”معذور کے لئے تو ہے تعزیر یہ دنیا“
امجد صدیقی نے معذور ہو جانے کے باوجود کامیابی کے جھندے گاڑے
تسنیم امجد۔ریاض
3دسمبر کو” اسپیشل پرسنز“ یعنی ”خصوصی افراد“ یعنی ”معذورہستیوں“ کا عالمی دن منایا جاتاہے ، چونکہ اقوام متحدہ نے اسے عالمی دن قرار دیا ہے چنانچہ یہ دنیا بھر میں منایاجاتا ہے، اس روز مختلف اداروں اور تنظیموں کے زیر اہتمام مذاکرے، مباحثے، تقریبات اور سیمینار وغیرہ منعقد کئے جاتے ہیں اوراسپیشل پرسنز کے بہتر مستقبل کے لئے اسپیشل اقدامات کرنے کا لائحہ عمل مرتب کیاجاتا ہے پھر سارا سال اس لائحہ عمل کو روبہ عمل لایاجاتا ہے۔ ہمارے ہاں معاملہ ذرا سا مختلف ہے کہ ہم بھی تقریبات و اجتماعات منعقد کر کے ان ”مجبوروں“ کے بہتر مستقبل کے لئے ہمدردانہ جذبات پیش کرتے ہیں، آنکھوں میں آنسو لاتے ہیں، آواز بھراتے ہیں، ہونٹ تھراتے ہیں، مخصوص افراد کے مسائل ابھارتے ہیں، صاحبانِ اختیار کو چیخ چیخ کر پکارتے ہیں، ماضی کی لاپروائیوںپر نادم ہونے کا اظہار کرتے ہیں، وہ اپنی انا کو مٹا کر مجبوروں کا خادم ہونے کا اقرار کرتے ہیں، پھر یوں ہوتا ہے کہ 4دسمبر کا سورج طلوع ہوتا ہے تو انہیں شبِ رفتہ کی جانے والی تقاریر میں احساسِ غلو ہوتا ہے۔ یہ احساس سال کے باقی ماندہ 364دن قول و عمل پر غالب رہتا ہے اور ہر اسپیشل پرسن مذاکروں اور مباحثوں میں کئے جانے والے وعدوں کی تکمیل کا طالب رہتا ہے۔
قلبی قلق اس امر پر ہے کہ ہمارے ہاں لوگ کسی بھی معذور کو بے چارہ نہیں بلکہ ناکارہ سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر کوئی کسی حادثے یا بیماری کا شکار ہو کر معذور ہوجائے تو معاشرے کے افراد یہ نہیں سوچتے کہ اس معذورکا دل ، اس کا ذہن سب پہلے کی طرح کام کر رہے ہوتے ہیں، اس کا کوئی ایک عضو معذور ہوتا ہے، اس کے جذبات و احساسات معذور نہیں ہوتے، اس کی سوچیں ناکارہ نہیں ہوتیں، اس کی خواہشات ، اس کی تمنائیں، اس کے ارمان مبتلائے عذر نہیں ہوتے۔ بدقسمتی سے ان مجبوروں کو احساس دلایاجاتا ہے کہ تم ہم جیسے ”خود کار، خود انحصار اور خودمختار“ قسم کے انسان نہیں بلکہ اس کرہ¿ ارض پر بوجھ ہو۔ اس احساس میں ڈوب کر یہ بے آسرا شخص یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ:
معذور کے لئے تو ہے تعزیر یہ دنیا
ہیں حرف سب انسان تو تحریریہ دنیا
ظالم کے لئے ہیں سبھی آزاد فضائیں
مظلوم کے پیروں کی ہے زنجیر یہ دنیا
٭٭٭
تعزیر ہے جہان یہ معذور کے لئے
اخلاق کی زبان ہے مغرور کے لئے
زنداں ہے اسکے واسطے جو دھر لیاگیا
پردیس کی زمین ہے مفرور کے لئے
اقوام متحدہ نے1992ءمیں ایک قرار داد کے ذریعے3دسمبر کو معذور افراد کا عالمی دن قرار دیاجس کا مقصد معذور افراد کے وقار ، حقوق اور ان کی ضروریات کو سمجھنا، انہیں معاشرے میں باعزت مقام دلانا، سیاسی ، سماجی اور اقتصادی زندگی کے ہر شعبے تک معذور افراد کی رسائی اور ا نضمام کو ممکن بنانا، معاشرے میں ان خصوصی افراد کے لئے بیداری پیدا کرنا اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔
پاکستان میں 15فیصد لوگ کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق3کروڑ افراد مختلف قسم کی معذوری میں مبتلا ہیںجن کا مستقبل تاریک اور کربناک ہے ۔
1980ءکی دہائی میں معذور افراد کو ”اسپیشل پرسنز“کا ٹائٹل دیا گیا۔ افسوس یہ ہے کہ تیسری دنیا کے اکثر معاشروں میں معذور افراد کو اسپیشل پرسن نہیں بلکہ تفنن طبع کا سامان سمجھا جاتا ہے ۔ انہیں مضحکہ خیز ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ اکثر ان کی جانب پتھر بھی پھینکے جاتے ہیں، آوازے کسے جاتے ہیں، انہیں تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے ، توہین و تضحیک کا عملی مظاہرہ کیاجاتا ہے ۔ ہمارے ہاں یہ اسپیشل افراد اپنے حقوق کے لئے احتجاج کریں، آواز اٹھائیں تو ان پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں۔ڈنڈوں سے پیٹا جاتا ہے ، انہیں دھکے دیئے جاتے ہیں، وھیل چیئر سے نیچے گرا دیاجاتا ہے۔ ان کے ساتھ نازیبا ا لفاظ اور غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے۔
”اسپیشل پرسنز “ میں شامل امجد صدیقی ایک منفرد پاکستا نی شخصیت ہیں، ان کی بہن ہونے کے ناتے امجد بھائی کی مشکلات سے بخوبی آگاہ ہوں۔ ان کا شمار سعودی عرب میں بسنے والے اصول پسند ،ایماندا ر اور کامیاب بزنس شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کی زندگی تجربات ،چیلنج، جدوجہد، محنت، مشقت اور ایڈونچر سے بھرپور ہے۔پاکستان میں شایدہی کوئی دوسری ایسی شخصیت ہوگی جس نے شدید معذوری کے باوجودزندگی کے ہر میدان میں دنیا بھر میںکامیابی کے جھندے گاڑے ہوں۔25 دسمبر1981 کو امجد صدیقی کی کار کو حادثہ پیش آیا جس سے ان کی ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ لگی اور جسم کا تین چوتھائی حصہ مکمل معذور ہوگیا پھر وھیل چیئر ان کا مستقل سہارا اور ان کی شخصیت کا استعارہ بن گئی۔ اس معذوری کے باوجود امجد صدیقی نے ہمت نہیں ہاری۔ زبردست محنت اورچیلنجوں کے ساتھ جوانمردی، ثابت قدمی، خودداری سے اس معذوری کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے کبھی معذوری کو مجبوری نہیں بنایا۔وہ 18ماہ تک مختلف اسپتالوںمیں زیر علاج رہے، ان کے درجنوں آ پریشن ہوئے ۔ دن رات سخت امتحانات سے گزرے۔ بار ہازندگی اور موت سے آمنا سامنا ہوا مگر ﷲ تعالیٰ نے انہیں زندہ رکھا اوروہ دوسروں کے لئے مشعل راہ بن گئے۔
امجد صدیقی نے کہا کہ علاج کے دوران ایک ڈاکٹر نے ان سے یہاں تک کہہ دیا کہ ”اﷲ کرے! آپ کو موت آجائے کیونکہ آپ جیسے مریض کی زندگی موت سے بد تر ہوتی ہے۔ایسا شخص اہل خانہ ،دوستوں اور معاشرے پر بوجھ ہوتا ہے چنانچہ ایسے شخص کا زندگی سے آزاد ہوجانا اعزہ و احباب اورمعاشرے کے لئے بہتر ہوتا ہے۔ موت پر دکھ ضرور ہوتا ہے مگر کچھ عرصے کے بعد صبر آجاتا ہے اور زندگی نارمل ہوجاتی ہے مگر پیرا پلیجک یا کوارٹرپلےجک مریض بری طرح مرتا اور جیتا ہے۔ اس کا جسم بے حس اور بے جان ہوتا ہے۔ وہ بالکل حرکت نہیں کرسکتا۔ حوائج ضروری پر اس کا کنٹرول نہیں ہوتا وہ مرضی کے مطابق کھاپی نہیں سکتا اور کوارٹرپلیجک کی حالت تو ےہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بازو، اپنے ہاتھ کو بھی حرکت نہیں دے سکتا نہ ہی خود کھاپی سکتا ہے۔ جسم متحرک نہ ہونے سے جگہ جگہ بیڈ سور ہوجاتے ہیںجو ایک نا سورہوتے ہیں۔ایسا شخص زندہ لاش کی مانند ہوتا ہے،نہ جیتا ہے، نہ مرتا ہے۔“
مجھے اس ڈاکٹر پر غصہ آیا کہ اس نے ایسا کےوں کہا ۔دل چا ہاکہ اس سے جھگڑوں،اس کا منہ نوچ لوں مگر سچ تو ےہ ہے کہ 36سال کے دوران اکثر اس کی بات سچی لگتی تھی۔ پھر بھی میں نے ہمت نہیں ہاری۔ میرا مقصد اس ڈاکٹر کی سوچ کی نفی کرناتھا۔ ےہ حقیقت ہے کہ میں نے انتہائی تکلیف دہ آگ میں زندہ جل جل کر وقت گزارا مگرایک چٹان کی مانند اپنے مشن پر ڈٹارہا ۔ جب میرے اپنوں کو ےقےن ہوگیا کہ میں ہمےشہ کےلئے معذور ہوگےا ہوں تو سب دوست ، رشتہ دار، انتہائی قریبی خون کے رشتے دور ہوتے چلے گئے۔ ےہ تلخ حقےقت ہے آج کا انسان چڑ ھتے سورج کو سلام کرتا ہے ۔ انسان میں اگر ہمت ہو، خلوص ہو، ثابت قدمی اور خودداری ہوتو ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ میں نے ”جہاں چاہ،وہاں راہ“ کے اصول پر عمل کرتے ہو ئے اسکرےش سے دوبارہ زندگی کا آغاز کیا اور ثابت کیا کہ زندگی میں ناممکن کچھ نہیں۔
شدےد معذوری میں مبتلا ہونے کے باوجود امجد صدیقی مشرق وسطیٰ اور ایشیامیں پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے 1986-1987 میں تن تنہاوےل چیئر پر52 ممالک کادورہ کیا جس کا مقصد معذور افراد کی زندگی اوردنیا بھر میں اس بےماری پر ہونے والی تحقیق کے بارے میں معلومات حا صل کرنا تھا۔ انہوں نے اپنے دورے کے دوران دنیا بھر کے مختلف ریسرچ سنٹروںاور بحالی مراکزکا دورہ کےا اور معلومات جمع کیں۔ ان کے اس دورے کو عالمی سطح پر بہت پذیرائی ملی، انہیں ” ہیروآف دی ایئر“ کے اعزازات سے نوازا گیا۔ دنیا بھر کے میڈیا نے ان کی زندگی، شخصیت اور مشن کو ہر طرح سے اجاگرکےا اور ”اے مین ان ہز مشن “ کا نام دےا۔اپنے عالمی دورے کے موقع پر 1986 میں انہوں نے نیو ےارک میں پاکستان ڈے پر عظےم الشان ریلی کی قیادت کی۔ امجد صدیقی نے دنیا کے ان رےسرچ سنٹروں کا دورہ کےا جو پیرا پلیجک کی زندگی پرتحقیق کررہے تھے۔ امجد صدیقی نے تحقیق کے لئے دنیا بھر کے ریسرچ سنٹروں کوپیشکش کی کہ وہ جب چاہیں ان کے وجود کواپنے تجربات کےلئے استعمال کرسکتے ہیں۔ دنیا بھر کے مےڈیا نے ان سے اقدام کو سراہا اور زبردست تشہیر کی۔ ان کے سیکڑوں انٹرویو زنشر کے گئے۔ انہیں” ون ان ون ملین“ کا اعزازبھی دیا گیا ۔
مڈل ایسٹ اور ایشیا میں امجد صدیقی پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے1987 میں الیکٹرےکل فنکشنل سمیولیٹر کیلئے اپنے قدموں پر کھڑے ہوکر 91میٹر تک کا فاصلہ طے کیا۔ ےہ پہلا کامیاب تجربہ تھا جو ےوگو سلاویہ میں کیا گیاتھا۔1989ءمیں تجرباتی طور پر ایک نئی ایجاد کے ذریعے امجد صدیقی کو پےراواکرکے ذریعے چلانے کا کامیا ب تجربہ کیا گیا۔ اس میں خاطر خواہ کا میا بی ہوئی ۔ پیراوا کرکی مدد سے چلنے کے باعث ان کی عملی زندگی انتہائی سست روی کا شکار ہو گئی تھی مگر انہیں سخت کام کرنے کی عادت تھی اس لئے انہوں نے دوبارہ وھےل چےئر کو اہمےت دی۔
4اپرےل 1986 امجد کی زندگی کا ےادگار دن تھا جب انہوں نے 22ہزار نارمل لوگوں کے ساتھ12 کلو میٹرکی مراتھن جیت کر پہلے پاکستانی وھیل چیئر ونرہونے کا اعزاز حاصل کیا جس پر ایک بار پھر عالمی سطح پر انہیں خراج تحسین پیش کیاگیا۔ امجد صدیقی پہلے پیراپلےجک ہیں جن کی 1987 میں انتہائی پیچیدہ سرجری کی گئی ۔ یہ اپنی نوعیت کی دنیا بھر میں پہلی سرجری تھی جس سے امجد صدیقی کی معذوری دور کردی گئی۔ اس سرجری کے دوران جسم میں ہائیڈروفلیکس اور اسفنگر لگائے گئے۔ اس سرجری میں جرمن ، امریکن اور کےنےڈےن ڈاکٹروں کی ٹیم نے حصہ لےا اور اسے براہ راست کئی اسپتالوں، رےسرچ سنٹروں اور ےونیورسٹےوں میں بطور لےکچردکھاےا گیا بعد ازاں وہ دو بچوں کے باپ بھی بنے۔ حادثے سے پہلے امجد صدیقی ایک بینک میں ملازم تھے مگرحادثے کے بعد انہیں میڈیکل بنےادبناکر نکال دےا گیا۔ 1984میں دن رات کی سخت جدوجہد کے بعد امجد صدیقی نے دوبارہ اسی بینک میں سروس جوائن کی اور18،18گھنٹے کام کرکے ثابت کردےا کہ معذوری ، مجبوری نہیں بلکہ ایک معذور آدمی، عام آدمی سے زےادہ کام کرسکتا ہے ۔ وہ گاڑی بھی خود چلاتے ہیں۔
1992ءمیں امجد صدیقی نے بینک سروس کو خیرباد کہہ کراپنا کاروبار شروع کیا،رات دن محنت کی اور ایسے نا ممکن کام کردکھائے جو شاید صحتمند بھی نہیں کرسکتے۔ انہوں نے امپورٹ ایکسپورٹ ٹرےڈنگ اور رےسٹورنٹ انڈسٹری ، مارکٹنگ جےسے بزنس کئے۔ پاکستان، کورےا، کینیڈا، چائنا، سعودی عرب اور ہانگ کانگ مےں اپنے آفس بنائے ۔ دنےا بھر میں دستیاب ہرطرح کے ذرائع آمدورفت استعمال کئے اور جتنا سفر انہوں نے کیا اور کررہے ہیں ، شاید ہی دنیا بھر سے کسی معذور نے کےا ہو۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی قومی ایئر لائن استعمال کرےں۔ انہےں اپنے وطن پاکستان سے بہت محبت ہے۔ گزشتہ 9سال سے وہ پاکستان انویسٹرز فورم کی ایگزیکٹیوکمےٹی کے سینیئر رکن ہیں۔ پاکستان انویسٹر زفورم کے بزنس ایڈمنسٹریٹر بھی ہیں ۔
امجد صدیقی نے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی تاجروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے راغب کیا جس سے کئی صنعتیں لگیں اور اب بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے بھر پور کوششیں کر رہے ہیں۔ امجد صدیقی پاکستان سعودی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر بھی ہیں۔ وہ پاکستان کی خدمت اور پاکستان کے وقارکو بلند کرنے کے لئے ہر دم کوشش کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ میرا دل، میری جان پاکستان ہے ۔وہ ایک کامیاب بزنس مین کی حیثیت سے سعودی عرب اور پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ معذوری کی زندگی انتہائی سخت ہوتی ہے۔ جگہ جگہ تکلیفوں ، مصیبتوں ، تعصب سے بھر پور تضحیک آمیزسلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر قوت ارادی، حوصلہ مندی ،ہمت صبر سے اس کا مقابلہ کر کے ہم معذوری کو شکست دے سکتے ہیں ۔اس کی زندہ مثال میںخودہوں۔
امجد صدیقی نے کئی ویلفیئر پراجیکٹس شروع کررکھے ہیں جہاں غرےبوں اورضرورت مندوں کی مدد کی جاتی ہے۔ اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ وہ فرصت کے اوقات میں مختلف اسپتالوں،بحالی مراکز میں جا کر معذور افراد کی فلاح و بہود،ان کی زندگی کوآسان بنانے کے لئے کام کرتے ہیں اور ان کے ساتھ کچھ وقت گزارتے ہیں۔جب کبھی ملکی یاعالمی سطح پر کوئی بھی وےلفےئر پراجیکٹ سامنے آےاےا پاکستانی سفارتخانے نے پاکستان میں قدرتی آفات سے ہونے والی تباہ کارےوں ےا ضرورت مند پاکستانی بھائیوں کی فلاح وبہبود کیلئے آواز دی تو انہوں نے ہمےشہ لبےک کہا ۔ امجد صدیقی کا حلقہ احباب بہت وسع ہے ۔ان سے جو بھی ایک بار ملتا ہے، وہ ان کی ہمت ،حوصلے، خودداری ، ثابت قدمی، سخت محنت اور ایمانداری کی دادد ےئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ سعودی عرب میںپاکستان کی پہچان ہیں۔
امجد صدیقی دنےا بھر کی متعددمعروف شخصیات سے مل چکے ہیں ۔ حال ہی میں انکی ملاقات صدر پاکستان ممنون حسےن سے ہوئی ۔ ان کے مطابق ممنون حسین سے پہلے اتنی عظیم شخصیت انہوں نے ایوان صدر میں نہیں دیکھی۔میں نے ان مےںشفقت، انسانےت اور اپنائےت کی انتہاءدےکھی۔ میں نے دونمازیں ان کے ساتھ اداکےں۔ تقریباً2 گھنٹے ان کے ساتھ گزارے۔ محسوس کیا کہ پاکستان کی محبت، قوم کی فکر اور عوام کودرپےش مشکلات کا انہےں بہت احساس ہے۔ اﷲ کریم ان کی حفاظت فرمائے،آمین۔
امجد صدیقی نے کہا کہ ایمانداری اور محنت کامےابی کی ضمانت ہے۔ ہر قدم پر زندگی میں کئی بار میںنے موت کو دیکھا۔ اکثر اوقات میری جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ظالم سماج نے بار ہامےری زندگی کی ٹرےن کو پٹری سے اتارنے کی کوشش کی مگر اﷲتعالیٰ کے فضل وکرم سے میں نے ہر مشکل کا بہادری سے مقابلہ کیا اور اسے شکست دی۔ الحمدﷲ! میںمعاشرے میں با عزت زندگی گزاررہا ہوں، درجنوں انعامات ، انعامی شےلڈز، منفرد اعزازات سے نواز اجاچکا ہوں۔اﷲتعالیٰ کے فضل سے دوبےٹوں کا باپ ہوں۔ اب بھی گاڑی خود چلاتا ہوں،اپنے کام خود کرتا ہوں اگر چہ میں شادی شدہ ہوں مگر اپنا کام خود کرنے سے سکون اور خوشی ملتی ہے ۔امجد صدیقی ہر ماہ آدھا وقت پاکستان میں گزارتے ہےں۔ وہ پاکستان میں بسنے والے کروڑوں معذوروں کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔اکثر سے ان کا رابطہ ہے۔ اپنی حےثیت کے مطابق وہ بہت کچھ کرتے ہیںمگر پھر بھی کافی نہیںسمجھتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں ہر15واں شخص کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہے۔ اس تنا سب سے ایک کروڑ سے زےادہ معذور افراد کا مستقبل انتہائی کر بناک ہے۔وہ احساس محرومی، بے بسی، تنہائی ، تکلےف،معاشرے کی بے حسی کا شکار ہیں۔ ہمارے معا شرے میں جب کوئی کسی طرح کی معذوری کا شکار ہوجاتا ہے تو سب سے پہلے تو اس کے اہل خانہ بہن، بھائی، والدین ہی اسکی معذوری کو قبول نہیں کرتے۔ ان کے ساتھ غےر مساوی برتاﺅ کیاجاتا ہے۔ دوست، اعزہ اور معاشرہ ان کو قبول کرنے کے لئے تےار نہیںہوتا۔
ترقی یافتہ ممالک میں معذور افراد کو خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں معذور کے لئے بغےر کسٹم ڈےوٹی گاڑی درآمد کرنا جو ئے شیرلانے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف سرکاری ملازمین کی ملی بھگت سے ہر سال ہزاروں گاڑیاں اس سکیم کے تحت درآمد کی جاتی ہیں مگر ضرورت مند دفتروں کے چکر کا ٹ کاٹ کربے حال ہوکر خاموش ہوجاتا ہے۔
امجد صدیقی نے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ آخر کب تک پاکستان میں بسنے وا لے کروڑوںمعذور آنسوﺅں، نفرتوں سے بھری زندگی مےں سسک سسک کردم توڑتے رہےںگے۔ملک بھر کے کروڑوں عوام کے لئے آج تک کسی نے بھی اس سنگین مسئلے پر سوچنے اور اسے حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ ہر پاکستانی معذور افراد کی فلاح اور ان کی زندگی کو آ سان سے آسان تر بنا نے کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔سرکاری اور غےر سرکاری اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معذورافرادکو اپنے معاشرے کا حصہ سمجھ کر ان کے علاج اوربحالی کے لئے عملی اقدامات کریں تاکہ ان کی زندگی قدرے آسان ہوسکے۔والدین ،بہن بھائیوں اوردوستوں کا فرض ہے کہ وہ ان کو وہی پیار دیں جودوسرے نارمل لوگوں کو دےتے ہیں۔ ان افرادکی فلاح وبہبود کے لئے کوئی کسر اٹھانہ رکھیں۔ ا نہیں معاشرے میں باعزت مقام دےنے نارمل ، قابل احترام اور کار آمد شہری بنانے مےں اپنا بھرپور کردارادا کریں۔سرکاری ،غیر سرکاری محکموں میںافسروں کا رویہ بھی دوستانہ ہوناضروری ہے۔ہر شہری کا فرض ہے کہ معذور افراد کا احترام کرے اور عزت سے پےش آگئے۔ سب سے بڑھ کر ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری ہے کہ وہ معذورافراد کے متعلق معاشرے میں آگاہی پےدا کریں۔ صحافی عملی کردارادا کرکے معذورافراد کو حق دلاسکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں پر تشدد کارروائیوں، بم دھماکوں، دہشتگردی کے واقعات ، بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات اور قدرتی آفات نیز کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کے دوران معیاری حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بھی معذور افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ”پراُمید“ خواتین کو دی جانے و الی ناقص غذا،بے احتیاطی اور زچگی کے دوران اکثر غیر تربیت یافتہ عملے کی موجود گی کے باعث معذور بچے پیدا ہوتے ہیں ۔
اکثر والدین معذور بچے کی پیدائش کو اپنے لئے ایک مصیبت سمجھتے ہیں۔ اگر یہ معذور لڑکی ہو تو روز اول سے ہی اسے عذاب قرار دے دیاجاتا ہے اور اگر لڑکا ہو تو کچھ عرصے تک اس کا علاج کرانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر جب والدین کو یقین ہو جاتا ہے کہ اس کی معذوری دور ہونے کا ا مکان نہیں تووالدین اپنے لخت جگر کو اپنی زندگی کے لئے بوجھ تصور کرنے لگتے ہیں۔ بعض والدین کو تو ڈاکٹر سے یہ کہتے بھی سناجاتا ہے کہ یا تو اس کا علاج کر دیں اور اگر علاج ممکن نہیں تو اسے زہر کا انجکشن دے دیں۔اکثر والدین کا رویہ معذور بچوں سے انتہائی متعصبانہ ہوتا ہے۔ انہیں ویسی محبت و اہمیت نہیں دی جاتی جیسی محبت وہ اپنے صحتمند بچوں سے کرتے ہیں۔ والدین اپنے معذور بچوں سے جان چھڑانے کے لئے ا نہیں فلاحی اداروں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ بعض والدین ا نہیں ایسے لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں جو ان سے بھیک منگواتے ہیں۔
ہم سب نے ہی دیکھا ہو گا کہ اگر کوئی تندرست ، چلتا پھرتا انسان کسی حادثے کے باعث معذوری کا شکار ہو جائے تو نہ صرف احباب و اعزہ بلکہ اس کے بہن بھائیوں اور والدین کا رویہ بھی اس کے ساتھ بالکل بدل جاتا ہے ۔ وہ اس سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے ملنے جلنے سے کترانے لگتے ہیں۔ وہ ساتھ رہتا ہو تو اسے اپنے لئے بوجھ تصور کرنے لگتے ہیں، اسے عام انسان نہیں سمجھتے اور اس کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اگر کوئی صحتمند انسان کسی بیماری یا حادثے کے باعث چلنے پھرنے سے قاصر ہو گیا ہے یا اس کے جسم کا کوئی حصہ ناکارہ ہو گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ آدمی بے کار ہو گیا ہے ۔اس کا دل و دماغ اپنی جگہ کام کررہے ہوتے ہیں۔ عام انسان کی طرح اس کو بھی جینے کا حق ہوتا ہے۔ اسے بھی محبت ، خلوص اور اپنوں کی ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے مگر افسوس کہ ہمارے ہاں اس کے برعکس سرکاری اور سماجی سطح پر معذور کا حق ہضم کیا جاتا ہے ۔ ہر سال ہزاروں معذور علاج معالجے کی سہولت نہ ملنے کے باعث گھٹ گھٹ کر مر جاتے ہیں۔ سرکاری سطح پر انہیںوھیل چیئر اور مصنوعی اعضا تو دور کی بات، بیساکھیاں اور چھڑیاں بھی فراہم نہیں کی جاتیں۔ معاشرے کی اس بے حسی میں وہ مردو ں کی طرح زندہ رہ کر قید حیات کاٹنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ان لوگوں کو ”اسپیشل پرسن“ تو کیا ، تھرڈ کلاس شہری کی حیثیت بھی حاصل نہیں ہو پاتی۔ عموماً سرکاری اور نجی سماجی تقریبات میں معذور افراد کو دعوت بھی نہیں دی جاتی اور اگر کسی تقریب میں وہ آجائیں تو انہیں حقارت آمیز اور مضحکہ خیز نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔یوں انہیں آنکھوں ہی آنکھوں میں خفت و کمتری کا احساس دلایاجاتا ہے۔
اگر کوئی اسپیشل پرسن معاشرے پر بوجھ بننا گوارہ نہ کرے بلکہ تعلیم حاصل کر کے محنت و مشقت سے رزقِ حلال کمانے کا عزم ظاہر کرے تو اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ جو معذور افراد دن رات جد و جہد کر کے تعلیم حاصل کر لیتے ہیں ، انہیں بھی ملازمت نہیں دی جاتی کیونکہ ان کے لئے مقررہ کوٹہ رشوت خوروں، سفارشیوں اور من پسندوں جیسے نااہلوں میں تقسیم کر دیاجاتا ہے۔یوں ان پر تعلیم اور ملازمت کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیںاور انہیں لوگوں کے آگے دستِ سوال دراز کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاںاور تعلیمی و تربیتی ادارے خواہ وہ سرکاری ہوں یا نجی،اسپیشل افراد کی پہنچ سے دور ہوتے ہیں۔ انہیں تعلیمی و تربیتی اداروں میں بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہوتیں۔اکثر درسگاہیں تو معذور افراد کو داخلہ دینے سے ہی کتراتی ہیں۔جہاں کہیں، جب کوئی سرکاری یا نجی عمارت تعمیر کی جاتی ہے تو اس میں بھی معذوروں کی ضروریات کا خیال نہیں رکھاجاتا۔ ہوٹلوں، پارکوں، ریستورانوں، آرٹس کونسلوں، بازاروں، دکانوں، شاپنگ سینٹروں، نمائشی مراکزجیسے مقامات میں بھی معذوروں کی رسائی ممکن بنانے کے کوئی انتظامات موجود نہیں ہوتے۔ ریل گاڑیوں، بسوں یہاں تک کہ میٹرو میں بھی اسپیشل افراد کے لئے کوئی خاص سہولت موجود نہیں۔ ہماری فضائی کمپنیاں بھی معذوروں کو وہ سہولتیں نہیں دیتیں جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ ایسے مسافروں کو مصیبت سمجھتی ہیں، ان کے ساتھ غیر معیاری رویہ رکھتی ہیں اور انہیں جا بجا حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔
ہمارے پورے ملک میں معذوروں کا ایک بھی بحالی مرکز ایسا نہیں جو جدید آلات سے لیس ہو اور جہاں معذورافراد کو اپنے اس عذر کے باوجودبھر پور انداززندگی گزارنے کی تربیت دی جا سکے۔جو چند مراکز ہیں، وہاں بھی ضروری آلات موجود نہیں۔ حتیٰ کہ وہ آلات بھی دستیاب نہیں جو معذور افراد کے لئے انتہائی ناگزیر تصور کئے جاتے ہیں اور جن پر ان اسپیشل افراد کی زندگی کا دار و مدار ہوتا ہے ۔ بعض اسپتالوں میں عملہ ناتجربہ کار ہونے کے باعث معذور افراد کی معذوری تکلیف دہ شکل اختیار کر جاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں معذور افراد کی کوئی سوشل لائف نہیں۔ انہیں ذہنی سکون و راحت پہنچانے کی بجائے ، محرومی کا احساس دلایاجاتا ہے اور انہیں ذہنی مفلوج کر دیا جاتا ہے ۔ پھر وہ احساسِ کمتری کا شکار ہو کر تنہائی کی اس انتہاءکو پہنچ جاتے ہیں جہاں اس حَسین زندگی کی کتاب سے ان کا نام کسی حرفِ غلط کی طرح مٹا دیاجاتا ہے پھر اس ”اسپیشل پرسن“ کا کام محرومی کے احساس میں ڈوب کر آہیں بھرنا رہ جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہمارے ملک میں بسنے وا لے کروڑوں اسپیشل افرادکب تک محرومی، کمتری اور تحقیر کے کربناک احساسات میں ڈوب کر سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کبھی کسی سیاستداں، بیوروکریٹ، وکیل، دانشور، تاجر، سرمایہ کار، صاحب اختیار ، وزیر کبیر کسی نے بھی معذور افراد کی زندگی بدلنے ، انہیں ان کے حقوق ادا کرنے اور انہیں عام انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کی سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ معذور افراد کی سسکیوں کو مسکراہٹوں سے بدلنے کے لئے اللہ کریم کا خوف، نیک نیتی اور انسانیت کی ضرورت ہے ۔ اسپیشل افراد کو سہولتیں فراہم کرنے کے لئے سخت قوانین بنانے اور پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ سرکاری اور نجی سطح پر فلاح و بہبود کی تنظیمیں میدانِ عمل میں آئیں اور خصوصی افراد کی بہبود کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ ذرائع ابلاغ ان کے مسائل اجاگر کریں۔
والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے معذور بچے کو بھی دیگر صحتمند بچوں کی طرح سمجھیں، انہیں ویسی ہی اہمیت ومحبت دیں۔ انہیں اہمیت دیں ا ور گھر میں قید کر کے رکھنے کی بجائے انہیں معاشرے کا باعزت شہری بنانے کی کوشش کریں۔ اگر والدین انہیں اہمیت دیں، خصوصی بچوں کی تربیت بھی خصوصی خطوط پر کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ملک و قوم کے لئے مفید ثابت نہ ہو سکیں۔