Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فن کے قدردان یا مفاد پرست!ریان استعمال ہونے جارہا تھا

           
 وہ بازاروں میں جا کر دکانداروں سے گن پوائنٹ پر بھتے کی رقم وصول کرتا ہے۔ اکرم مجید کی ریان پر خاص توجہ سے امکان ہے  جلد وہ اسے باقاعدہ اپنی سیاسی پارٹی کا کارکن بنا  لے گا
                * * * دانیال احمد ، دوحہ ،قطر* * *
    سیاہ رنگ کی ایک گاڑی تھانے کے باہر آ کے رکی۔ اس میں سے سیاہ لباس میں ملبوس ایک شخص نکلا اور تھانے کی عمارت میں داخل ہوا۔ اس کو دیکھتے ہی تھانے میں موجود سب افراد پر جیسے ایک دہشت سی چھا گئی۔ ایس ایچ او نے فوراً چائے منگوائی اور اس شخص سے مخاطب ہوا،
     " ارے اکرم بھائی ! آپ نے کیوں زحمت کی؟ مجھے بلا لیا ہوتا۔ میں خود حاضر ہو جاتا آپ کی خدمت میں،،،" اکرم کرسی پر جھولتے ہوئے، " نہیں ایس ایچ او صاحب! آج زرا الگ نوعیت کا کام ہے آپ سے،،،  میری ایک چھوٹی سی  فرمائش سمجھ لیجیئے۔" ایس ایچ او فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، " آپ حکم کریں ںسرکار!" اکرم سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے،" ایس ایچ او صاحب! سنا ہے آج کل آپ کے لاک اپ میں نیا فنکار آیا ہوا ہے،،،" ایس ایچ او جھٹ سے بولا،" آپ کا اشارہ اس لڑکے ریان کی طرف تو نہیں؟" اکرم زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے،" بالکل ٹھیک پہنچے ہیں جناب،،، اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ  ہم نئے فن کے بڑے قدردان ہیں۔" ایس ایچ او خوشامد کرتے ہوئے، " جو حکم اکرم صاحب!" ایس ایچ او کے ایک اشارے پر ریان کو رہا کر دیا گیا۔ ریان پولیس اسٹیشن سے جاتے وقت ایس ایچ او کی جانب یوں دیکھ رہا تھا جیسے کوئی عظیم شہنشاہ فتح یاب ہونے کے بعد ہارے ہوئے لشکر پر حقارت بھری نگاہ ڈال رہا ہو۔ اب وہ اکرم کے ساتھ اس کی گاڑی میں سوار ہوا۔ اکرم نے اس سے گفتگو شروع کی، " تم سوچ رہے ہوگے کہ آخر مجھ جیسا بڑا ڈرگ ڈیلر، لینڈ مافیا کا سرغنہ، سیاستدان وغیرہ وغیرہ،،، تم جیسے معمولی چور کو رہا کرانے کیوں چلا آیا۔ تو سنو ریان میاں! ہمیں تمہارا انداز بھا گیا،،، تمہارے اندر وہ جوہر ہے جو تمہیں جرم کی دنیا سے سیاست کے ایوانوں تک لے جا سکتا ہے۔ بس ہمارے پیچھے پیچھے چلتے رہو، کامیابیاں اور منزلیں تمہارے قدم چومتی جائیں گی،،، اور ہاں! ایک بات ابھی سے ذہن میں بٹھا لو کہ ہمارے نزدیک غداری کا مطلب موت ہے،،، اذیتناک، دردناک، عبرتناک موت۔" اب اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی سگریٹ مسل کر پھینک دی۔ ریان خاموش رہ کر صرف اثبات میں سر ہلاتا رہا۔
           ریان نے شہر کے ایک نامور سوشل ورکر کے گھر میں ڈکیتی کی واردات کی تھی اس لیے اس معاملے کو خبروں کی زینت بنتے دیر نہیں لگی۔ اس کی رہائی کے بعد یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ ریان احمد کے خلاف ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے اس کو رہا کر دیا گیا ہے اور وہ اپنے گھر واپس نہیں جانا چاہتا تھا اس  لیے وہ شہر سے باہر چلا گیا ہے۔ وہاں ریان کے گھر والوں پر ہر لمحہ ایک قیامت کی طرح گزر رہا تھا لیکن وہ صبر کا دامن تھامے ہوئے خاموش تھے۔ دوسری جانب کاظم اور رباب دونوں ہی بے حدپریشان تھے۔ ان سے رہا نہ گیا اور وہ اپنے بابا سے ضد کرنے لگے کہ وہ ریان کا پتہ کروائیں۔ بچوں کی ضد کے آگے حسن رضا کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور آخر انہوں نے اپنے تعلقات کے ذریعے ریان کی کھوج لگانا شروع کر دی۔ ایک دن انہوں نے اپنے دونوں بچوں کو لیا اور ریان کے گھر جا پہنچے۔ سب کی نظروں میں ایک عجیب سی حیرت تھی مگر لب خاموش تھے۔ حسن رضا نے خاموشی توڑی، " دراصل میں آپ سب کو ریان کے متعلق حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں،،، میں جانتا ہوں کہ ہم سب کو ریان سے دلی لگائو اور وابستگی ہے لیکن جو سچ ہے اسے ہمیں حوصلے سے سننا اور ہمت سے برداشت کرنا ہوگا۔ ثمینہ کی ایک لمحے کو جان حلق تک آئی، " اللہ خیر کرے،،، ٹھیک ہے نا میرا بچہ؟" حسن رضا سنجیدہ لہجے میں، " ریان اکرم مجید کے  لیے کام کرنے لگا ہے۔ آج کل اس سے بھتہ وصولی کا کام لیا جا رہا ہے۔ ہر مہینے کے شروع میں وہ شہر کے مختلف بازاروں میں جا کر دکانداروں سے گن پوائنٹ پر بھتے کی رقم وصول کرتا ہے۔ اکرم مجید کی ریان پر خاص توجہ اور غیر معمولی لگائو سے امکان ظاہر ہوتا ہے کہ جلد وہ اسے باقاعدہ اپنی سیاسی پارٹی کا کارکن بنا کر سیاست کے میدان میں بھی اتار دیگا۔" یہ سب سننا تھا کہ ثمینہ کی حالت غیر ہو گئی اور ریان کے والد بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے بیٹھ گئے، " میرے اللہ! یہ دن بھی دیکھنا تھا مجھے،،، ریان! تم نے میری ساری زندگی کی کمائی ہوئی عزت خاک میں ملا کے رکھ دی،،،" حسن رضا نے انہیں حوصلہ دینے کی کوشش کی، " فکر مت کریں وحید صاحب! اللہ پہ بھروسہ رکھیں وہ سب ٹھیک کر دیگا۔ آپ کو ہمت اور استقامت کا مظاہرہ کرنا ہوگا،،، آپ ہی نے تو بھابی کو سنبھالنا ہے ان کا سہارا بننا ہے۔" کاظم خاموش تھا مگر اس کی آنکھوں میں تیرتے آنسو اس کے دل میں اٹھنے والے طوفان کا پتہ دے رہے تھے۔ رباب نے اپنے آنسو ضبط کر لیے لیکن اس کے دل کو غم لگ گیا،،، محبت کی بربادی کا غم تھا  جو اس کے دل کی گہرائیوں تک اتر گیا تھا،،، وہ زیر لب کہنے لگی،
" وفا وہ شخص میرے ساتھ بھی نہ کر پایا
   بچھڑتے وقت ملاقات بھی نہ کر پایا"
           کالج کی چھٹی ہو چکی تھی سب طلباء کالج سے نکل رہے تھے، داخلی دروازے پر خاصی بھیڑ جمع تھی۔ رباب اور ثناء اسی بھیڑ سے بچتے بچاتے کالج سے باہر نکل کر اپنی بس کی طرف جا رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد انہیں ایک نقاب پوش شخص دکھائی دیا جو ان کی طرف ہی بڑھ رہا تھا۔ ثناء نے شور مچانا چاہا لیکن رباب نے اسے روک لیا۔ اس نقاب پوش نے ان کے قریب پہنچ کر چہرے سے نقاب ہٹایا تو رباب اور ثناء  کے ہوش ہی اڑ گئے۔ ثناء کپکپاتی ہوئی آواز میں، "ریان،،، تم،،،" ریان اس کی بات کاٹ کر کہنے لگا، " دیکھو ثناء ! میں آج تم سے ایک بہت ضروری بات کرنے آیا ہوں۔ تم یوں سمجھ لو کہ میری آنے والی زندگی کے فیصلے کا اختیار تمہیں سونپنے آیا ہوں،،، ثناء تم میری محبت کو قبول کر لو میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں ہر غلط کام چھوڑ دوں گا اور ایک اچھا انسان بن کر دکھائوں گا جیسا تم سب مجھے دیکھنا چاہتے ہو،،،" ثناء  نے نفرت بھرے لہجے میں کہا، " ارے جائو جائو! یہ فلمی ڈائیلاگ کسی اور کو سنانا تم،،، مجھے نہ تو پہلے تم میں کوئی دلچسپی تھی اور نہ اب ہے۔ بلکہ اب تو نفرت ہے مجھے تم سے۔ بھاڑ میں گئے تم بھی اور تمہارے یہ مگرمچھ کے آنسو بھی،،،" ریان نے دوٹوک انداز میں کہا، " شکریہ ثناء ! بہت بہت شکریہ تمہارا،،، میں نے اپنے زندگی کا فیصلہ تمہارے ہاتھ میں دیا تھا، میری زندگی میں ہمیشہ کے لیے جرم اور گناہ کے اندھیرے بھرنے کا بہت بہت شکریہ،،، اب مجھے کسی کی پروا نہیں اب میں جس راہ پہ چل پڑا ہوں اسی پہ رہوں گا یہاں تک کہ میں کسی منزل پہ پہنچ جا ئو یا موت مجھ سے آ ملے۔" اب وہ رباب سے مخاطب ہوا، " رباب! میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں لیکن میں کیا کروں کہ میرے دل میں کبھی تمہارے لیے وہ محبت جاگی ہی نہیں،،، اور جس سے میں نے محبت کی اس نے یہ صلہ دیا،،، مگر اب مجھے بہت شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ کاش میں نے تمہی سے محبت کی ہوتی۔ رباب! تم سے بس اتنا کہنا ہے کہ تم سب کا خیال رکھنا، میرے امی ابو اور باجی کا، کاظم کا، سب کا۔ مجھے بھلانے کی کوشش کرنا کیوں کہ میں تمہارے قابل نہیں ہوں تم مجھ سے کہیں بہتر انسان کی مستحق ہو،،،" رباب اسے روکنا چاہتی تھی لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنے بے تہاشہ آنسوئوں کو ضبط کر کے کچھ کہتی، ریان اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اب وہ ثناء کو ملامت کرنے لگی،" بڑی ہی بدنصیب ہو تم ثناء! محبت بھی گنوا دی تم نے اور کسی کی زندگی بھی برباد کر ڈالی، نہ صرف ایک زندگی بلکہ ایک پورے خاندان کو آگ میں جھونک دیا تم نے؛
   بہت ہی تلخ باتوں سے بڑے ہی سخت ہاتھوں سے
   چلو پھر ہار دی تم نے، محبت مار دی تم نے"
(باقی آئندہ)
محترم قارئین !
    اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کی کہانیوں کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔،آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ۔اگر آپ یہ چاہتے ہیںکہ آپ کا نام شائع نہ ہو تو ہم نام تبدیل کردینگے،مگر آپ کی کہانی سچی ہونے چا ہیے۔ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے جس کے لئے ایم ایس ورڈ اور ان پیج سوفٹ ویئر پر کام کیاجاسکتا ہے کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔۔ ہم سے فون نمبر 00923212699629پر بھی رابطہ کیاجاسکتا ہے۔آپ کی کہانی اردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔۔
    ای میل:[email protected]

 

شیئر: