اولاد کی تربیت سے بے اعتنائی، ابتری کا سبب
زینت شکیل۔جدہ
وہ شہر بھر میں چینی لے کر گھومتی رہتی تھی۔ وہ کچھ فاصلے پر موجود ہوتا تھا۔ آج وہ اس بارے میں اس کو سمجھا رہا تھا کہ پہلے کی بات اور تھی مگر اب اسے اس کام سے دور رہنا چاہئے۔
وہ حیران ہوکر پوچھنے لگی کہ کیا مجھے بھی وہی کرنا چاہئے جو اکثریت کا ان دنوں معمول بن جاتا ہے کہ ایک بیمار کی طرح بستر پکڑ لینا اور ایک وقت میں چار وقت کا کھانا کھانا شروع کردینا چاہئے اور سامنے کی دیوار میں ایک حد سے زیادہ موٹے بچے کی تصویر لگا کر دن رات تکتے رہنا چاہئے۔ وہ کہنے لگا اگر یہ سب نہ بھی کرو تو کم از کم اتنا تو کرو کہ اپنی کئی برسوں کی اس ایڈونچر سے تو دور رہو ۔ تمہیں کچھ سمجھ میں آیا تو چینی لیکر سارے شہر کی اصلاح کرنے کو اپنا مقصد حیات بنا لیا ۔
وہ حیرانی سے پوچھنے لگی ، کیا میرے اس اصلاحی پروگرام سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا ہو گا؟ میں تو سمجھتی ہوں کہ یہ کافی سے زیادہ پُر اثر ہوتا ہوگا۔ خاص طور پر اُن لوگوں کے لئے جو سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ دنیا میں آئے ہی اس لئے ہیں تاکہ وہ لوگوں کو اپنانوکر سمجھیں۔ ان کو جب معمولی سی بھی تکلیف پہنچتی ہوگی اور کسی کام میں انہیں بھی انتظار کرنا پڑتاہوگا تو اس وقت انہیں احساس ہوتاہوگا لوگوں کی تکلیفوں کا کہ دنیا میں ہر آدمی ہر ہر کام کی انجام دہی کے لئے کتنی مشکلیں برداشت کرتا ہے۔“
وہ کہنے لگا کہ ساری دنیا تو غریبوں کی بستی نہیں کہ وہاںکے عوام کو ضرور چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ وہ بڑے اطمینان سے کہہ رہی تھی کہ میرے خیال میں تو کوئی انسان اپنی مرضی سے ایک کام بھی دوسروں کی مدد کے بغیر سرانجام نہیں دے سکتا۔ امیر آدمی کو بھی وقت پر کام کرنے کے لئے خود پروگرام ترتیب دینا پڑتا ہے۔
وہ اس کے لئے فکر مند تھا ۔اسی لئے چاہتا تھا کہ وہ اپنی حالت کے پیش نظر زیادہ آرام کیا کرے اور خوش رہا کرے لیکن اسے تو معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں کا اتنا غم تھا کہ اس نے اپنے شوہر سے کمانڈو جیسی پریکٹس کرکر کے پہلے ساکت چیز پر فائر کرنا سیکھا پھرحرکت کرتی چیز کو نشانہ بنایا اور اس کے بعد خود تیز رفتاری سے سفر کرتے ہوئے تیزی سے حرکت کرتی چیز کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوگئی۔
وہ نرم لہجے میں سمجھا رہا تھاکہ انسان جب کسی بھی مشن کو کامیاب بنانا چاہتا ہے تووہ خود کوہر قسم کی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار رکھتا ہے ۔کبھی صورتحال بالکل عام سی ہوتی ہے اور مشن مکمل ہو جا تا ہے اور کبھی غیر معمولی صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑجاتاہے ۔
وہ اطمینان سے کہہ رہی تھی کہ آدمی کو پریکٹس ہو جائے اور رب کریم کی مدد بھی شامل حال رہے تو آپ کی کامیابی یقینی ہوجاتی ہے۔“ وہ یاد دلا رہا تھاکہ جب تم نے ایکسیڈنٹ والی گاڑی کے پٹرول میں چینی ملادی تو گاڑی نے تو چلنے سے انکار کردیا لیکن جب وہ لوگ اسکوٹر پر جانے لگے تو تم اپنی گاڑی کو ایسی تیز رفتاری سے اس کے سامنے والی سڑک پر لے آئیں اور اس اسکوٹر کے ٹائر کو نشانہ بنایا۔ تمہیں اپنے نشانے پر اتنا اعتماد تھا کہ رک کر ان دونوں کا حال دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ وہ پورے واقعے کے یاد آجانے پر کہنے لگی کہ آج اولاد کی تربیت سے بے اعتنائی ہی موجودہ ابتر اس صورتحال کا سبب بنی ہوئی ہے ۔جب انسان صرف دولت کے حصول کو ہی تمام کامیابی کا ذریعہ سمجھ لے تو ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ جا تا ہے یعنی اس لڑ کی کی عمر 13سال اور اس لڑکے کی عمر17سال تھی اوروہ ایک کروڑ کی گاڑی میں اپنی دوست کو نئے سال کی خوشی میں وہاں لے کر آیا تھا اور واپسی میں ایسا منفرد پروگرام دیکھنے گیا کہ جس کے ٹکٹ ایک ماہ پہلے ہی ختم ہو چکے تھے۔ انہیں یہ موقع ملا کہ ایسے پروگرام کو دیکھ سکیں جس میں بین الاقوامی شہرت کے حامل فنکار شرکت کے لئے آئے تھے۔ اسی بے خودی نے انہیں واپسی میں یہ دیکھنے کہ بھی زحمت نہ کرنے دی کہ انکی گاڑی سڑک پر سوئے ہوئے 2 افراد پر سے گزر گئی ہے اور وہ لوگ اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان کوجب وہاں موجود لوگوں نے روکا تو وہ بڑی ڈھٹائی سے کہنے لگے کہ تم لوگوں نے ہمیں روکاہے، اب تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ تمہیں معلوم نہیں ہم کس فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ابھی میرے والد اپنے منیجر کو بھجوائیں گے اور وہ تم لوگوں کو سبق سکھادے گا۔
گویا وہ ”الٹا چور کوتوال کوڈانٹے“ کے مترادف لوگوں کو اپنے وسائل، جاہ و حشمت، مقام و مرتبے اور طاقت واختیارات کی بابت بتاکر لوگوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور ظاہر ہے جب کسی کو اپنی غلطی پر کوئی شرمندگی ہی نہ ہو تو ایسے فرد یا افراد کا دماغ ٹھکانے لگانے کی ضرورت پڑ ہی جاتی ہے۔
جب انہیں بچانے کے لئے ان کے لوگ وہاں پہنچے توانہوں نے لین دین کا سلسلہ شروع کردیا تاکہ مال کے ذریعے وہ 2 افراد کی موت کے عینی شاہدین کا منہ بند کراسکیں یا انہیں یہ بات باور کراسکیں کہ میرے لوگ یہ کام آسانی سے کرالیں گے۔ بہتر ہے کہ تم اپنا کچھ فائدہ کرلو ۔ اس وقت چینی نے اپنا کام دکھایا اور گاڑی بھی نہ چلی۔ جب انہوں نے اسکوٹر پرجائے حادثہ سے بھاگنے کی کوشش کی تو اس وقت انکے اسکوٹر کے ٹائرپر فائرکیا اور نتیجہ دیکھنے کے لئے وہاں نہ رکے اور اس طرح نجانے کتنے لوگوں کو اس نے سبق سکھایا تھا ۔ وہ یہی کہتی تھی کہ ہر جگہ چینی لے جانے کا بہت فائدہ ہوتاہے کہ لوگوں کو کم از کم کچھ وقت کے لئے تو اپنی دوسری گاڑی کے انتظار میں وہاں کھڑے رہنا پڑتا ہے۔
وہ اس کی آئندہ کی مصروفیات کا شیڈول بنا رہا تھا کہ تمہیں اب اپنی خوراک اور ادویہ کا خیال رکھنا ہے اور صرف آرام کرنا ہے ۔ وہ بضد تھی کہ وہ اپنے ارادے کو کسی نہ کسی صورت میں جاری رکھے گی یعنی ریاضی کے سوالات حل کرنے کی طرح کے کام کرتی رہے گی تاکہ ذہین نسل نو کی آبیاری کرسکے۔ اس کی والدہ وہاں آئیں اور کہنے لگیں کہ بہت بڑی خوش خبری ہے۔ اب ہر ہر لمحے کو قیمتی بناﺅ اور تمام اُمت کے لئے دعائیں مانگا کرو کہ یہ دعا کی قبولیت کا موقع ہے۔
٭٭جاننا چاہئے کہ ماں کی نیکی، ذہانت اور بہادری جیسے اوصاف اس کی نسل میں خون بن کر سرا یت کرجاتے ہیں۔