Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امیر المومنین فی الحدیث ، امام بخاریؒ

   
نماز مومن کی معرا ج اوراللہ تعالیٰ سے قرب کا ذریعہ ہے،صحابہ کرامؓ کی حالت نماز میں ایسی ہوتی تھی کہ گویا کہ وہ خشک لکڑی ہیں

* * * *مفتی محمد مجیب الرحمان دیودرگی،ہند* * *

دینی مدارس کے سال کا آغازہے، ایسے میں ملک وبیرون ملک کے دینی مدارس میں ہزاروں طلبہ امام بخاریؒ  کی صحیح بخاری شریف پڑھیں گے، احادیث مبارکہ کے ورد کے ساتھ، سند اور متن پر کلام سماعت کریں گے، ہزاروں دفعہ امام بخاریؒ  کا تذکرہ آئے گا، ان کے اقوال ان کے ابواب پر بحث ومباحثہ ہوگا، مناسب محسوس ہوا کہ امام بخاریؒ  کی کچھ خصوصیات کا تذکرہ کیا جائے تاکہ فارغین مدارس ان کی ان قابل تقلید پہلوؤ?ں کو اپنی زندگی میں اپنائیں۔جس کتاب کو پڑھ کر عالم کہلائیں گے اس کتاب کے مصنف? کی زندگی بھی ہمارے سامنے رہے ، تاکہ خارجی زندگی میں انھیں اپنائیں اور اپنے لئے مشعل راہ بنائیں۔
    حرام مال سے پرہیز:
    امام بخاری (متوفی652ھ)کے زمانے میں احادیث مبارکہ کی سیکڑوں کتابیں لکھی گئیں، کئی مصنفین ومحدثین کا اس زمانے میں دور دورہ تھا، ایک ایک محدث کے سیکڑوں شاگر ہوا کرتے تھے، ان سب کے باوجود جو قبولیت اللہ تعالیٰ نے امام بخاریؒ اور ان کی کتاب کو نصیب فرمائی وہ دوسروں کے حصے میں نہیں آئی، اس کے اسباب ووجوہات پر نظر کرتے ہوئے علماء نے ارشاد فرمایا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے والد بزرگوار نے اپنے بچے کے لئے حلال اور پاکیزہ غذا کا اہتمام کیا تھا، حرام اور مشتبہ مال سے اپنے اہل وعیال کی حفاظت فرمائی تھی، جس حلال کی برکت اتنے بڑے علمی کارنامے کے ذریعہ ظاہر ہوئی، بخاری شریف کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ (قرآن کریم کے بعد صحیح ترین کتاب) کا درجہ حاصل ہوا ہے، انسان کے کارنامے کو یہ درجہ حاصل ہونا کوئی معمولی بات نہیں، علماء نے ارشاد فرمایا کہ اس درجے کے حاصل ہونے میں ان کے والد کا کھانے کے سلسلہ میں کمال احتیاط کو بڑا دخل ہے، جبکہ ان کے والدؒ نے انتقال کے موقع پر اپنے کثیر مال کے تعلق سے ارشاد فرمایا تھا :میرے مال میں کوئی درہم حرام تو درکنار شبہ کا بھی نہیں(فتح الباری) ۔
     اسی لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ایک اپنی آمدنی کے ذرائع پر نظر رکھے پاکیزہ اور طیب کی تلاش میں رہے اور حرام وناپاک مال سے اجتناب کرے۔
    غیبت سے اجتناب:
    حدیث مبارک میں رسول اللہ نے مسلمانوں کی جو تعریف کی ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ وزبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں(مشکوٰۃ) ۔اس لحاظ سے دوسرے مسلمان کو ہاتھ سے اذیت پہنچانا تو دشوار ہے؛ لیکن زبان سے اذیت دی جاسکتی ہے اور اس سے بچنا نہایت دشوار کْن مرحلہ ہے، اس میں بھی غیبت سے بچنا بہت ہی مشکل ہے، نیز ایسے موقع پر جب کہ مخالفین کی جانب سے زبان وقلم کے نشتر چلائے جارہے ہوں اور مخالفین نیچا دکھانے کے لئے ہر جانب سے کوشاں ہوں، اس کے باوجودحق پر زبان کی استقامت میں ذرہ برابر فرق نہ آنا یہ امام بخاریؒ کی کرامت سے بڑھ کر ہے، امام بخاریؒ نے فرمایا:
    ’’جب سے مجھے غیبت کے حرام ہونے کا پتہ چلا تب سے میں نے کسی کی غیبت نہیں کی۔‘‘(فتح الباری)۔
     ایک اور روایت میں یوں ہے کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ سے میں اس حالت میں ملوں گا کہ اللہ تعالیٰ غیبت کے سلسلہ میں مجھ سے حساب نہیں لیں گے کیونکہ میں نے کسی کی غیبت نہیں کی۔
     یہی وہ خصوصیت ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں مقبولیت کا یہ مقام ومرتبہ نصیب فرمایا، غیبت کے سلسلہ میں جس قدر سخت وعیدیں قرآن وسنت میں وارد ہوئی ہیں اسی قدر اس میں ابتلاء بھی عام ہے، ایسے میں اپنی زبان پر قابو رکھنا اور مخالفین کے سلسلہ میں زبان کو ساکت رکھنا، اور دوسروں کا تذکرہ برائی سے نہ کرنا، یہ ایسی خصوصیت ہے کہ جس کی آج ہر عام وخاص، عالم وجاہل کو ضرورت ہے۔
    علمی وقار کی حفاظت:
     ایک مرتبہ امام بخاریؒ دریائی سفر کررہے تھے کہ ایک ہزار اشرفیاں ان کے ساتھ تھیں، ایک شخص نے کمال نیاز مندی کا طریقہ اختیار کیا، اور امام بخاریؒ کو اس پر اعتماد ہوگیا، اپنے احوال سے اس کو مطلع کیا، یہ بھی بتادیا کہ میرے پاس ایک ہزار اشرفیاں ہیں، ایک صبح کو جب وہ شخص اٹھا تو اس نے چیخنا شروع کیا اور کہنے لگا کہ میری ایک ہزار اشرفی کی تھیلی غائب ہے چنانچہ جہاز والوں کی تلاشی شروع ہوئی، امام بخاریؒ نے موقع پاکر چپکے سے وہ تھیلی دریا میں ڈال دیا، تلاشی کے باوجود وہ تھیلی دستیاب نہ ہوسکی تو لوگوں نے اسی کو ملامت کی، سفر کے اختتام پر وہ شخص امام بخاریؒ سے پوچھتا ہے کہ آپ کی وہ اشرفیاں کہاں گئیں؟ امام صاحب نے فرمایا: میں نے ان کو دریا میں ڈال دیا، کہنے لگا اتنی بڑی رقم کو آپ نے ضائع کردیا؟ فرمایا کہ میری زندگی کی اصل کمائی تو ثقاہت کی دولت ہے چند اشرفیوں کے عوض میں اس کو کیسے تباہ کرسکتا تھا(مقدمہ کشف الباری:بحوالہ آفتابِ بخارا )۔
    غور کیجیے! امام بخاریؒ نے علمی وقار کی حفاظت کی خاطر اپنے کثیر مال کو ضائع کرنا پسند کیا، ثقاہت پر ادنیٰ آنچ آئے اور ان کی ثقاہت پر حرف گیری کی جائے، اسے برداشت نہیں کیا، آج اللہ نے ہمیں بھی علم کی دولت سے نوازا ہے، علم کے نور سے منور فرمایا ہے اسی علم کی دستار ہمارے سرپر لپیٹی گئی ہے، انھیں کی کتاب پڑھ کر ہم فارغ ہورہے ہیں تو مال کی خاطر دولت کی لالچ میں علمی وقار کا سودا نہ کریں، فانی دولت کے لئے مال داروں کے سامنے اپنے آپ کو رسوا وذلیل نہ کریں جس سے ہمارا علمی وقار مجروح ہوجائے، نیز طلبائے کرام کے ساتھ شفقت کا یہ عالم ہوتا کہ امام ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں: آپؒ کی غذا بہت کم تھی اور طلبہ پر بہت زیادہ احسان وکرم فرماتے تھے(فتح الباری)۔
     امام بخاریؒ کی یہ خاص صفت بخاری پڑھے ہوئے اساتذہ کرام کوبھی اپنانا چاہیے اور طلبہ کو اپنا غلام یا نوکر سمجھنے کے بجائے ان پر احسان وکرم کا معاملہ کریں اس لئے یہ طلبہ اساتذہ کے لئے 2طرح سے محسن ہیں، ایک تو یہ کہ انھیں کے طفیل دنیا میں روزی ملتی ہے اور انھیں کے ذریعہ آخرت کی سرخروئی نصیب ہوگی، یہ طلبہ ہمارے علوم کے محافظ اور ناشر بنیں گے، انہی کے واسطے سے ہمارا فیض عالم میں پہنچے گا، طلبہ کے ساتھ ترش روئی ونازیبارویہ خود اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارلینے کے مترادف ہے، غور کیجیے! امیر المؤمنین فی الحدیث جب طلبہ کے ساتھ احسان وشفقت کا معاملہ کرسکتے ہیں جن کے شاگردون کی تعداد ہزاروں میں ہے تو ہمیں تو ضرور کرنا چاہیے!
    امام بخاریؒ کی نماز:
    نماز بندۂ مومن کی معرا ج ہے۔اللہ تعالیٰ سے قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔صحابہ کرامؓ کی حالت، نماز میں ایسی ہوتی تھی کہ گویا کہ وہ خشک لکڑی ہیں۔رسول اللہ کو نماز سے اتنا لگاؤ تھا کہ عبادت کرتے ہوے پائے مبارک پر ورم آجاتا بلکہ پھٹ جاتا۔ کوئی ادنیٰ سا معاملہ پیش آتا توآپ  نماز کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے۔ اسی نماز کے تعلق سے آپنے حدیث جبرئیل میں تعلیم دی کہ:
    ’’ نماز میں اتنا استحضار پیدا کرو کہ نماز میں یہ تصور قائم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کو تم دیکھ رہے ہو، اگر یہ نہ ہو توکم ازکم یہ تصور تو قائم کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو دیکھ رہے ہیں، اس سے تمہاری عبادتوں میں احسانی کیفیت حاصل ہوگی۔‘‘(مشکوٰۃ)۔
     امام بخاریؒ کی نماز کیسی احسانی کیفیت سے معمور تھی ، آپ اس واقعہ سے اندازہ لگایئے کہ ایک بارآپؒ  نماز پڑھ رہے تھے، بھڑنے آپؒ کے جسم پر17دفع کاٹا۔ جب آپؒ نے نماز پوری کی تو کہا کہ دیکھو کونسی چیز ہے جس نے مجھے نماز میں تکلیف دی ہے، شاگردوں نے دیکھا تو بھڑ تھی جس کے کاٹنے سے ورم آگیا تھا۔ آپؒ سے جلدی نماز ختم کرنے کی بات کہی گئی تو فرمایا کہ میں جس سورت کی تلاوت کررہا تھا، اس کے ختم کرنے سے قبل نماز ختم کرنا نہیں چاہ رہا تھا(فتح الباری)۔
    امام بخاریؒ کا مجاہدہ:
     شاعر کہتا ہے :
بِقَدْرِ الکَدِّ تُکْتَسَبُ المعالْ
 فَمَنْ طَلَبَ العُلٰی سَہِرَ اللَّیَالِیْ
(محنت کے بقدر بلند یاں نصیب ہوتی ہیں، نیز جو بلندیاں چاہے وہ راتوں کو جاگا کرے)
    محنت کی جو بھی شکل ہو امام بخاریؒ اسے اپنانے سے ہرگز گریز نہیں کرتے تھے، علم کیلئے مجاہدہ کی بابت امام محمد بن ابی حاتم ور ا قؒ بیان کرتے ہیں کہ بسا ا وقات دورانِ سفر امام بخاریؒ کے ساتھ ایک ہی کمرہ میں رات گزرتی تھی۔میں دیکھتا ہوں کہ وہ رات کو 20,15بار اٹھتے ہیں، ہر بار چراغ جلا کر حدیث پر نشان لگاتے ہیں، پھر نماز ِتہجد ادا کرتے ہیں اور مجھے کبھی نہیں اٹھاتے ۔میں نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ آپ اس قدر مشقت برداشت کرتے ہیں ،آپ مجھے اٹھالیا کریں، امام صاحبؒ نے فرمایا: تم جوان آدمی ہو ،میں تمہاری نیند خراب کرنا نہیں چاہتا (سیر اعلام النبلاء،بحوالہ آفتاب بخارا)۔
    امام بخاری ؒکے طعام کا تذکرہ کرتے ہوئے ابن حجر عسقلانیؒ نے فرمایا:امام بخاری کی خوراک بہت ہی کم تھی، بہت زیادہ مجاہدہ کھانے کے اعتبار سے برداشت کرتے تھے۔
    امام بخاریؒ کا قارورہ جب معائنے کیلئے اطباء کے پاس پیش کیا گیا تو اطباء نے دیکھ کر کہا کہ یہ ان لوگوں کے قارورے کی طرح ہے جو سالن کا استعمال نہیں کرتے۔ امام بخاریؒ نے فرمایا: ہاں بات صحیح ہے، میں نے 40 سال سے شوربا استعمال نہیں کیا، اس کے علاج کے بارے میں پوچھا گیا تو اطباء نے کہا کہ اس کا علاج شوربا استعمال کرنا ہے۔ امام بخاریؒ نے انکار کیا حتیٰ کہ مشائخ واہل علم نے بہت ہی زیادہ التجا کی تو رو ٹی کے ساتھ شکر استعمال کرنے لگے(فتح الباری) ۔
    یہی وہ مجاہدات ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے امام بخاریؒ  کو قابلِ رشک بلندیاں نصیب فرمائیں۔
    امام بخاریؒ کا رمضان:
     رمضان کی پہلی رات میں اپنے ساتھیوں کو جمع کرتے، ان کی امامت فرماتے، ہر رکعت میں 20 آیتوں کی تلاوت کرتے، نیز اسی ترتیب پر قرآن ختم فرماتے تھے۔ ہر دن سحری تک قرآن کریم کا ایک تہائی حصہ تلاوت فرماتے، اس طرح 3 رات میں تلاوت کرتے ہوئے قرآن ختم فرماتے تھے، نیز رمضان کے ہر دن میں ایک بار قرآن کریم ختم فرماتے اور ہر مرتبہ ختم کرتے ہوئے دعا کا اہتمام کرتے (فتح الباری ) ۔
    گویا رمضان کا مہینہ امام بخاریؒ کے یہاں تلاوت کا مہینہ ہوا کرتا، صبح وشام رات بھر تلاوت کا خا ص شغف واہتمام ہوا کرتا تھا۔
     ابتلاء و آزمائش، تکالیف، مصیبتیں، امتحانات، انبیائے کرام علیہم الصلاۃ کو زیادہ پیش آئے ہیں، پھر جو شخص ان کے زیادہ قریب ہوتا ہے اسے بھی ابتلاء  وآزمائش میں ڈالا جاتا ہے۔ امام بخاریؒ کو بھی اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے امتحانات میں ڈالا۔ کئی مرتبہ آپؒ کو جلا وطنی کی زندگی گزارنی پڑی۔ معاصر علمائے کرام میں سے کئی ایک نے موقع بموقع آپؒ پر اعتراضات کیے اور آپؒ کے خلاف زبان درازی کا طویل سلسلہ جاری رکھا۔ امیروں اور حاکموں نے الگ طوفان کھڑا کیا۔ ان سب کے باوجود آپؒ نے اپنی زیان پر شکایت کے حروف نہیں لائے۔ اخیر میں سمرقند جانے کا ارادہ کیا تو روک دیا گیا۔خرتنگ نامی چھوٹی سی جگہ میں امیر المؤمنین فی الحدیث ابدی نیند سوگئے لیکن ان تکالیف ومصیبتوں کو جھیل کر کسی کی بھی غیبت میں اپنی زبان کو ملوث نہیں کیا۔
     علوم ِدینیہ کے حصول میں مشغول رہنے والوں کیلئے ایک بہترین سبق ہے کہ وہ امام بخاریؒ کے تحمل اور دوسرے اوصاف کو ا پنی زندگی کا جزولا ینفک بنالیں تب ہی جاکر کوئی بڑا علمی معرکہ سر کیا جاسکتا ہے اور ان صفات سے مزین ہو کر اپنی دنیوی واخروی زندگی کو سنوارے۔
 

شیئر: