نوجوان اپنی آنکھوں سے چشمہ اتارتا ہوا گویا ہوا،ان فیشن زدہ دوپٹوں کو سنبھال نہیں پاتیں ، تو انھیں اوڑھتی کیوں ہو؟ جواب میں دوشیزہ کا ہاتھ فضامیں لہرا یا۔امید کے برخلاف اس طمانچہ پر وہ نوجوان سٹپٹاگیا
ناہیدطاہر ۔ریاض
پہلی قسط
نازک اندام حسین دوشیزہ نے اپنا دوپٹہ سنبھالا۔جانے کیوں وہ خوفز دہ نظرآرہی تھی۔اس نے فائل سینے سے لگائے ہوئے الطاف ویمنس کالج کے آہنی دروازے میں قدم رکھا۔اس کے چہرے پر اندیشوں کے سائے تھے۔تبھی اچانک ایک سرخ رنگ کی گاڑی تیزی سے گیٹ کے اندرداخل ہوئی اور اس کے قریب سے پارکنگ کی جانب بڑھ گئی۔ وہ بری طرح لڑ کھڑائی۔ اس کا دوپٹہ گاڑی کے سائیڈ مررمیں الجھ گیاجس کی وجہ سے گردن پر سرخ نشان سا ابھر آیا۔
’یااللہ!!‘اس نے شدت کرب سے ہونٹ بھینچ لیا۔کار ڈرائیور پر اس کا غصہ آناعین فطری تھا۔گاڑی آگے جاکر ایک جھٹکے سے رک گئی۔اس کے اندر سے ایک خوبرو نوجوان باہر نکلاجس کے لبوں پہ مضحکہ خیز مسکراہٹ تھی۔ وہ اپنی غلطی پر شرمندہ ہونے کے بجائے شرارت سے سرکھجلاتے ہوئے ڈھٹائی سے مسکرارہا تھا۔
اْف !!! شدت تکلیف سے دوشیزہ کی آنکھیں چھلک پڑیں۔وہ نوجوان اپنی آنکھوں سے چشمہ اتارتا ہوا گویا ہوا۔’ان فیشن زدہ دوپٹوں کو سنبھال نہیں پاتیں ، تو انھیں اوڑھتی کیوں ہو؟ جواب میں دوشیزہ کا ہاتھ فضامیں لہرا یا۔امید کے برخلاف اس طمانچہ پر وہ نوجوان سٹپٹاگیا۔وہ بھرپور غصے میں سرخ انگارہ نظر آ رہی تھی۔جانے کیاہوا کہ اچانک اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی ندیاں بہہ پڑیں۔ وہ ان پر روک لگاتے ہوئے اپنے لاغر سینڈل کی پروا کئے بغیردوڑتی ہوئی راہداری میں غائب ہوگئی۔نوجوان ہونقوں کی مانند کھڑا رہا۔ اس کے بدن سے اٹھتی خوشبوفضاکو معطر کرگئی۔راہداری کافی طویل تھی۔وہ تیز قدموں کے ساتھ آفس روم کے سامنے آکر رکی۔ الجھی سانسیں اس کے سراپے کو حسن بخش رہی تھیں۔ اس کی ہائی ہیل کی سینڈل کی چاپ آخری سسکی کے ساتھ جیسے دم توڑ گئی۔وہ سراسیمگی کی حالت میں جھک کر سیفٹی پین سے سینڈل میں دوبارہ جان ڈالنے کی کوشش کرنے لگی۔کئی بارکی کوششوں کے بعد کامیابی مل ہی گئی۔اس نے راحت بھری سانس لی، پیشانی کا پسینہ خشک کیا اور ایک طائرانہ نگاہ اپنے اردگرد ڈالی ۔دوسرے ہی پل اس کے حوصلے پست ہوتے چلے گئے۔چندقدموں کے فاصلے پر ایک طویل قطار اس کامنہ چڑھا تی نظر آئی۔
’اف انٹرویو کیلئے اتنی ساری لڑکیاں ؟ میرا انتخاب توہونے سے رہا‘۔ وہ بڑبڑائی۔ وہاں موجودساری لڑکیاں جدید لباس میں ملبوس اورگہرے میک اَپ میں تھیں، گویاوہ مقابلہ حسن میں شریک ہوں۔ اس نے خشک لبوں پر زبان پھیرتی ہوئی چور نظروں سے اپنے لباس پر نظر ڈالی۔ کاٹن کایہ واحد سوٹ تھا جس پر اماں نے دھاگے سے بیل بوٹے بناکر پہننے لائق بنا دیا تھا۔وہ لڑکیوں کی تضحیک آمیز نِگاہ اپنے سراپے پر چبھتی ہوئی محسوس کررہی تھی۔’ خدایا!یہ مفلسی بھی انسان کوکس قدر ذلیل کرواتی ہے۔ اس نے اپنے لب سختی سے بھینچ لئے جس کی وجہ سے وجود میں درد کی لہر سی دوڑگئی۔
تکلیف دہ انتظار کے بعد اس کا نام پکارا گیا۔وہ تیزی سے اٹھی اور اپنی ٹوٹی سینڈل کے سبب پائوں کوزمین پر گھسیٹتی ہوئی آفس روم میں داخل ہوئی۔سامنے کرسی پر براجمان شخص پر نظر پڑتے ہی اس کی سانسیں سینے میں قیدہوتی محسوس ہونے لگیں۔ راستہ بھر جس ملازمت کے تئیں خواب دیکھا ، وہ ایک ہی لمحہ میں چِکنا چور ہوتا محسوس ہوا۔(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭