پیر 8جنوری 2018ءکو سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ” الاقتصادیہ“ کا اداریہ نذر قارئین ہے
ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے نفاذ اور پیٹرول کے نرخوں میں اضافے کے پہلے دن سعودی بازاروں میں بڑی حد تک ہلچل پائی گئی۔ یہ فطری بھی تھی اور توقع کے عین مطابق بھی۔ اس سے قطع نظر ہمیں اس کی بابت دو چار باتیں کرنی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سرکاری ادارے اس کے لئے پوری طرح سے تیار تھے؟نگراں اداروں نے اعلان کررکھا تھا کہ وہ بازارو ںکی نگرانی کیلئے مطلوب تمام انتظامات کئے ہوئے ہیں۔ مختلف اداروں نے کمیٹیاں قائم کرلی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ مذکورہ اداروں کی حیثیت سے کہیں زیادہ گڑبڑ دیکھنے میں آئی۔ سرکاری ادارے تیاریوں کے باوجود اپنے وعدے پورے کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ الاقتصادیہ نے خود اپنی ایک رپورٹ میں ثابت کیا ہے کہ خریداروں اوردکانداروںکے درمیان ردعمل میں تضاد نمایاں رہا۔ تجارتی ادارے ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے تقاضے پورے کرنے کے سلسلے میں ضرورت سے زیادہ ہی مستعد اور چوکس نظر آئے جبکہ نگراں ادارے اور صارفین مطلوبہ معیار سے کم درجے میں تھے۔ تجارتی ادارے ٹیکس والے بل تیار کئے ہوئے تھے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ محکمہ زکوة و آمدنی نے جو انتباہ جاری کیا تھا اسے تجارتی مراکز نے مدنظر رکھا۔ صارفین کو ڈر تھا کہ بل تیار نہیں ہونگے۔ تجارتی مراکز کی تیاری نے باور کرادیا کہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی وصولی ہدف سے زیادہ ہی ہوگی۔
دوسری جانب موصولہ رپورٹوں سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ تاجروں کی تیاری کا دائرہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس بل تیار کرنے تک محدود نہیں رہا بلکہ انہوں نے اشیاءکے نرخ بڑھا دیئے۔50فیصد سے زیادہ نرخ بڑھائے گئے۔ بعض تاجرو ں نے 100 فیصد نرخ بڑھائے۔ دعویٰ یہی کیا گیا کہ سب کچھ ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا نتیجہ ہے حالانکہ ٹیکس کے نفاذ کے وقت تمام تجارتی اداروں کے گودام پہلے سے خریدے ہوئے سامان سے بھرے ہوئے تھے۔ وزارت تجارت کے اہلکاروں نے 6ہزا ر سے زیادہ چھاپے مارے، 247خلاف ورزیاں ریکارڈ کیں۔ ہزاروں شکایات پر کارروائی کی۔سچ یہ ہے کہ تاجروں نے ان سب کے باوجود جو پہلے سے ہی ذہنی اور عملی طور پر تیار تھے ایسے کافی کام کئے جن پر وہ احتساب کے حقدار بنتے ہیں۔لہذا وزارت تجارت و سرمایہ کاری کی ذمہ داری ہے کہ اسے ملک کے مفاد پر اپنے مفادات کو ترجیح دینے والے تاجروں کی سرزنش اور مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کیلئے مزید اقدامات کرنا ہونگے اور استحصالیوں کو لگام لگانے کیلئے بہت کچھ کرنا ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭