Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رحمت للعالمین ﷺ کی سیرت تاریکیوں میں نور مبین ،امام بخاری کی3شہود کی شہادتوں کا بیان

یہاں یہ بات قابل ِ تأمل ہے کہ ایک شخص حالت کفر میں جھوٹ بولنے سے حیا کررہاہے ، وہ اپنے شدید ترین دشمن کے متعلق بھی جھوٹ بولنے کو غلط سمجھتاتھا، ابو سفیان نے اپنی مردانگی کی شان کے تحفظ کی خاطر جھوٹ سے احتراز کیا

 

* *  *ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ۔ مکہ مکرمہ* * *

 امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’صحیح بخاری‘‘ کے اصل نام سے بہت ہی کم حضرات واقف ہوں گے ۔صحیح بخاری کا اصل نام ’’الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ‘‘ ہے۔
    یہ کتاب  جامع بھی ہے ، مسند بھی ہے ، صحیح بھی ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شب وروز کے معمولات کے بارے میں ایک مختصر دستاویز بھی ہے ۔
    صحیح بخاری کا آغاز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے آغاز کے بیان سے شروع ہوتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا آغاز کیسے ہوا؟’’باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ ‘۔
    اب اس باب کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شب وروزکے بارے میں جن گواہوں کی گواہی کو ثبت فرمایا ہے ،ان میں سب سے پہلی گواہی ، اول المؤمنین ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کی ہے ۔
    اسی باب میں جس دوسری گواہی کو ثبت فرمایا ، وہ ابو سفیان کی گواہی ہے ، جو اس وقت مسلمان نہ ہوئے تھے ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید ترین دشمنوں میں شمار ہوتے تھے ۔وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے بارے میں کیا گواہی دیتے ہیں ، یہ ایک انتہائی قابل تامل اور درس آموز  سیرت کے پہلو کو اجاگر کرتاہے۔
     اور تیسری گواہی جن کے سامنے ابو سفیان کی شہادت ہے ، وہ رومی بادشاہ ہرقل کی شہادت ہے ۔
    پہلی شاہد اول المؤمنین ہیں ۔ دوسرے شاہد ابو سفیان ،  تیسراشاہد رومی بادشاہ ہرقل ہے ، جو پڑھا لکھا انسان تھا، جس کے پاس علم کتاب تھا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشخبریوں کو بھی جانتاتھامگر اس نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی۔آپ  کے صداقت کے یقین اور آپ کی نبوت کے سچا ہونے کا اسے پختہ یقین تھامگر اس نے دنیا کو ترجیح دی اور اسلام اور ایمان میں داخلہ سے محروم رہا۔
    پہلی شہادت جو ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ہے ، اس میں انہوں نے آپ کی صلہ رحمی، مہمان نوازی، بوجھل کے بوجھ اٹھانا، ناداروں کو کماکر دینا، اور آفت زدہ انسانوں کی امداد کرنا۔یہ ایسے معاشرتی امور ہیں ، کہ جس شخص میں یہ صفات ہونگیں وہ اپنے معاشرے کا محسن انسان شمار ہوگا۔یہ تمام اوصاف مختلف معاشرتی خدمات کے پہلو ہیں ، معاشرے میں یقینا وہ شخص معزز ومکرم ہوتاہے جس کی سیرت اس طرح کی ہو۔اور حقیقت بھی یہ ہے کہ بالاجماع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صادق بھی تھے ، امین بھی تھے اور اپنے معاشرے کے جھگڑوں میں متفقہ طورپر ایک عادل حکم بھی تسلیم کئے جاتے تھے۔
    مگر ایسی صاف سیرت اور مطہر کردار والا شخص جب حق کی آوازکو بلند کرتاہے ، جیسے بعض اہل علم لکھتے ہیں کہ : باطل کے پیروکار وں کو ظلم کی ظلمتیں نور نظر آتی ہیں ،اور حق کی روشنی سے ان کی بند آنکھیں اور ان کی بصیرت اور ان کے قلوب اندھے ہوجاتے ہیں ۔
    اب آپ دیکھیں کہ اسی حدیث میں جس میں ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی وحی کے نزول  پر تسلی کے طورپر جن صفات کا تذکرہ کررہی ہیں وہ آگے کیا کرتی ہیں ؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے بھی ذکر کیا ہے۔
    انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوورقہ بن نوفل کے پاس لے جائیں۔ یہ ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزۃ، حضرت خدیجہ ؓکے چچا زاد تھے ، جن کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں کہ یہ جاہلیت میں نصرانیت میں داخل ہوئے ۔ اب آپ دیکھیں کہ مکہ کا ماحول ،معاشرہ، اور اس کے لوگ جو بالکل کتاب سے کوئی جوڑ نہیں رکھتے تھے، ان کی اپنی جاہلیت کی رسم ورواج ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ضلال مبین قراردیا۔تمام لوگ کسی بھی آسمانی روشنی سے نابلد تھے۔لکھنے ،پڑھنے سے ان کا کوئی تعارف ہی نہ تھامگر اسی ورقہ بن نوفل کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جاہلیت کے دور میں یہ لکھنے پڑھنے سے واقف تھے۔ اصحاب کتاب کی سیرت کی سوجھ بوجھ رکھتے تھے ، اور وہ کتاب کو عبرانی زبان میں لکھتے اور انجیل کی بھی جس قدر اللہ چاہتے ، اس کی کتابت کرتے مگر وہ عمر کے اس حصے میں تھے کہ ’’کان شیخا کبیرا‘‘۔بڑی عمر کے شیخ تھے، نابینا ہوچکے تھے۔
     اب جب حضرت خدیجہؓ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لیکر آتی ہیں تو ان سے مخاطب ہوکر فرماتی ہیں : اے میرے چچا زاد !اپنے بھتیجے کی بات سنئے۔تو ورقہ نے آپ سے سوال کیا :اے بھتیجے! آپ بیان کریں ، کیا ماجرا ہے؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام واقعہ ان کے سامنے بیان فرمایا۔ آپ کی بات تفصیل سے سننے کے بعد ورقہ بن نوفل نے کہا: یہ وہی ناموس(فرشتہ)ہے جو  اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا۔
    اب دیکھیں کہ وہ عیسائی ہونے کے باوجود حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والے فرشتے کا ذکر کرتے ہیں ۔
    پھر انہوں نے مزید کہا:کاش میں تمہارے وقت پر جوان ہوتااور اس وقت زندہ ہوتا جب تمہاری قوم تمہیںنکال دیگی ۔
    اب یہ بات کہ قوم اسے اپنے معاشرے سے نکال دے  اس شخص کو جو معاشرے کی دن رات خدمت میں لگا ہو ، اور ان خدمات میں جن کا ذکر پہلے ہوچکا، پیش پیش ہو ۔پھر سچ گوئی، امانت داری، صلہ رحمی اور ان ساری عالی صفات میں وہ سب کیلئے ہی رحمت ہو۔پھر وہ قوم اسے اپنے اندر سے نکالنے کا فیصلہ کرے ۔یقینا یہ پیش گوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے عجیب تھی۔
    تو حیرانی کی کیفیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ورقہ بن نوفل سے سوال کیا : کیا وہ مجھے نکالیں گے؟ورقہ نے کہا:ہاں کیونکہ تم سے پہلے بھی جو شخص وہ بات لیکر آیا جو تم لیکر آئے ہو، اس کی قوم اس کی دشمن ہوگئی۔
    یہاںپر یہ بات قابل تامل ہے کہ حق کو بیان کرنا ،حق کی دعوت دینا، حق کیلئے کھڑا ہونا کس قدر کٹھن مرحلہ ہے جس سے داعی حق کو گزرنا پڑتاہے ۔ یہ عبرت ہے آج کے دور میں بھی دین کی دعوت کو قائم کرنے والوں کیلئے ۔
    ورقہ نے کہا:اگر میں اُس وقت زندہ رہا تو تمہاری بھرپور مدد کروں گا۔
    پھر امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :ورقہ اس کے کچھ دنوں  بعد انتقال کرگئے۔اور وحی کا سلسلہ رک گیا۔
    جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعوت حق کا اعلان فرماتے ہیں ، تو وہی لوگ جوآپ کے ممنون تھے ، آپ کی سچائی سے مستفید ہوتے تھے ، آپ کی خدمات کے قائل تھے، آپ کے صدق وامانت کے مداح تھے ۔40 برس تک ان کے اندر آپ  نے صدق وصفااور عفت کے ساتھ زندگی گزاری، اب یہی لوگ اللہ کی بات کے بارے میں آپ کو جھٹلاتے ہیں ۔صرف یہی نہیں  بلکہ آپ کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں ۔
    آپ کو ساحر وشاعر کہتے ہیں ، پھر آپ کے اور آپ کے خاندان کا معاشرتی بائیکاٹ کردیتے ہیں ۔اور آپ کی تصدیق کرنے والے لوگوں  پر اس قدر مصائب اور پریشانیاں پیداکرتے ہیں کہ ان کیلئے  اس شہر میں رہنا مشکل ہوجاتاہے ۔
    پھر ایسا وقت بھی آتاہے جب آپ کو اپنے مَورِد ومسکن بلدِ حرام مکہ مکرمہ میں جو دنیا کے عزیز ترین شہروں میں سے ایک ہے ، جو اللہ کاپہلا گھر ہے، اس میں رہنا مشکل ہوجاتاہے ۔
    آپ کے بعض ساتھیوں نے حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی ۔ہجرتِ حبشہ پر بھی ان شاء اللہ ہم آنے والے دنوں میں لکھیں گے ۔
    اس کے بعد اہلِ مدینہ کا مکہ آنا ہوتاہے ، جسے انصارِ مدینہ کہاجاتاہے، وہ آپ سے ملتے ہیں، انہوں نے پورے طورپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں قیام کی کفالت وضمانت دی کہ ہم آپ کیلئے ہر قربانی دیں گے اور آپ کو ہجرتِ مدینہ کیلئے تیار فرمایا۔آنحضرت  نے پہلے صحابہ کرامؓ  کو مدینہ ہجرت کی اجازت دی، پھر آپ  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے ساتھ لیکر اور حضرت علی المرتضیٰ کو اپنی جگہ چھوڑ کر ہجرت مدینہ کیلئے روانہ ہوگئے ۔
    ہجرت کے واقعات، اُس رات کیا رونما ہوا؟ آپ قریش کے مکر میں سے اللہ کی تدبیر کے ساتھ کیسے بغیر کسی ضرر ونقصان کے نکلے؟ اور ہجرت کے دوران راستے میں پیش آنے والے واقعات۔یہ سب ایک مفصل داستان ہے ، جسے ان شاء اللہ ہم کسی دن اپنا موضوعِ سخن بنائیں گے ۔
    اس وقت چونکہ ہم شہود کی شہادت کو بیان کرنا چاہتے ہیں ، توہم اپنے موضوع میں ہی رہتے ہیں ۔
    امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں ، اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ  فرماتے ہیں کہ مجھے ابو سفیان نے خود یہ بتایا کہ:
    جب رومی بادشاہ ہرقل اپنے ایک دینی سفر میں بیت المقدس پہنچا۔ابو سفیان قریش کے ایک تجارتی قافلے کے ساتھ وہاں موجود تھا۔تو ہرقل اور ابو سفیان کی ملاقات بیت المقدس میںہوئی ۔
    بیت المقدس کا شہر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مولد ہے ۔ اس اعتبار سے یہ شہر نصاریٰ کے ہاں بھی ایک مقدس شہر ہے ۔وہاں پر مسجدِ اقصیٰ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقامِ معراج ہے یہ شہر مسلمانوں کے نزدیک بھی قابلِ احترام ہے ۔
    ہرقل اپنے دار الحکومت سے بغرض زیارت جب بیت المقدس پہنچا، اور اپنے حاکم کو اس نے حکم جاری کر رکھا تھا کہ مکہ مکرمہ سے قریشی قافلے کی آمد پر میرے ساتھ ان کی ملاقات کا بندوبست کیا جائے ۔
    ہرقل کے ساتھ اس قافلے کی ملاقات کی تفصیل امام بخاری رحمہ اللہ اسی باب (بدء الوحی) میں بیان فرماتے ہیں :
    ہرقل اپنے مملکت کے رؤساء کے ساتھ دربار لگا چکا تو اس نے کہا: قریشی قافلے کو ترجمان کے ساتھ طلب کیا جائے ۔ہرقل اور  قریشی قافلہ کے ترجمان ابو سفیان کے درمیان سوالات اور جوابات کی مجلس شروع ہوتی ہے ۔
     ہرقل نے اپنی بات اس طرح شروع کی کہ: جو شخص اپنے آپ کو نبی سمجھتاہے ،تم میں سے کون اس کا قریبی رشتہ دار ہے ؟ ابو سفیان نے کہاکہ: میں اس کا سب سے زیادہ قریب النسب ہوں ۔تب ہرقل نے کہا: اسے میرے قریب کردو اور اس کے ساتھیوں کو اس کے پیچھے بٹھادو۔
    اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: ان سے کہوکہ میں اِس شخص سے اُس آدمی (نبی علیہ الصلاۃ والسلام) کے متعلق سوالات کروں گا۔ اگر یہ غلط بیان کرے تو تم لوگ اس کو جھٹلادینا۔
    ابو سفیان فرماتے ہیں :اللہ کی قسم اگر جھوٹ بولنے پر بدنامی کا خوف نہ ہوتا تو میںآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یقینا جھوٹ بولتا۔
    یہاں یہ بات قابل ِ تأمل ہے کہ ایک شخص جو اُس وقت مسلمان نہیں اور وہ حالت کفر میں جھوٹ بولنے سے حیا کررہاہے ۔وہ اسے اتنا معیوب سمجھتاتھا کہ وہ اپنے شدید ترین دشمن کے متعلق بھی جھوٹ بولنے کو غلط سمجھتاتھا، اور وجہ صرف یہی کہ جھوٹ بولنا مردوں کی شان نہیں اور جھوٹ کی شہرت ایسا عیب ہے جو مردوں کو زیب نہیں دیتا۔ابو سفیان نے اپنی مردانگی کی شان کی تحفظ کی خاطر جھوٹ سے احتراز کیا ۔
    ابو سفیان اور ہرقل کے درمیان11سوالات وجوابات کو امام بخاری رحمہ اللہ یوں نقل فرماتے ہیں ۔
    ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس کے بعد پہلا سوال جو ہرقل نے مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا وہ یہ تھا:
     تم لوگوں میں اس کا نسب کیساہے؟
    میں نے کہا:وہ اونچے نسب والا ہے ۔
    پھروہ کہنے لگا:اچھا تو کیا یہ بات اس سے پہلے بھی تم میں سے کسی نے کبھی کہی تھی؟
    میں نے کہا: نہیں
    کہنے لگا: اچھا، اس کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ گزراہے؟
    میں نے کہا: نہیں۔
    کہنے لگا:اچھا یہ بتاؤ ،بڑے لوگوں نے اس کی پیروی کی ہے یا غریبوں نے؟
    میں نے کہا: بلکہ کمزوروں نے ۔
    کہنے لگا:اس کے پیروکار دن بدن بڑھ رہے ہیں یا کم ہورہے ہیں؟
    میں نے کہا: بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔
    کہنے لگا:کیا اس دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص اس دین سے نکل کر مرتد بھی ہوجاتاہے ؟
    میں نے کہا:نہیں۔
    کہنے لگا: اُس() نے جو بات کہی ہے ،کیا اِس دعویٔ نبوت سے پہلے تم لوگ اس کو جھوٹ سے متہم کرتے تھے؟
    میں نے کہا: نہیں۔
    کہنے لگا:کیا وہ بد عہدی کرتاہے؟
    میں نے کہا:نہیں،البتہ ہم لوگ اِس وقت اُس کے ساتھ صلح کی ایک مدت گزاررہے ہیں ، معلوم نہیں اس میں وہ کیا کرے گا؟
    ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس فقرے کے سوا مجھے اور کہیں اپنی طرف سے بات داخل کرنے کا موقع نہیں ملا۔
    کہنے لگا:کیا تم لوگوں نے اس سے جنگ لڑی ہے؟
    میں نے کہا: جی ہاں ۔
    اس نے کہا:پھر تمہاری اور اس کی جنگ کیسی رہی؟
    میں نے کہا: جنگ ہم دونوں کے درمیان برابر کی چوٹ ہے ، کبھی وہ ہمیں زک پہنچالیتاہے اور کبھی ہم اسے نقصان سے دوچار کردیتے ہیں ۔
    کہنے لگا۔ وہ تمہیں کن باتوں کا حکم دیتاہے؟
    میں نے کہا: وہ کہتاہے صرف اللہ کی عبادت کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔جن کی تمہارے باپ دادا عبادت کرتے تھے ان کو چھوڑو، اور وہ ہمیں نماز ، سچائی ،پرہیزگاری ،پاکدامنی اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتاہے ۔
    ہرقل کے یہ 11سوالات اور ابو سفیان کے جوابات آپکی سیرت پر آپ کے شدید ترین دشمن کی شہادت ہیں ۔
    اب جوابات کے بعد ہرقل کا تجزیہ ۔اُس کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر شہادت ہے۔ آئندہ مجلس میں اس کا تجزیہ ملاحظہ فرمائیں۔

(جاری ہے)

 

مزید پڑھیں:- - - - - - -انسانیت کا لباس، شرم و حیا

شیئر: