Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تعلیم،موبائل سے منسلک کر دیتے تو نسل نو بھی اسمارٹ ہوتی

آج ترقی کی گاڑی ہو نہ ہو اسٹارٹ، بس فون چاہئے اسمارٹ
تسنیم امجد۔ریا ض
  تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس کا تعلق فرد اور معاشرہ دو نو ں سے ہے ۔اسکول کی چہار دیواری میں ہی بچو ں میں مسا بقتی ر حجان اور مستقبل کی تر بیت کا بیج بو یا جاتا ہے ۔نظم و ضبط اور ما حول بچپن سے ہی شخصیت کا حصہ بنتا ہے پھر وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ معاشرے میں اپنا مقام متعین کر سکے ۔بچپن کی تر بیت دو سرو ں کے حقوق پہچا ننے اور ان کے ساتھ تعاون کے قابل بناتی ہے ۔تمام ما ہرینِ تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ ا سکول خود ایک چھو ٹی سی دنیا ہے ۔اولاد اور اس کا اچھا مستقبل ہر ہو شمند کی فطری خواہش ہے ۔امیری ،غریبی ،تو نگری و گدائی ، نظامِ قدرت ہے ۔افسوس تو یہ ہے کہ ہم نے ہر قسم کے حالات کا مقا بلہ کیالیکن مثبت راہوں کا انتخاب نہ کر سکے ۔
یہ حقیقت تو سبھی کو معلوم تھی اور ہے کہ تعلیم کا میابی کی کنجی ہے۔ یہ وہ پہلی سیڑ ھی ہے جس پر پہلا قدم رکھنے وا لے آ گے بڑ ھتے چلے جاتے ہیں ۔آزادی کے بعد ہمارا اولین ہدف یہی ہو نا چا ہئے تھا کہ تعلیمی سہو لتو ں پر بھر پور تو جہ دی جا تی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔تعلیم کو معیاری بنانا تو دور کی بات ، ہم نے اسے کا روبا ر بنا کر پیسہ بٹورنا شروع کر دیا۔
آج ہمارے ہاں بھوت اسکو لو ں کا را ج ہے ۔ذرا سوچئے کہ یہ سلسلہ کیا معنی رکھتا ہے ؟قوم کے معماروں کے ساتھ یہ کیسا مذاق ہے ؟ تعلیم کی تر قی کے نام پر کا غذی کارروائیاں بہت ہو ئیں ۔پا لیسیا ں بنیں اور الیکٹرانک میڈیا پر پرو پیگنڈا بھی خوب کیا گیا ۔عملی طور پر کرو ڑو ں کے بجٹ منظور ہو ئے ،درجنوں کمیشن اور کمیٹیا ں بھی بنا ئیں گئیں لیکن خواندگی کا تنا سب کتنا بڑ ھا اور قوم کس قدر مستفید ہو ئی، یہ سب کے سامنے ہے ؟ناخواندگی کی شرح میں کمی نہیں ہوپائی مگر اس کے باوجود ہمارے کرتا دھر تا ﺅں کے کان پر جو ں تک نہیں رینگتی ۔ایسے ہی نہ گفتہ بہ حالات سے مجبور ہر کر کسی شاعر نے کہا ہوگا کہ : 
ہم درد سنا ئیں تو سنا ئیں کسے دل کا 
سن سکتے ہیں جو درد ، وہ انجان بہت ہیں
وطنِ عز یز کی زیادہ تر آ بادی متو سط اور غریب ہے جو سر کا ری اسکو لو ں میں بمشکل بچو ں کو بھیجتی ہے ۔اکثرسرکاری اسکولوں کا ما حول اس قدرغیر معیاری ہو تا ہے کہ وہاں شخصیت کی تعمیر کی بجائے تحقیر کا مکمل اہتمام کیا جاتا ہے ۔ما ضی میں جب کسی طمع کے بغیر فرا ئض کا احساس کیاجاتا تھا ۔اس وقت یہی اسکول کسی نعمت سے کم نہیں تھے ۔یہ چہار دیواریاں معیاری تعلیم کی پہچان ہوا کرتی تھیں ۔یہاںدرس و تدریس کے ساتھ ساتھ ذہنی و فکری آ بیاری بھی ہو تی تھی ۔طلباءاسا تذہ کا دل سے ا حترام کرتے تھے اور دلجمعی سے حصول علم میں مگن دکھائی دیتے تھے ۔والدین اور اساتذہ ،دو نوں ہی قربانی و شفقت کے جذبے سے معمور ہو تے تھے ۔ان کے سامنے یہی ہدف ہوتاتھا کہ ان کی اولاد پڑھ لکھ جائے ۔
ماضی میں استاد کا رتبہ بہت بلندسمجھا جاتا تھا۔آج کی طرح استاد اور طالبعلم کا کا رو باری تعلق نہ تھا ۔یہ اسکول ٹاٹ اسکول ہی تھے لیکن کیا مجال کہ والدین کو شکایت ہو ۔ حصولِ علم ہی مقصد تھا ۔ ان اسکولوں سے فا ر غ ا لتحصیل ہونے والے تعلیمی میدان میں ممتاز مقام حاصل کرتے اور بڑے بڑے عہدوں پر فا ئز نظر آ تے تھے۔تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے تعلیم پر تو جہ دی ،وہ ترقی کی منزل تک پہنچ گئی۔
ہمارے ملک میں سب سے زیادہ نظر اندازہونے والا شعبہ تعلیم ہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آ ج کا طالب علم بھی لا پروا ہو چکاہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال60 لاکھ سے زائد بچے اسکول کی شکل ہی نہیں دیکھ سکتے ۔دیہی علاقوں میں اسکو لو ں کے نام پر قائم عمارتوں میں با ڑے ،ا صطبل اور کہیں منشیات فرو شو ں کے محفوظ ٹھکانے موجودہیں۔اس پر جتنی بھی بات کی جائے، کم ہے۔ بقول شاعر:
درو دیوار پہ حسرت سی بر ستی ہے یہاں
جانے کس دیس گئے ریت نبھا نے والے
اس کے بر عکس جہاں تک مو بائل فون کمپنیو ں کا تعلق ہے تو بقول شخصے ان کی پا نچو ں انگلیاں گھی میں ہیں ۔انہیں یہ چھوٹ دینے والے کون ہیں؟ قوم کے بچو ں کو اس شوق میں اس قدر پھنسا دیاکہ انہیںبس یہی دھن ہے کہ ترقی کی گاڑی ہو نہ ہو اسٹارٹ، بس فون ہونا چاہئے اسمارٹ۔ انہیں اور کچھ بھاتا ہی نہیں ۔اے کاش کہ ہمارے صاحبان اختیار قوم کے معماروں میں اسمارٹ فون کی طلب جیسا جنون تعلیم کے حوالے سے بھی پیدا کرتے تاکہ وہ اسی طرح اٹھتے بیٹھتے، آتے جاتے ، سوتے جاگتے حصول علم میں مگن رہتے ۔ آج ہماری نئی نسل موبائل کی عاشق اورسوشل میڈیا کی دھتی ہو کر رہ گئی ۔ یہ وہ لت ہے جسے ترک کرنا بھی ناممکن ہو رہا ہے ۔
سو شل میڈیا کے شیدائی کہیں کے نہیں رہتے ۔ یہ قوم کو ذہنی طور پر بیمار کرنے کا اچھا طریقہ ہے ۔ترقی کے اس دور میں ہم کسی سے پیچھے نہیں رہنا چا ہتے لیکن اپنی اولین ذ مہ داریو ں کا ادراک بھی تو ضروری ہے ۔تعلیم ایک ایسی خوراک ہے جس کے بغیر زند گی کا تصور محال ہے ۔ہماری نسلِ نو نے کھویا زیادہ اور پایا کم ۔اگر محکمہ تعلیم شروع ہی سے اسمارٹ فون جیسی ایجاد اور نسلِ نو کا ر حجان پرکھتے ہوئے تعلیم کو موبائل فون کے ساتھ منسلک کر دیتے تو آج صرف فون ہی نہیں بلکہ ہماری نسل نو بھی اسمارٹ ہوتی ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہمارے آج کے بچے بہت چست و چالاک ہیں۔عالمگیر تبدیلیو ں نے ان کے اذہان پر مثبت و منفی دونوں قسم کے اثرات مرتب کئے ہیں۔یہ تبدیلی کے خوا ہا ں ہیںلیکن ہمیں نہایت چابک دستی اور احتیاط کے ساتھ انہیں صراطِ مستقیم پر چلنے پر آمادہ کرنا ہے ۔
اسمارٹ فون جیسی ٹیکنا لوجی نے ہمارے نوجوانوں کی روا یتی زندگی تباہ کر دی ہے ۔نسلِ نو اپنی پہچان کے در پے ہے ۔اس بیگا نگی کے ذمہ دار ہم ہی ہیں۔ہماری معا شرتی و ا خلاقی اقدارمغرب سے الگ ہیں۔جو ان کے لئے تفریح ہے وہ ہمارا اخلاقی دیوا لیہ پن ہے لیکن آج کا طالبِ علم الیکٹرک تا رو ں کے ساتھ جیتا اور مرتا دکھا ئی دے رہا ہے ۔ہیڈ فون بستے کا حصہ بن چکا ہے ۔کاش اس سلسلے میں کوئی ایسی تبدیلی لائی جا ئے کہ سانپ بھی مر جائے اور لا ٹھی بھی نہ ٹو ٹے۔
کل ہی کی بات ہے، ایک بڑے میا ں بڑ بڑا رہے تھے کہ آج کے جوان آ ئی ٹی کی ایجا دوں کو ہاتھ میں تھامے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم زیادہ عقلمند ہو گئے ہیں۔ارے پہلے جیسی زندگی کہا ںرہی ۔راز ،راز ہی رہتے تھے ۔محبتو ں کی آکاس بیل بھی آ نچل کے سائے میں ہی پروان چڑھتی تھی ۔آج سا ئبر کرائم کی دنیا وسیع سے وسیع تر ہو تی جا رہی ہے ۔آ ئی ایم ایس آ ئی نامی گیجٹ سے وار دا تیں ہو رہی ہیں لیکن ہماری سنے کون ؟ بچے بچے کے ہاتھ میں فون دے کر ہم سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے اولاد کی تر بیت میں کوئی کمی نہیں چھو ڑی ۔
یہ سب سن کر ہمیں احساس ہوا کہ ان کا کہنا سو فیصد درست ہے ۔ہم نے ان ایجادوں کو اپنی زندگی سمجھ لیا ہے ۔بڑوں نے صحیح کہاہے کہ ”جہالت غربت کی ما ں ہو تی ہے“ اسی لئے ہمارے عوام کی معاشی حالت غیر ہے ۔تعلیم ہو تی تو یہ اپنے لئے کچھ نہ کچھ ذ ریعہ¿ معاش سوچ لیتے ۔تر قی یا فتہ ممالک غربت کی جنگ تعلیم کے ہتھیار سے لڑتے ہیں ۔ہمارے ہاں مختلف قسم کے طبقاتی تعلیمی نصاب مو جو د ہیںجنہوںنے معا شرے کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے ۔وطن میں نظامِ تعلیم میں ا صلا ح کر کے ہر ایک کے لئے یکسا ں نظام لانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ معا شرہ اس طبقاتی کشمکش سے نجات حا صل کرسکے ۔مسلمانو ں نے سائنسی میدا نو ں میں بھی ترقی کے جھنڈے خوب گاڑے ہیں ۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ :
عروجِ آ دم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں 
کہ یہ ٹو ٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
کیا ہی اچھا ہوتا اگر مو بائل ٹیکنا لو جی کے ذریعے تعلیم کا بھی کو ئی را ستہ ڈھو نڈ لیا جاتا ۔آج دنیا سمٹ کر گلو بل ولیج بن چکی ہے۔ اس لئے دوسروں سے استفادہ آ سان ہو چکا ہے ۔ایسے میں یہ نا ممکن نہیں تھا کہ اپنے نظام ِ تعلیم کو مو بائل کی دنیا سے منسلک کر کے تعلیم میں انقلاب لایاجائے ۔ہمیں نسلِ نو کو یہ باور کرانا ہے کہ وطن کی عظمت کی ذمہ داری ان کے کاندھو ں پر ہے ۔ہماری تاریخ ہمارے اسلاف کے پر شکوہ کار نامو ں سے سجی ہے ۔اس کی شان کے وہ محافظ ہیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب وہ تعلیم کی دولت سے مالا مال ہو ں۔
 

شیئر: