حیدرآباد- - - - - - مولانا محمد ولی رحمانی جنرل سیکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بور ڈ کے 26ویں اجلاس میں اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کا اول دن سے یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ جہاں ایک بار مسجد بن جاتی ہے وہ فرش تا عرش قیامت تک مسجد ہی رہتی ہے اور بابری مسجد کی جگہ بھی مسجد کے حکم میں ہی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت سے اب تک کئی نازک مرحلے آئے اور افواہوں کا بازار بھی گرم ہوا۔ ملی قیادت پر مختلف طریقوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشتیں بھی کی گئیں۔ زعفرانی میڈیا نے بھی اس میں خوب مرچ مصالحہ ملا کر فضا کو مسموم کرنے کی کوشش کی لیکن سبھوں کی بالغ نگاہوں نے حسن تدبیر کے ساتھ اس منصوبہ کو ناکام بنایا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد بابری مسجد کا معاملہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے مختلف دینی و ملی تنظیموں کے اصرار پر اپنے ہاتھ میں لیا اور اُس وقت سے اب تک بورڈ نے مختلف دینی و ملی تنظیموں کے اصرار پر اپنے ہاتھ میں لیا اور اس وقت سے اب تک بورڈ اس کی قانونی پیروی کر رہا ہے۔ 30ستمبر 2010ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ کے فیصلہ کے بعد مسلم پرسنل لا بورڈ نے مجلس عاملہ منعقدہ 16اکتوبر 2010کی تجویز کے مطابق ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا اور بورڈ نے اول دن سے کوشش کی کہ سپریم کورٹ میں جوجواب داخل کیا جائے اس میں کئی اپیلیں داخل کی جائیں چنانچہ اس معاملہ کے سب سے قدیم ترین فریق حافظ محمد صدیق کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے 7اپیلیں داخل کروائیں جو اس وقت زیر سماعت ہیں۔ ان اپیلوں کی سماعت کیلئے منظوری کے بعد پہلی پیشی کی تاریخ 5دسمبر 2017ء کو طے ہوئی تھی پھر اگلی تاریخ 8فروری 2018ء طے ہوئی۔ مولانا نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ یہ انتہائی نازک گھڑی ہے اور بہت سوچ کر اور سنبھل کر کاموں کو انجام دینے کی ضرورت ہے۔ ہند اور اس کا جمہوری ڈھانچہ اس وقت کس رخ پر جار ہا ہے،اس سے سبھی واقف ہیں۔ حالیہ دنوں میں عدالت عظمیٰ کے واقعات نے بھی اس کا ایک حد تک رخ متعین کردیا ہے اور ایسا اس لئے ہو رہا ہے کہ حکمراں جماعت کسی بھی طرح 2019ء سے پہلے پہلے اس معاملہ کو حل کر لینا چاہتی ہے جبکہ عدالت عظمیٰ کی صورتحال یہ ہے کہ پرانے قانونی دستاویزات کے ہزاروں صفحات اردو اور فارسی میں ہیں جن میں بعض کے ترجمے ہوئے ہیں تومعزز ججوں کے پاس مطالعہ کا وقت نہیں اور بعض کے ابھی ترجمے بھی نہیں ہوئے۔ اب اندازہ لگائیے کہ قدیم دستاویزات کے مطالعے کے بغیر یہ انصاف کہاں تک انصاف کہلائے گا۔ عدالت کی جلد بازی سے بھی لوگوں کی سمجھ میں اب آرہا ہے کہ عدالتیں بھی کس رخ پر کام کرنا چاہتی ہیں۔ ہم سب کی دینی ، ایمانی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اس کیلئے دعاؤں کا کثرت سے خود بھی اہتمام کریں اور اپنے حلقۂ اثر میں بھی اس کا اہتمام کرائیں اور یہ اطمینان رکھیں کہ آپ سب کا یہ بورڈ آج بھی اپنے موقف پر پوری شدت کے ساتھ قائم ہے۔ سب ہی کے دامے درمے سخنے تعاون و اتحاد کی بناء پر عدالت عالیہ میں مضبوط قانونی پیروی شروع سے کرتا آیا ہے او ران شاء اللہ آگے بھی اسی مضبوطی کے ساتھ کرتا رہے گا۔