Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیرون مملکت سعودی اپوزیشن ..... مخمصے سے دوچار

سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار الجزیرہ کے کالم کا ترجمان پیش کیا جارہا ہے
بیرون مملکت سعودی اپوزیشن
محمد آل الشیخ۔ الجزیرہ
میرا خیال ہے کہ بیرون مملکت نام نہاد سعودی اپوزیشن ان دنوں جس سیاسی مخمصے سے دوچار ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ شاہ سلمان اور ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مالی اور دینی بدعنوانی اور بدعنوانوں کے خلاف فیصلہ کن مہم شروع کرکے انہیں بے دست و پا کردیا۔ اب ان کے پاس بین الاقوامی محفلوں میں سعودی حکومت کے خلاف چوں چر ا کرنے کیلئے کوئی مسئلہ نہیں رہ گیا۔ انسداد بدعنوانی مہم نے ہر طبقے کے سعودی شہریوں کو اپنی قیادت سے انتہائی قریب کردیا۔ ماضی قریب میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔انسداد بدعنوانی مہم نے نام نہاد سعودی اپوزیشن کے قدموں تلے سے بساط کھینچ لی۔ اس مہم نے یہ راز بھی طشت از بام کردیا کہ سعودی اپوزیشن مملکت کے دشمنوں کی وظیفہ خوار تھی۔ یہ اُن طاقتوں کیلئے کام کررہی تھی جو دن رات سعودی عرب کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بنتی رہتی ہیں ۔ سرفہرست قطر اور ایران ہیں۔مجھے ذرہ برابر شک نہیں کہ نام نہاد اپوزیشن کے رہنما دل کی گہرائی سے چاہ رہے ہونگے کہ کاش قطر کے قائدین انسداد بدعنوانی کے علمبردار عرب ممالک کے مطالبات کے آگے سرتسلیم خم کردیں۔سعودی اپوزیشن کو دل ہی دل میں یقین ہوگا کہ سب سے پہلے انکی مالی اعانت قطری حکام ہی بند کرینگے ۔ ایسا ہوگا تو وہ پوری دنیا سے کٹ کر رہ جائیںگے۔ 
سعودی حکومت کے مخالفین میں سرفہرست اسلامائزیشن کی تحریک سے وابستہ عناصر ہیں۔ اندرون مملکت اس تحریک
کے قائدین کی عوامی مقبولیت غیر معمولی حد تک کم ہوچکی ہے۔ سعودی شہری بجا طور پر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ ممالک جہاں نام نہاد ”عرب بہار“آئی تھی وہ تباہی و بربادی کی علامت بن چکے ہیں۔ وہاں پیش آنے والے حالات سن کر بچے ، بوڑھے ہونے لگے ہیں۔ یہی سب کچھ دیکھ کر اسلام کو سیاسی رنگ دینے اور اسلامائزیشن کا چکر چلانے والوں کی مقبولیت گرتی چلی جارہی ہے۔ اسی دوران سعودی حکومت پر یہ راز منکشف ہوا اور اس نے راز کو طشت از بام کردیا کہ اسلام کو سیاسی رنگ دینے اور اسلامائزیشن کا نعرہ لگانے والے غیر ملکیوں کی بلی کے پنجے کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔ یہ لوگ چند سکوں کے عوض اپنے وطن کو فروخت کرچکے ہیں۔ یہ دونوں نکتے سعودی رائے عامہ کے سامنے بہت اچھی طرح واضح ہوچکے ہیں۔ اب مقامی شہری اس قسم کے عناصر سے اپنا رشتہ منقطع کرنے لگے ہیں۔
سوشل میڈیا کے دیدہ ور یہ بات اچھی طرح سے نوٹ کررہے ہیں کہ اسلام کو سیاسی رنگ دینے اور اسلامائزیشن سے منسوب عناصر کی تحریریں انٹر نیٹ سے گم ہونے لگی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے مضامین کی تعداد اور حجم دن بہ دن کم سے کمتر ہوتا چلا جارہا ہے۔ 
سعودی قیادت بھی اس قسم کے عناصر سے نمٹنے کے سلسلے میں نہ صرف یہ کہ چوکس ہوچکی ہے بلکہ فیصلہ کن موقف اپنانے کی بابت پرعزم نظر آرہی ہے۔ سعودی قیادت ریاستی وقار کو زک پہنچانے یا اسے سودے بازی کا موضوع بنانے کی اجازت دینے پر کسی طو ر آمادہ نہیں ۔ اس تبدیلی نے سعودی ریاست کو طاقت ، ہیبت اور عزم کے حوالے سے گزشتہ صدی کے چھٹے عشرے کے وسط اور پورے ساتویں عشرے کے ماحول میں پہنچا دیا ۔سعودی ریاست کی پوزیشن نا پسندیدہ بیداری سے ماقبل کے عہد جیسی ہوگئی ہے۔ سعودی حکومت کے مخالفین یہ تبدیلی دیکھ کر اچنبھے میں پڑ گئے ہےں۔ جو کچھ ہوا اچانک ہوا ۔اس صورتحال نے انہیں حواس باختہ کردیا ہے۔ بیرون مملکت مقیم سعد الفقیہ یا محمدالمسعری ہوں یا اندرون ملک ان کے دیگر ہم خیال ہوں ، وہ آزاد ہوں یا زیر حراست ہوں۔ سب کے سب مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ یہ لوگ اپنے طور پر احتساب اور سیاسی زبان میں ریاست کےخلاف اشتعال انگیزی اور اسکے وقار کو مجروح کرنے کی مہم چلائے ہوئے تھے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ان میں سے کاایک شخص وقتاً فوقتاً اپنی کارکردگی کی قیمت وصول کرنے کیلئے دوحہ آتا جاتا تھا۔ وہ احتساب کے نام پر اپنے پیروکاروں کو ایوان شاہی کے سامنے مظاہرے پر اکساتا رہتا تھا۔ اب جبکہ سعودی عرب نے قطر کو اس کا حقیقی چہرہ دکھا دیا ہے، اس عالم میں استحصال پسند اسلامائزیشن کے علمبردار خوف کھانے لگے ہیں۔ اب یہ لوگ ریاست کےخلاف زبان کھولتے وقت ڈرنے لگے ہیں۔لوگوں کو مشتعل کرنا تو دور پرے کی بات ہے ،انہیں یقین ہوگیاکہ رواداری اور نرم روی کا دور لد چکا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے بقول سعودی عرب انتہا پسندی سے آزاد اعتدال پسند اسلام کی آغوش میں واپس آچکا ہے۔ اپنے عزم و ارادے سے دنیا بھر کو حیرت زدہ کردینے والے نوجوان قائد نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ایسا مردِ ریاست ہے جو کہتا ہے وہی کرتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
مزید پڑھیں:۔ روشن چراغ نہ بجھا ہے اور نہ کبھی بجھے گا

شیئر: