غیر شادی شدہ کچے ذہن کے لڑکے لڑکیاں کس رخ پر چل رہے ہیں؟ کیا ہمیں مغرب کی آزادی اور بیجا حجابانہ روش کی تباہی کا اندازہ نہیں
مسز زاہدہ قمر۔ جدہ
کیا کسی دن سُنا ہے کہ۔۔۔۔
ٌ ایک ہندو نے رمضان کے روزے پورے عقیدت و احترام سے رکھے؟
ایک عیسائی نے عیدالاضحی پر گائے کی قربانی پورے مذہبی جوش و جزبے سے کی؟
ایک یہودی نے عیدالفطر اسلامی تعلیمات کے ساتھ منائی؟
ایک سِکھ نے اپنے والد کے لئے بہت عزت و احترام و عقیدے کے اخلاص کے ساتھ ختم قرآن کروایا۔
یا پھر عیدالاضحی کے آنے سے پہلے غیر مسلموں میں قربانی کے لئے حلال جانوروں کی خریداری شروع ہو گئی اور یہ کہ تمام مغربی ممالک میں غیر مسلم لڑکے لڑکیاں عیدالفطر منانے کے لئے پورے جوش و خروش سے چوڑیوں ، عید کارڈ، مہندی لگوانے کے مراکز وغیرہ پر رش نا قابل بیان حد تک بڑھ گیا؟؟؟
نہیں ناں؟؟
توپھر مسلمان ممالک میں کیسے ایک انتہائی قبیح شرمناک رسم پروان چڑھ گئی ؟ ویسے تو ہم مدر ڈے اور فادر ڈے، مے ڈے وغیرہ منانے کے عادی ہو ہی گئے تھے اگرچہ ہمارے مذہب نے ان تمام افراد کے لئے جن کے ڈے ( (Daysہم مناتے ہیں ایک پورا ضابطہ ء حیات اور ہمیشہ کا احترام کا درس دیا ہے والدین کے دن منانے کے بجائے انہیں تمام ذندگی عزت اور خدمت کی تعلیمات دی گئی ہیںماں کے پیروں تلے جنت اور باپ کی رضامندی اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے برابر قرار دی گئی ہے۔ ان کی تا عمر خدمت کے احکامات جا بجا قرآن و حدیث میں ملتے ہیں اس لئے کہ ایک دِن منا لینے سے و الدین کی خدمات و محبت کا حق ادا نہیں ہو سکتا اسی طرح محنت کرنے والوں کو اللہ تعالٰ نے اپنا دوست قرار دیا ہے اوراس کا پسینہ خشک ہونے ہے پہلے اُجرت ادا کرنے کا حکم ہے۔ اس کی عزت و احترام ہم پر فرض ہے۔
مگر ہم نے پھر بھی مغربی روایت اپنا کر اپنے تمام فرائض کو ایک دِن منا کر پورا کر دینا کافی سمجھ لیا اور مطمیئن ہو گئے ۔ اب یہ غفلت یا اغیار کی پیروی ہماری روایات، تہذیب و تمدن کی جڑیں کاٹنے کے لئے پوری طرح ہماری ہماجی بنیادوں میں سرائیت کر رہی ہے۔ یہ میٹھا، خوبؔصورت اور مسحور کن زہر ویلنٹائن ڈے کی صورت میں ہماری مذہبی اور سماجی ذندگی کی شرم و حیا کو پوری طرح ختم کر دینے کے لئے ہم نے خودس اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ہے۔
یہ شیطانی جال اس قدر مضبوط ہے کہ ہماری آنیوالی نسل پوری طرح اس کے نرغے میں پھنس چکی ہے اس روایت یا رسم میں اسقدر کشش ہے کہ نوجوان لڑکے کڑکیاں اس کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں ۔ فرروری کا مہینہ آتے ہی ہر طرف سُرخ رنگ کے پھول ، دل کی شکل کے کارڈ، غبارے، ٹیڈی بیرز لاکٹ، کی چین، غرض طرح طرح کی اشیاء دکھائی دیتی ہیں بازاروں سے سُرخ گلاب غائب ہو جاتے ہیں کیونکہ لوگ اپنے اپنے ویلنٹائن کے لئے اسے پہلے سے بُک کر لیتے ہیں۔ باطل کو پھیلانے کے لئے مسلمان کتنی زیادہ دولت ضائع کرتے ہیں چھوٹے چھوٹے ٹھیلے اور دکانوں پر بیٹھنے والوں تک کو اس دِن کا معلوم ہے چھوٹی چھوٹی آرائشی اشیاء تک پیچنے والے ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے دل کے شکل والی اشیاء اور ڈیکوریشن پیس سجا لیتے ہیں بڑے بڑے ہوٹلز اور ہال سجنا شروع ہو جائے ہیں۔ کونسی ایسی چیز ہے جو سُرخ گلاب کی شکل میں نہ ڈھالی جاتی ہو۔ مسلمان لڑکے لڑکیاں کسقدر ذوق و شوق سے یہ دن منا کر اخلاق اور حیاء کے دامن کوتار تار کررہے ہیں ۔ آج پاکستان کے شہروں کا کوئی اسکول اور کالج شاید ایسا ہو جہاں یہ بے شرم رسم نہ منائی جاتی ہو والدین پریشان ہیں کہیں تو والدین تک اپنے بچوں کے ساتھ خود کو آزاد خیال اور روشن دماغ ظاہر کرنے کے لئے بڑی خوشی سے مناتے ہیں اور کہیں اولاد کی سرکشی والدین کو خاموش کر ا دیتی ہے۔ آکر ہماری حیاء کہاں گئی؟ جو ہماری قوم کے بچے بچیاں بڑے فخر سے خود کو ایک دوسرے کا ویلنٹائن قرار دیتے ہیں۔ لڑکے لڑکیوں سے بڑے اسٹائل سے پوچھتے ہیں کے’’ول یو بی مائی ویلنٹائن؟ ( کیا تم میری ویلنٹائن بنو گی؟‘‘اور لڑکی بہت فخر اور غرور سے مسکرا کر اثبات میں جواب دیتی ہے ۔ کیا ہم کو اس کا مطلب نہیں معلوم؟ غیر شادی شدہ کچے ذہن اور کم عمر لڑکے لڑکیاں کس رُخ پر چل رہے ہیں کیا ہم کو مغرب کی آزادی اور بے حجابانہ روش کی تباہی کا اندازہ نہیں ؟ آج وہ کسقدر پشیمانی اور تاسف سے ہاتھ ملتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بچوں کو بے جا آزادی دے کر خود اپنی تباہی کو دعوت دی ہے، اب وہ اپنی اولاد کی پھر سے اخلاقی اقدار کی طرف مائل کرنے کی مہم چلا رہے ہیں دوبارہ چار دیواری کے تقدس کا پر چار کرتے طریقوں پر عمل کی تجاویز دی جا رہی ہیں ، حیا اور شرم میںپناہ ڈھونڈی جا رہی ہے اور ہم اپنی شرم و حیاء ،روایات ، اخلاق، سب سے بڑھ کر دینی تعلیمات کو فراموش کر کے اس راستے پر قدم رکھنے جا رہے ہیں جسے یورپ کی عوام ترک کرنے پر آمادہ ہے ہم اسلام کی روشنی سے دور ہو کر جہالت کے اندھیروں میں گُم ہونے کے لئے بے قرار ہیں یاد رکھئے!!اپنی اولاد کی تربیت سے کوتاہی پر اللہ تعالیٰ کے ہاں تو جو پکڑ ہو گی وہ عبرتناک ہو گی ہی مگر اس بے حیائی کے سیلاب کو اگر والدین، سماجی اداروں جیسے خاندان، تعلیمی اداروں اور معاشرے نے نہیں رروکا، اساتذہ، اہل قلم، رشتے دار اور عذیز و اقارب وغیرہ نے والدین کے ساتھ مل کر اس بے حیائی کا سدباب نہ کیا تو ہمارا معاشرہ بھی مغربی معاشرے کی طرح مادر پدر آزاد ہو جائے گا اور پھر اس بے حیائی اور اخلاقی گراوٹ سے متا ثرہ ذہن کے لو گ ہر طرف دندناتے پھریں گے اوور ذینب جیسے واقعات کی روک تھام ایک خواب معلوم ہو گی ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو مذہبی اعتبار سے تعلیم و تربیت فراہم کریں انہیں مثبت سرگرمیوں کی طرف مائل کریں یہ ہم سب کا امتحان ہے ۔ جیسے ہماری مخلصانہ کاوش سزا بننے سے روک سکتی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭