Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الٹی ہو گئی سب تدبیریں

***محمد مبشر انوار***
انسان نے زندگی میں جو بویا ہے وہی اسے کاٹنا بھی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ گندم کے کھیت سے چنا ملے، نہ ہی یہ ممکن ہے کہ نفرتیں بانٹ کر محبتیں نصیب ہوںاور یہ تو بالکل بھی ممکن نہیں کہ لوگوں میں دکھ تقسیم کر کے انسان خود ہمیشہ سکھ میں رہے۔ عام انسانوں کو ان کے رویوں کا جواب ممکن ہے اگلے قدم پر مل جاتا ہو مگر خواص کیلئے بالعموم وقت بڑھا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ وہ لمبے عرصے تک عوام ا لناس کے جذبات سے،انکی امیدوں سے،ان کے خوابوں سے،انکی صحت سے،انکی زندگیوںسے کھیلتے رہتے ہیں۔طاقت و اختیار کے نشے میں تمام حدیں پار کر جاتے ہیں۔جھوٹ بول کر کسی کو بھی دھوکہ دینا تو ایک معمولی بات سمجھی جاتی ہے ۔طاقت و اختیار کا ناجائز استعمال در حقیقت وہ کنجی ہے جو فقط ذاتی مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور صرف ذاتی اثاثہ جات کو بڑھانے میں کارآمد ہوتی ہے۔ ہوسِ اقتدار میں ڈوبی اشرافیہ کیلئے اصول،نظریات اور قوانین نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ جب تک اقتدار میں ہوں،انکی دھجیاں کھلے عام اڑائی جاتی ہیں لیکن اپوزیشن میں آتے ہی ،گلے پھاڑ پھاڑ کر ،انہی اصولوں،نظریات اور قوانین کی دہائیاں دی جاتی ہیں۔ جس عوام کی بہتری کیلئے ووٹ لیا جاتا ہے ،اس عوام کی عزت نفس کو تار تار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی۔پروٹوکول کے نام پر انہیں گھنٹوں سڑکوں پر انتظار کی کوفت اٹھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔شدید بیماراس پروٹوکول کی لعنت میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔زچگی کی مریض،صرف بیمار ذہن حکمرانوں کی تسکین کی خاطر، سڑکوں پر بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہوتی ہیں ،مگر کب تک!! یہ سلسلہ تضحیک آدمیت کب تک چل سکتا ہے ۔
انسان کو دی گئی مہلت کب تمام ہو جائے،اس کے اسباب کیا ہوں،پکڑ کس طرح کی جائے،ہاتھی کو ابابیلوں سے کیسے فنا کروایا جائے،عروج سے پستیوں میں کیسے پھینکا جائے،یہ کسی کو علم نہیں ہاںالبتہ دنیا یہ تماشہ بخوبی دیکھ رہی ہوتی ہے مگر جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے والا معاملہ صرف اسی شخص کے ساتھ ہوتاہے۔متاثرہ شخص بزعم خود عقل کل بنا دنیا بھر کے ذہین افراد سے استفادہ بھی کر رہا ہوتا ہے،اپنی بھرپور چالیں بھی چل رہا ہوتا ہے مگر اس کا اٹھا ہوا ہر قدم اسے پستی کی جانب لئے جاتا ہے،وہ قدم بقدم مزاحمت کرنے کے کوشش میںاندھا دھند غلطیاں کرتا چلا جاتا ہے اور دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے،جو اس کامقدر کر دی گئی ہوتی ہے۔ اسکے خوشنما چہرے پر پڑے سب نقاب قدم بقدم اترتے چلے جاتے ہیں،اور حقیقی بد نما چہرے کو عیاں کرتے جاتے ہیںتا آنکہ اس کے پیروکار بھی اس بدنما چہرے پر تھوک نہ دیں،اسے اس کی حقیقت سے روشناس نہ کروا دیں۔
عروج و زوال کی ایک عبرتناک مثال لندن میں بیٹھی ہے ،جو اپنی حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے وطن عزیز کے وسائل کو شیر مادر کی طرح لوٹتی رہی،کھسوٹتی رہی،نوچتی رہی تا آنکہ اللہ کی بے آواز لاٹھی ایسی برسی کہ آج زخم خوردہ اپنے رستے زخموں کو چاٹ رہی ہے اور یاد ماضی کو بھلانے کی کوششوں میں مشروبِ مغرب میں غرق ہے۔ پانامہ طوفان میں بہنے والی ایک اور سیاسی قیادت اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے گو ابھی تک وہ اپنی چالیں چلنے میں مشغول ہے۔ایک طرف دن کی روشنی میں قومی اداروں ،انکی قیادت اور طرز عمل پر تبرے بھیجے جا رہے ہیں تو دوسری طرف رات کی تاریکیوں میں مسلسل فوجی قیادت سے تعاون کی بھیک مانگی جا رہی ہے(بقول حامد میر)۔ دن کی روشنی میں اصولوں اور نظریات کی بات ہو رہی ہے،عوام الناس کو گمراہ کیا جا رہا ہے،اداروں کو ان کا دائرہ اختیار یاد کرایا جاتا ہے۔ ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر نہ ہونے کے باوجود عدالت سے باہر جانے کی استدعا کی جاتی ہے اور رد ہونے پر انتقام کی دہائی دیکر سیاسی شہادت کے متمنی نظر آ تے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جو آنکھیں بند کئے ان جھوٹوں پر نہ صرف اعتبار کرتے ہیں بلکہ ایسے جھوٹوں کا انتہائی بے شرمی سے دفاع بھی کرتے ہیں مگر لگتا ہے کہ سیاسی شہادت اس مرتبہ مقدر میں نہیں وگرنہ جو زبان استعمال کی جا چکی ہے،اسکے بعد یہ ممکن نہ تھا کہ اب تک انہیں سیاسی شہادت نہ ملتی،اغلب خیال یہی ہے کہ گزشتہ دنوں جنرل قمر جاوید باجوہ کی صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں اس امر کا اعادہ کیا گیا تھا کہ فوج اپنے عزم پر قائم ہے اور ریاست ، آئین و قانون کی وفادار رہے گی۔ مسلم لیگ ن کی قیادت ہر طرح سے ہاتھ پیر مار رہی ہے کہ کسی طرح اس بھنور سے نکل جائے ،کبھی پارٹی قیادت تبدیل کرتی ہے،کبھی تھک ہار کر دبے لفظوں میں بیانیہ تبدیل کرتی ہے مگر محاذ آرائی کے چمپئن،اس مرتبہ کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دے رہے کہ جب بھی انہوں نے محاذ آرائی کی تب ادارے ان کی پشتیبان رہے لیکن آج وہ براہ راست اداروں کے خلاف محاذ آرائی پر گامزن ہیں۔ درحقیقت مسلم لیگ ن کی قیادت ’’گاجر اور چھری‘‘ کی سیاست پر عمل پیرا ہے اور فقط اپنے مقصد کا حصول چاہتی ہے،ایک طرف فوج کا تعاون چاہتی ہے تو دوسری طرف اسی فوج کی کردار کشی کرتی نظر آتی ہے کہ فوج سول حکمرانوں کو کام نہیں کرنے دیتی،دوسری طرف عدلیہ ریفارمز کے نام پر عدلیہ کے پر کاٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ 
سیاست کے نام پر تجارت کرنے والے نظریات و اصولوں سے بے بہرہ لوگوں کا وقت قریب آن پہنچا ہے کہ اللہ رب العزت کا وعدہ ہے کہ وہ کسی کے باطن کو ظاہر کئے بغیر اس دنیا سے نہیں اٹھاتا۔ سیاست کے نام پر تجارت کے رسیا اس خاندان (بلکہ ہر خاندان)کے بے نقاب ہونے کا وقت ہے کہ ہر چیلے چانٹے ،جس نے بہروپ بھر رکھا تھا،کو عدالتوں میں پیش ہونا پڑ رہا ہے اور اپنے کرتوتوںکا حساب دیتا نظر آ رہا ہے۔ آفرین ہے کہ ایک مفرور،اشتہاری شخص ایوان بالا کا ممبر تو بن جاتا ہے مگر عدالت کا سامنا کرنے کیلئے بیمار بنا پھرتا ہے اور بیمار بھی ایسا کہ ٹیلی فونک انٹرویو دیتے ہوئے آواز کی کھنک بتا رہی ہے کہ وہ کس قدر بیمار ہے،سرکاری خزانے اور عوامی سہولیات کو کس طرح چونا لگاتا رہا ہے ۔ محترم چیف جسٹس نے بجا طور پر حکم دیاہے کہ اس کا سارا خرچہ مفرور وزیر خزانہ کی اس ذاتی جیب سے نکلوایا جائے جو اقتدار میں رہتے ہوئے 91گنا بڑھ چکا ہے، اسی طرح بلا امتیاز ان دوسرے مگر مچھوں سے بھی عوامی پیسہ نکلوانا ضروری ہے،جو پاکستان کا پیسہ ڈکارے بیٹھے ہیں۔ قانون کو اپنے اندھے ہونے کا ثبوت دینا ہو گا ،دہرے معیار سے قانون کی غیر جانبداری پر حرف آئے گا۔ خیر بات کہیں سے کہیں نکل گئی،اس وقت اشرافیہ جس طرح شکنجے میں کسی ہے،وہ خود کو بچانے کیلئے ہر طرح کے حربے،حیلے بہانے کر رہی ہے،مختلف تدابیر اختیار کر رہی ہے ،کہ کسی طرح اداروں کو جانبدار ثابت کر سکے۔ مشکل وقت پڑنے پر پیروں میں گرنے سے وقت نکل جانے پر گلے پڑنے والے،ایک بار پھر سیاسی حریفوں کے پیروں پر گر رہے ہیں۔نظریات کے واسطوں سے سیاسی مظلومیت تک کا رونا مسلسل رویا جا رہا ہے ۔تیسری قوت کے ہاتھوں کھلونا نہ بننے کی دہائیاں دے کر ساتھ ملانے کی کوششیں کی جا رہی ہیںمگر اس طرح کی سب تدبیریں اس وقت الٹی آنتوں کو آ رہی ہیں اور بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ 
 
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں