ماحول،معاشرہ اور مستقبل عورت کے ہاتھ میں ہے ، شبینہ فرشوری
زینت شکیل۔جدہ
رب المشرق و المغرب نے انسان کو سب سے اچھی خلقت بنا کر تمام مخلوقات،جمادات،نباتات ،حیوانات،جن و ملائکہ، غرض سب پر ہی فوقیت دی ۔ انسان زندگی کے ہر پہلو اور عمل کے ہر میدان میں صداقت کی تلاش میں رہتا ہے ۔کھرے کھوٹے کی پہچان رکھتا ہے۔ اچھائی،برائی میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فطرت سلیم پر وجود میں آنے والا ہر ذی روح زر خالص حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس مادی دنیا کے کھوٹ سے آگاہ ہوتا رہتا ہے ۔یہ عمل انسان کی پوری زندگی پر محیط ہے۔
”ہوا کے دوش پر“ہماری ملاقات محترم اسلم فرشوری اور انکی اہلیہ شبینہ فرشوری سے ہوئی۔ شکیل بدا یونی جیسے شاعر کو کون نہیں جانتا ،اس سرزمین سے تعلق کی بناءپر بہت ممکن ہے کہ اس مٹی کا اثر اوروں پر بھی ہوا ہو لیکن زمانہ آجکل ترقی کی راہیںبہت تیزی سے طے کر رہا ہے تو ایک فنکار کی ہنر مندی چاروں اور کسی نہ کسی طرح پھیل جاتی ہے لیکن اس کی پہچان بہرحال اس کی زمین کا وہی خطہ ہوتا ہے جہاں سے اسکے آباءواجداد تعلق رکھتے ہیں۔ اسلم فرشوری کو آج کی نوجوان نسل بہت اچھی طرح پہچانتی ہے کیونکہ انکے پسندیدہ فنکار ہیں۔اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد ان مشاعروں میں ضرور شرکت کو یقینی بناتی ہے جہاں اسلم فرشوری نظامت کر رہے ہوں۔انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ایسے مشاعرے میں نہ صرف شعرائے کرام کے بہترین فن پارے ان کی زبانی سننے کا موقع ملے گا بلکہ اسلم فرشوری اپنی نظامت سے محفل کو زعفران زاربناتے ہیں اور جن ادبی شخصیات کو اسٹیج پرمدعوکرتے ہیں ان کے لئے نہایت بہترین الفاظ کا چناﺅ کرتے ہیں۔ انہیں خوش آمدیدکہتے ہوئے انکی شخصیت کی بہترین خوبیوں کو اجاگر کرتے اشعار ان کی نذر کرتے ہیں ۔
اس حقیقت کو کون نہیں جانتا کہ کسی بھی مشاعرے کی کامیابی میں ایک بڑا حصہ اس مشاعرے کے ناظم کا ہوتا ہے۔ اسی لئے کسی مشاعرے کو کامیاب بنانے کے لئے جتنی محنت مہمان شعرائے کرام کی فہرست بنانے میں ہوتی ہے اسی قدر ناظم کے چناﺅ میں بھی ہوتی ہے کہ ناظم ایسا ہو جوسامعین کی ذہنی سطح کو جانچے اور ادبی ماحول کوبرقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرے۔
محترمہ شبینہ فرشوری نے بدا یوں سے تعلق کی بناءپر شکیل بدایونی کا نام فوراً لیا اور فون پر انکی جگہ کی وابستگی کی بابت جو سوال کا جواب سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ لفظ فوراً سمجھا گیا اور نہ صرف جگہ کا نام ذہن میں آیا بلکہ شکیل بدایونی کی50کی دہائی میں لکھے گئے کئی مشہورزمانہ نغمات گانوں میں رس گھول گئے مثلاً:
چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو
جوبھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو
شبینہ فرشوری اپنے والد حسین فرشوری اور والدہ محترمہ جمیلہ خاتون کے آنگن کی سب سے لائق،محنتی اور روشن ستارہ ہیں۔پولیٹکل سائنس میں تو ماسٹرز مکمل نہ ہوسکا لیکن اپنی صنف کے لئے کیا جانے والا کام انکی پہچان بن گیا۔ ان کا قائم کردہ ادارہ عالمی شہرت حاصل کر گیا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں چند دنو ں پہلے بھی خصوصی دعوت پر ڈیلس بلایا گیا اور انکی خدمات کے اعتراف میں انہیں اعزاز سے نوازا گیا۔ شبینہ فرشوری نے بتایا کہ بدایوں فانی جیسے شاعر کی جائے پیدائش بھی ہے لیکن مجھے یوں محسوس ہوا کہ اردو زبان میں عالمی ادب میں نام پیدا کرنے والوں کی بنسبت عام آدمی زیادہ اردو بولتے ہیں۔ اردو حیدرآباد میں بولی جاتی ہے ۔ وہ اپنے بڑے ابا الیاس حسین فرشوری زبیر کا ذکر بہت محبت سے کر رہی تھیں ۔ وہ شاعر تھے اور زبیر تخلص تھا انکا۔وہ بتا رہی تھیں کہ میکے اور سسرال میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا کیونکہ وہ والد صاحب کے بڑے بھائی یعنی اپنے تایا کے یہاں ہی رخصت ہو کر گئیں لیکن انہوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ ایک ملک کا الگ الگ صوبہ اور علاقہ اپنی جداگانہ شناخت اور اہمیت رکھتا ہے ۔اسی طرح وہاں کے علاقائی طور طریقے بھی ہوتے ہیں جنہیں وہاں کے مقیم لوگ شوق میں اپنالیتے ہیں اور ایسا ہی فرق انہوں نے بھی اپنے میکے اور سسرال میں پایا جو ایک خاندان ہونے کے باوجود بدا یوں اور حیدر آباد میں تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ ریاست کے مختلف علاقوں میں رہنے والے طرز معاشرت میں ایک دوسرے سے کچھ الگ مگر ملتے جلتے رسم ورواج،ادب و فن،لذت کام و دہن اور علاقائی ثقافت ایک دوسرے سے مختلف شناخت رکھتی ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پوری دنیا میں مجموعی طور پر اسلامی تمدن کے اثرات صاف اور واضح نظر آتے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ دوسرے تمدنوں پر اسلامی تمدن کی فکری اساس اور اس کی خصوصیات نے اپنے گہرے نقوش ثبت کئے ہیں ۔
اسلم فرشوری کئی چینلز سے پروگرام پیش کرتے ہیں اور نظامت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنے اشعار سے بھی اپنی الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہیں ۔ شبینہ فرشوری کو اسلم فرشوری کی یہ متفرق غزلوں کے اشعار بہت پسند ہیں:
ویسے ہر رنگ تو اچھا یا برا ہوتا ہے
پیار کا رنگ نہ کھوٹا نہ کھرا ہوتا ہے
اب کے موسم میں بھی زردی نہ گئی چہرے کی
ایسے موسم میں تو جنگل بھی ہرا ہوتا ہے
٭٭٭
یہ اور بات بھروسہ نہیں کرتے ہملوگ
دل کی چاہت کو مسوسہ نہیں کرتے ہملوگ
دوست تو دوست ہیں، دشمن بھی اگر گھر آئے
زہر نفرت کا پروسہ نہیں کرتے ہملوگ
انکا خیال ہے کہ تحریر کا انداز بدل رہا ہے، شاعر جو کہنا چاہتا ہے وہ کہہ نہیں پاتامثلاً:
تمہارے جورو ستم کا حساب لکھنا ہے
سوال جو بھی اٹھیں گے جواب لکھنا ہے
یہ بات سوچ کے تھرا رہا ہے میرا قلم
نجانے کتنوں کو عالی جناب لکھنا ہے
یہ دور اچھا ہے،حالات بھی،قیادت بھی
یہ جھوٹ لکھنا ہے اور بے حساب لکھنا ہے
ان کا کہنا ہے کہ ہماری تاریخ گواہی دینے کو کافی ہے کہ ہم ایک متمدن قوم ہیں:
اس طرح آگ نہ شہروں میں لگا کر دیکھو
پیار کی جوت ذرا دل میں جلا کر دیکھو
ہم سے دن رات کی چشمک تو مناسب ہے مگر
ہم ذرا کون ہیں، تاریخ اٹھا کر دیکھو
٭٭٭
عجب ڈھنگ سے حکومت کر رہا ہے
وہ بس اپنی حفاظت کر رہا ہے
درو دیوار روشن ہو رہے ہیں
کوئی گھر میں تلاوت کر رہا ہے
٭٭٭
لالچ میں منافق کی حمایت نہیں کرتے
ایمان کی ہم لوگ تجارت نہیں کرتے
لٹتی ہے انہی کی سربازار بھی عزت
دستار کی جو لوگ حفاظت نہیں کرتے
گھر واپسی کی بات جو کرتے ہیں وہی لوگ
خود اپنے ہی گھر جانے کی ہمت نہیں کرتے
٭٭٭
میں ہی رسوا نہیں زمانے میں
آپ بھی ہیں میرے فسانے میں
کل جو پتھر تھا بن گیا شیشہ
فائدہ ہے یہ ٹوٹ جانے میں
آج کل کے بچوں کے بارے میں
حالات نے کچھ ایسا سبق ان کو پڑھایا
بچے بھی ہیں سنجیدہ شرارت نہیں کرتے
شبینہ فرشوری سمجھتی ہیں کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز اپنے اپنے مدار میں سفرجاری رکھے ہوئے ہے اسی طرح انسان بھی اپنی زندگی کے ہر دور میں الگ الگ اور ہمہ جہت فرائض کی انجام دہی میں مشغول رہتا ہے ۔ہر انسان کی علمی،ادبی،مذہبی اور تخلیقی صلاحیت کی اساس اس کا گھر ہوتا ہے جہاں کی تربیت مروجہ تعلیم سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ شبینہ فرشوری نے بدایوں کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسا خوبصورت خطہ¿ اراضی ہے کہ جہاں قدرتی جمالیات کی کمی نہیں۔سفید ،شفاف اونچی لہریں زندگی کی رعنائیوں کو دوبالا کردیتی ہیں اور ویسے بھی کہتے ہیں کہ پہلے چاندمکمل ہوتاہے پھراس میں کمی ہوتی ہے اور یہ باریک سا ہلال بن جاتا ہے ۔پورا چاند قدرتی طور پر سمندروں میں بھنور پیدا کرنے کا سبب ہوتا ہے۔
شبینہ نے کہا کہ گھر میں چونکہ ادبی ماحول تھا تو ادبی نشست نے تربیت میں ایک خاص حصہ لیا۔ حیدرآباد کی زندگی میں ایک نئی جہت ملی ۔لوگوں کی اردو زبان سے محبت اور اسکی آبیاری کی خواہش نے بے شمار مشاعرے اور ادبی عالمی نشستیں برپا کرائیں جو یادگار رہیں۔
ہمارے خاندان میں ہماری پھوپھی، تایا ابا ، عم زاد اور بھائی صاحب اورکئی رشتہ داروں نے اس باغ کی باغبانی میں حصہ لیا۔ فرشوری صاحب
حیدر آباد شہر سے زیادہ مشہور ہوئے اور چونکہ آج دنیا جدید ایجادات میں بہت آگے چلی گئی ہے تو مختلف چینلز پر ادبی پروگرام نشر ہونے لگے ہیں جو پوری دنیا میں دیکھے اور سنے جا سکتے ہیں۔شبینہ صاحبہ کو چونکہ بچپن سے ہی کہانیاں پڑھنے اور اپنے سے چھوٹے بھائی بہنوں کو سنانے میں مزہ آتا تھا، وہی مستقبل کا شوق بنااور انہوں نے بچوں کے لئے کہانیاں لکھنا شروع کر دیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ سب سے زیادہ توجہ بچوں کو اس وقت دینی چاہئے جب وہ اسکول جانے کی عمر کو پہنچیںتاکہ باہر کی دنیا سے روشناس بھی ہوں اور گھر میں توجہ اور رہنمائی بھی ملے۔ اپنے بھائی بہنوں کا ذکر بہت محبتوں کے ساتھ کیا۔ شاہینہ ،روبینہ اور عائشہ کے ساتھ ساتھ دونوں بھائیوں کا بھی ذکر کیا۔
اعظم فرشوری جو بدا یوں کے مشہورشاعر ہیں اور دوسرے بھائی سالم فرشوری گورنمنٹ جاب کرتے ہیں اور اکثر سیروسیاحت کا پروگرام ترتیب دیتے رہتے ہیں۔ اسلم فرشوری نے کہا کہ ان کے ایک صاحب زادے امان فرشوری دبئی میں رہائش رکھتے ہیں جبکہ سلمان فرشوری ڈیلس میں قیام پذیرہیں ۔پوتے پوتیاں جب ملتے ہیں ،داداجان اور دادی جان کے ارد گرد رہتے ہیں اور کہانیاں سنانے کی فرمائش کرتے ہیں۔
اسلم فرشوری کی طرح شبینہ فرشوری بھی ادبی دنیا میں ایک منفرد پہچان رکھتی ہیں ۔انکے افسانوں کی دھوم سرحد پار پہنچ چکی ہے یہی وجہ ہے کہ حیدر آباد ایسوسی ایشن نے انہیں انکی ادبی خدمات کی بناءپر ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا اور دعوت نامہ روانہ کیا۔ اس طرح ڈیلس میں
انکے لئے محفل سجائی گئی اور صدارت کی کرسی بھی ان کے لئے مختص کی گئی ۔
اسلم فرشوری ہندوستان کے مشہور شاعر ہونے کے علاوہ براڈکاسٹر اور ٹیلی کاسٹر بھی ہیں۔ انکی ہمہ جہت شخصیت نے انکی مقبولیت
میں جہاں اضافہ کیا ہے وہیں ڈھیروں ایوارڈزاور اعزازات سے بھی نوازا ہے۔ حیدرآباد کی سرکار نے کچھ عرصہ قبل انہیں انکی ادبی خدمات پربڑے سرکاری ایوارڈ سے نوازا ۔ یہ موقع انکے اور انکی فیملی کے لئے یادگار بن گیا۔ شبینہ فرشوری کا کہنا ہے کہ ہم لوگ خواہ مخواہ اس بات کو موضوع بحث بنا دیتے ہیں کہ معاشرے میں اب کوئی کسی کی بات کو اہمیت نہیں دیتا اور بچے ہماری بات نہیں مانتے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بچے تو ماں سے ہی سیکھتے ہیں اور جو سیکھنے کا وقت ہوتا ہے اس وقت وہ ماں ہی کے پاس ہوتے ہیں ۔ماں جیسی چاہے اپنے بچوں کی تربیت کرے۔سب کچھ اسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ ایک عورت ہی بناتی ہے۔ اگر وہ اپنے اہم وقت کو دوسری ترجیحات میں ضائع کردے اور اپنے بچوں کی درست خطوط پر تربیت نہ کرپائے تو اس کا ذمہ دار وہ کسی اور کو نہیں بنا سکتی کیونکہ عورت کو اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے بہت عقل مندی سے کام لینا چاہئے ۔گھر کو اوربچوں کو چھوڑ کر اوروں کی بہتری اور معاشرے کو سدھارنے میںاگر سارا وقت دے دیا جائے تو پھربچے کیسے ماں کی بہترین تربیت پاسکیں گے؟ وقت گزر جانے کے بعد یہ کہنا بالکل بے جا ہے کہ آج کل کے بچے خودسر ہو گئے ہیں ،ہماراکہنا نہیں مانتے ۔ ہمارے ہاتھوں میں ہے ماحول،معاشرہ اور مستقبل ۔جو عورت یہ بات جان لے گی اپنی اہمیت سے واقف ہو جائے گی پھر اس کو کسی ماہر نفسیات سے یہ پوچھنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ جب ایک بچہ اپنے اسکول سے گھر واپس آتا ہے تو اس کے لئے گھر پر ماں کی موجودگی کتنی اہم ہوتی ہے۔ماں اس کی ہر بات سننے کی مشتاق ہوتی ہے۔ وہ اسے دنیا کا سب سے ذہین اور قابل انسان سمجھتی ہے ۔ ماں کی جانب سے یہی اہمیت بچے کو مستقبل کا رہنما ءبنا دیتی ہے اوروہ اپنی ماں اوراپنے باپ کے لئے صدقہ جاریہ بن جاتے ہیں۔