محمد خضر عریف ۔ المدینہ
سعودائزیشن کو یقینی بنانے کیلئے قابل قدر کوششیں ہورہی ہیں۔ مختلف پیشوں اور تجارتی سرگرمیوں کو سعودی خواتین اور مردوں کیلئے مختص کردیا گیا ہے۔ صحت اداروں اور صحت خدمات کے شعبوں کی سعودائزیشن کا سلسلہ بھی امیدافزا ہے۔ ایسے بہت سارے پیشے اور بہت سارے کام سعودیوں کیلئے مختص کردیئے گئے ہیں جن کی مکمل سعودائزیشن وقت کا تقاضا ہے۔ منظر نامہ یہ بن رہا ہے کہ غیر سعودیوں کی خدمات کا دائرہ انتہائی تکنیکی اور پیشہ ورانہ شعبوں تک محدود ہوکر رہ جائیگا۔ سعودی شہریوں کو بھی اس قسم کے شعبوں میں کام کرنے کا موقع مہیا ہوگا۔ اس قسم کے قومی اقدامات کا مقصد سعودیوں میں بے روزگاری کی شرح انتہائی حد تک کم کرنا ہے۔ سعودی عوام جذبہ صادق رکھتے ہیں کہ مملکت کی خدمت ہم وطن ہی کریں۔ تمام پیشوں اور جملہ سرگرمیوں کا بوجھ سعودی شہری ہی اٹھائیں لیکن یہ بات آجروں کو پسند نہےں آتی۔اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ سعودی کارکنان کی کارکردگی کے حوالے سے خدشات کا شکار ہیں ، ویسے عام تاثر یہی دیا جاتاہے۔ حقیقی سبب یہ ہے کہ بہت سارے تجارتی مراکز ، فیکٹریوں ، کارخانوں اور کمپنیوں کے مالکان سعودی نہیں ۔اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ بیشتر مالکان غیر ملکی ہیں اور سعودی تجارتی مراکز ، فیکٹریاں، کارخانے اور کمپنیاں مقامی شہریوں کے نام سے کھولے ہوئے ہیں۔ اس بات کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ بعض تجارتی مراکز پر آویزاں بورڈ پر سعودی مالک کا نام تحریر ہوتا ہے جبکہ کہیں کہیں حقیقی مالک کا نام بھی بوجوہ تحریر کردیا جاتا ہے۔تجارتی مراکز کا سارا لین دین غیر ملکی کرتے ہیں۔سارے سودے وہی نمٹاتے ہیں ، ملازمین کی تقرری اور برطرفی کے فیصلے وہی صادر کرتے ہیں۔ سعودی کا کام دستخط کرنا یا انگوٹھا لگانا ہوتا ہے۔ اسے یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ وہ جس کاغذ پر دستخط کررہا ہے یا انگوٹھا لگا رہا ہے اس میں لکھا کیا ہے؟۔ آیا وہ دستاویز اس کے حق میں ہے یا اس کے خلاف ۔ بسا اوقات انجانے میں وہ لاکھوں ریال کا بوجھ اپنے ذمے لے لیتا ہے۔ اسے پتہ تک نہیں ہوتا۔ اس کا بھانڈا اُس وقت پھوٹتا ہے جب حقیقی غیر ملکی مالک مملکت کو خیر باد کہہ کر مملکت سے وطن چلا جاتا ہے اور واپس نہیں آتا۔ اس وقت بہت سارے لوگ قرضوں کی بازیابی، ٹھیکوں کی تکمیل ، سودوں کی رقمیں لینے کیلئے تجارتی مرکز سے رجوع کرتے ہیں تو جھوٹ موٹ کے سعودی مالک کو پتہ تک نہیں ہوتا اور اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔معاملات عدالت تک پہنچتے ہیں اور سعودی شہریوں کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔ اس قسم کے واقعات ایک دو نہیں ہزاروںکی تعداد میں ہیں۔ہزاروں شہری اب بھی جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں کیونکہ وہ اپنے ہم وطنوں کے وہ مطالبات پورے نہیں کرسکتے جنکا ذمہ دار بنا کر انہیں غیر ملکی تاجر مملکت چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
میں ایک بار پھر اپنے قارئین کو یہ بتانا چاہونگا کہ سعودیوں کے نام سے قائم غیر ملکیوں کے ادارے کسی بھی وقت ناگہانی بلا کے طور پر سعودیوں کے سروں پر گر سکتے ہیں۔ ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ ایک خاص ملک کے لوگ تجارتی مراکز پر چھائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے ہم وطنوں ہی کو ملازمتیں دیتے ہیں۔ حقیقی مالک ہونے کے ناتے فیصلے کا اختیار وہی رکھتے ہیں ۔ انہیں سعودی شہریوں اور ان کے حال و مستقبل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ انہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ وہ جس سرزمین سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ،جس سرزمین نے انہیں کمانے اور بننے بنانے کا موقع دے رکھا ہے، اس کے باشندوں کو ترجیحی بنیادوں پر روزگار کی فراہمی میں حصہ لیں۔
تجارتی مراکز ، کارخانوں اور مختلف اداروں کے حقیقی غیر ملکی کارکنان کی واحد دلچسپی یہ ہوتی ہے کہ جتنا وہ کمائیں پہلی فرصت میں اسے اپنے وطن بھجوادیں۔جہاں تک نام نہاد سعودی مالکان کا تعلق ہے تو ان کی واحد دلچسپی یہ ہوتی ہے کہ ہر ماہ ان کی جیب میں چند سکے پہنچ جائیں۔ انہیں اس بات کی بھی غیر ت نہیں آتی کہ جو ادارہ ان کے نام سے چل رہا ہے اس کا حقیقی مالک غیر ملکی ہے ، وہی آجر ہے اور نام نہاد مالک اجیر کی پوزیشن پر راضی ہے۔
کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس آفت کا اصل قصور وار غیر ملکی ہے تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہم یہ بھی اعتراف کریں کہ اس سے بڑا قصور وار ، گنہگار بلکہ آفت کا خالق خود سعودی شہری ہے۔ وہی ہے جو اپنے قومی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے آنکھیں موندے ہوئے ہے،اسے اپنے وطن اور ہموطنوں کے مفاد سے کوئی دلچسپی نہیں لہذا سعودیوں کے نام سے غیر ملکیوں کے کاروبار کے خلاف زبردست مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ غیر ملکیوں کو اپنے نام سے کاروبار کرانے والوں سے آہنی پنجے سے نمٹنا ہوگا، ادارے بند کرنے ہونگے، غیر ملکی کاروباریوں کو بیدخل کرنا ہوگا۔ یہ ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭