ہماری ثقافت انتہائی متنوع ہے ، ہم نے اس کی قدر ہی نہیں کی
تسنیم امجد ۔ریا ض
وطن عزیز میں گھریلو صنعتیں دیہی علا قو ں میں بڑی تعداد میں ہیں ۔اپنی مدد آپ کے تحت یہ لوگ اپنے تمام کام کر لیتے ہیں یعنی یہ اپنے بل پر خود انحصاری کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ہاتھ سے بنے ہوئے رگ اور قالین بین ا لا قوامی سطح پر پسند کئے جاتے ہیں ۔اسی طرح وطن کا کپڑا خصوصی طور پر کا ٹن یعنی سوتی کپڑے کی بہت ما نگ ہے ۔ان میں زیادہ پسندکئے جانے والے کھیس ،کھدر ،سوسی ،چنری ،بو سکی ،کرنڈی شال اور اجرک ہیں ۔ان کے خو بصورت رنگ جن میں رو ا یت کی جھلک ہو تی ہے ،بہت پسند کئے جا تے ہیں ۔اسی طرح ایمبرائیڈری ، ہاتھ کی کڑ ھائی کی بھی مانگ ہے ۔خواتین سوئی سے بہت خو بصورت با ریک ریشم سے ریشمی کپڑے پرکڑ ھا ئی کرتی ہیں ۔
سونے اور چا ندی کے زیورات بنانے والے ہنر مندوں کا بھی جواب نہیں ۔وہ اپنے روایتی زیورات بنا کر انہیں شہروںمیں فروخت کر کے کسی نہ کسی حد تک روزگار کما لیتے ہیں ۔
حال ہی میں ایک جاننے والے شخص کو دیکھا جو مو ٹر سا ئیکل پر بیگ لادے لاری اڈے جا رہا تھا ۔پٹرول ڈلوانے رکا تو بھیڑ کے دوران اس سے گفتگو ہو ئی۔کہنے لگا کہ میں اور میرا بھائی بر سو ں سے یہی کام کرتے ہیں ۔سفید اور چکنی مٹی سے بنائے ہوئے ہمارے یہ روایتی پیا لے ،پلیٹیں،جار اور کھلونے جن پر ہم ہاتھ سے رنگ اور پھول بو ٹے بناتے ہیں ،اس کے علاوہ ٹا ئیلیں بھی خا صکر نیلے اور سفید رنگ کی زیادہ پسند کی جاتی ہیں ۔انہیں ذیادہ تر مسجدوں کی محرابو ں پر لگا یا جا تا ہے ۔ان سب کی بہت مانگ ہے ۔شہری لو گو ں کے علاوہ سیاح انہیں دیکھ کر ضرور خریدتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ہمارے گھر میں یہ سجے ہوئے ہیں۔جب بھی پا کستان آ نا ہو تا ہے سب یہی منگواتے ہیں ۔
وادی سوات کے کا ریگر لکڑی کے کام میں ما ہر ہیں ۔پتھر کی آ را ئشی اشیاءکی مانگ بہت ہے لیکن بد قسمتی سے یہ صرف ائیر پو ر ٹس پر دیکھی جا تی ہیں وہ بھی بہت مہنگے دامو ں میں ۔خطاطی کے فن میں ہمارا دا من عظیم ما ہرین کے مثالی فن پا رو ں سے ما لا مال ہے ۔گلگت اور سوات کی اونی پٹی شا لیں اور گاﺅن ،پنجاب اور سر حد کی پھلکاری ،خیر پور ،بہا ولپور اور ملتان کی چھپی ہو ئی چا دریں فنکار ہا تھو ںکا کمال ہوتی ہیں۔ اگر ان کی سرکاری سرپرستی کی جائے تودنیا بھر میں ان کی مانگ بھی بہت زیادہ ہو سکتی ہے ۔اس کے علاوہ گھریلو خواتین بھی نت نئے ڈیزا ئنو ں سے مو تی ستا رو ں کا کام کر تی رہتی ہیں لیکن ان بیچا ریو ں کو اجرت بہت ہی کم ملتی ہے ۔
ایک خاتون کا کہنا ہے کہ میری آ نکھیں دکھنے لگی ہیںلیکن اجرت اتنی کم ہے کہ اپنی دوا بھی نہیں لے سکتی ۔بڑی مشکل سے چو لہا ہی جلتا ہے ۔اکثر کہا جاتا ہے کہ ان چھوٹے پیمانے کی انڈسٹریز کا جی ڈی پی میں حصہ صرف پانچ فیصد ہے ۔ہمارے لئے بچت کرنا ممکن ہی نہیں۔ ہمارے توروزانہ کے ا خراجات ہی بمشکل پورے ہو تے ہیں۔
ہماری متنوع اور صد رنگ ثقافت صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ بے شمار ایسی اشیاءہیں جنہیں متعارف کروا کر ہم اپنے زرِ مبادلہ میں ا ضافہ کر سکتے ہیں۔اس طرح بیروز گاری میں بھی کمی ہو گی اور وطن کا نام بھی روشن ہو گا ۔دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر میں خاتون جن سر کنڈوں سے چنگیر بنا رہی ہے ان سے ہی بنے ہو ئے مو ڑھے کرسیا ں اور میز اپنی مثال آپ ہیں ۔بیرونِ ملک انہیں بہت پسند کیا جاتا ہے ۔ان چنگیروںکو وہاں ہو ٹلو ں کی دیوارو ں پر بھی سجایا جاتا ہے ۔لان میں رکھے یہ بہت خو بصورت دکھائی دیتے ہیں ۔ان دستکا ریو ں کے علاو ہ و طن میں بے شمار اشیا ءایسی ہیں جو معیشت کے لئے سونے سے کم نہیںلیکن افسوس ہم نے اپنی ثقافت کی قدر ہی نہیں کی بلکہ دوسروں کی ثقافت کے پیچھے بھا گتے رہے۔ہم پر تو یہ کہاوت صادق آ تی ہے کہ” گھر کی مر غی دال برابر۔“
ہماری کھانے پینے کی اشیاءکی بھی بہت مانگ ہے ۔مختلف شربت اکثر ڈھو نڈنے سے ملتے ہیں جبکہ ماہِ رمضان مبارک میں ان کی مانگ بڑ ھ جاتی ہے ۔اسی طرح خواتین کے سنگھار کی اشیاءبہت خراب کوا لٹی کی باہر بھیجی جاتی ہے ۔چو ڑی دار پاجامے ڈھو نڈنے سے نہیں ملتے ۔ہا ں انڈیا اس سلسلے میں آ گے آگے ہے ۔اس نے اپنی مار کیٹو ں کا سلسلہ اس طرح سے بنا یا ہے کہ پا کستانی بھی وہاں نا یا ب اشیا ءکی تلاش میں جاتے ہیں ۔ہر قسم کے پا جا مے اور کھانے پینے کی اشیا ءوہا ں دستیاب ہیں۔ اس طرح ملکی معیشت میں وہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔
ہماری معیشت کا انحصار زراعت پر ہے کیو نکہ ہم ”ایگریریئن سوسائٹی “ کے با سی ہیں اس لئے ہمیں اس کے نام کی لاج رکھنی چاہئے ۔بالوا سطہ طور پر 79 فیصد آ بادی کے روز گار کا انحصار زراعت پرہے ۔زر مبادلہ کی 70فیصدآمدنی اسی شعبے سے منسلک ہے ۔ زمینداروں کو چھو ڑ کر یہ آ بادی نا قا بلِ بیان حد تک تنگ دستی کی زندگی گزار رہی ہے ۔یہ لوگ پختہ سڑ کو ں ،تار ،ٹیلیفون اور ٹرانسپو رٹ کی سہولتوں سے بھی محروم ہیں ۔فصلیں پڑی پڑی خراب ہو جا تی ہیںیا مو سمی حالات کی نذر ہو جا تی ہیں ۔اس کا اثر صنعتی شعبے پر پڑ تا ہے ۔بظا ہر ہم ٹیکنا لو جی میں تر قی کر چکے ہیں لیکن اس کا استعمال منفی سمت زیا دہ ہے ۔وقت کے ضیا ع نے مسائل کو ہوا دی ہے ۔ اپنے وسائل سے بھر پور استفادہ کرناہماری ذمہ دار یو ں کا حصہ ہے ۔ہمارے فروٹ و سبزیاں بہت پسند کی جاتی ہیں۔موسم گزرنے والا ہو تا ہے تو پھر پردیسیوں کو ان کی شکل دیکھنا نصیب ہو تی ہے ۔اس پر ظلم یہ کہ بہت مہنگے داموں فروخت ہو تی ہیں جس کی وجہ سے کم بھی بکتی ہیں ۔کھانے پینے کی دیگر اشیا ء اورمصالحہ جات بھی بہت ڈھو نڈنے سے ملتے ہیں۔
ہماری متنو ع صد رنگی ثقافت چند اشیاءتک محدود نہیں ۔اس کی فہرست طویل ہے ،کچھ کا ذکر کرتے ہیںمثلاًکا نجی ،مر نڈا ،گجک ،تلوں کے لڈو،ہر قسم کے حلوے ،مر بے اورانواع و اقسام کے بے شمار پھل۔بیرون ملک صرف کچھ دیر کے لئے آم ہی دیکھے جاتے ہیں۔ہم نے اپنی ثقافت کو کہیں قید کر ڈالا ۔نہ جانے اس کا مقصد کیا ہے ۔ہم اپنی مصنوعات کی سر پر ستی کی بجائے غیرو ں کی مصنو عات کو تر جیح دینے پر تلے ہیں۔ہنر مندو ں کی قدر نہیں کی جا تی ۔نا قص منصوبہ بندی کا رونا بر سو ں سے رویا جا رہا ہے ۔تشکیلِ نو کی طرف تو جہ ہی نہیں۔نسلِ نو سے ہمیں ڈھیروں شکا یتیں ہیں لیکن کیا ہم نے سو چا کہ ورثہ نسل در نسل چلتا ہے، اس کی آ گہی دی جا تی ہے ۔روا یات و ثقا فت کا طمطراق سے قائم رہنا ہی قو مو ں کی پہچان ہے۔کاش ہمارے قا ئدین اور عوامی رہنما ملکی مصنو عات کے استعمال اور ان کی بیرونِ ملک ترسیل پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں تاکہ کسی نہ کسی بہانے معا شی ترقی میں اضافہ ہو اور شرح غربت میں کمی آ سکے ۔کاش ہم اپنی ثقافت کو پہچان سکتے کہ یہ سو چنے ،سمجھنے،محسوس کرنے ،عمل کرنے اور اپنانے کا نام ہے ۔ملکی ترقی میں پورے معاشرے کا ہا تھ ہوتا ہے ۔عوام مل جل کراس سلسلے میں اپنا اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔