انتخابی اصلاحات ایکٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری
اسلام آباد... سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کیخلاف دائر درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پارٹی صدارت کے لئے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ شخصیات کے لئے قانون سازی عدالتوں کو آنکھیں دکھانے کے مترادف ہے۔ آرٹیکل 62،63 پر پورا نہ اترنے والاپارٹی عہدیدار نہیں بن سکتا۔آئین کوبائی پاس کرنے کے لئے ضمنی آئینی قانون سازی نہیں کی جاسکتی۔ 51 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے تحریر کیا ۔تفصیلی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 17 (ٹو) اور 62 ون ایف، 63 اور 63 اے کا حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ نااہل فرد پر نااہلی کا اطلاق اس وقت سے ہوگا جس دن سے اسے نااہل قرار دیا گیا ہو۔ ایسی صورت میں نواز شریف کے بطور پارٹی سربراہ تمام اقدامات کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ مجلس شوریٰ کا بنیادی مقصد اسلام کے اصول کے مطابق کام کرنا ہے۔ مجلس شوریٰ کے تمام ارکان کو اسلام کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ ایسا ہی فرد پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ آئین پاکستان میں درج ہے کہ حاکمیت اللہ کی ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے اللہ کی جانب سے دیا گیا اختیار امانت سمجھ کر استعمال کرنے کے پابند ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بااختیار ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ملک کی حکومت چلاتی ہیں۔ پارلیمنٹ کے امور چلانے کے لئے پارلیمنٹیرینز کا اعلیٰ اخلاق کا ہونا ضروری ہے۔آئین پاکستان بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ایسوسی ایشن یا پارٹی بنانا ہر شخص کا حق ہے لیکن اس کے لئے اخلاقیات پر پورا اترنا بھی ضروری ہے۔تفصیلی فیصلے میں چیف جسٹس نے پانامہ لیکس کا بھی حوالہ دیا ہے۔