا ہے؟ افریقہ میں آمروں کی فصل اگانے کے بعد اب ایشیا میں کیسی بساط بچھا رہا ہے؟