شب معراج کی عدم تعیین، مبنی بر حکمت
جب ماہ ِ معراج پر ہی اتفاق نہیں تو تاریخ ِ معراج کی تعیین کیسے ہوسکتی ہے ؟ یہ اختلاف حکمت ِ الٰہی سے خالی نہیں
* * * محمد منیر قمر ۔ الخبر* * *
ماہ رجب کی27تاریخ کو بعض لوگ ’’شب ِ معراج ‘‘ ہونے کے زعم میں جشن مناتے ہیں ،رات کو چراغاں کرتے ہیں اور خود ساختہ نمازیں پڑھتے ہیں ۔ان امور کی شرعی حیثیت متعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ’’شب ِ معراج ‘‘کاتعین ہو۔
جب محدثین و مؤرخین کی تالیف کردہ کتب کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 27 ویںشب کے ’’شب ِ معراج ‘‘ قرار پانے سے پہلے خود ماہ ِ رجب کے ماہ ِ معراج ہونے پربھی علمائے تاریخ کا اتفاق نہیں ۔معروف مفسر ومؤرخ امام ابن کثیر ؒ نے اپنی ضخیم کتاب ’’البدایہ و النہایہ‘‘ کے تیسرے جزمیں اسراء و معراج کا واقعہ نقل کرنے سے پہلے متعدد روایات بیان فرمائی ہیں۔وہاں انہوں نے امام بیہقی ؒ کے حوالہ سے امام ابو شہاب زہری ؒ کا قول نقل کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:
’’نبی کو ہجرت ِ مدینہ سے ایک سال پہلے سفرِ معراج کرایا گیا۔ ‘‘
یہی قول عروہ ؒ کا ہے۔ امام حاکم کے حوالے سے انہوں نے حضرت سدی کا قول بھی ذکر کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:
’’نبی کو ہجرت سے16 ماہ قبل معراج کرایا گیا۔‘‘
لہٰذا امام زہریؒ و عروہ ؒ کے قول کے مطابق ماہ ِ معراج ربیع الاول بنتا ہے جبکہ وہ بھی ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن عساکر ؒ نے اسراء و معراج کی احادیث کا ذکر ہی اوائلِ بعثت کے واقعات میں کیا ہے اور حضرت سدی ؒ کے قول کے مطابق معراج کا واقعہ ماہ ِ ذی القعدہ میں بنتا ہے ( البدایہ والنہایہ) ۔
ماہ ِ ربیع الاول کے ماہ ِ معراج ہونے سے متعلق امام زہریؒ وعروہؒ کے قول کی تائید حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ایک اثر سے بھی ہوتی تھی لیکن اسکی سند میں امام ابن کثیر ؒ کے نزدیک انقطاع ہے ۔یہ اثر مصنف ابن ابی شیبہ میں مذکور ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:
’’نبی عام الفیل ماہ ِ ربیع الاول کی12تاریخ کو پیر کے دن پیدا ہوئے ،اُسی دن آپ کی بعثت ہوئی ،اُسی دن آپ کو آسمان کی طرف معراج کرایا گیا ،اُسی دن آپ نے ہجرت کی اور اُسی دن آپ نے وفات پائی۔ ‘‘ ( البدایہ و النہایہ )۔
یہاں بھی معراج کے ماہ ِ ربیع الاول میں کرائے جانے کا ذکر ہے مگر یہ روایت چونکہ منقطع سند والی ہے لہٰذا اس سے استدلال درست نہیں۔ اسی طرح ماہ ِ ربیع الثانی، ماہ ِ رجب ،ماہ ِ شوال اور ماہ ِ ذو الحجہ میں معراج کرائے جانے کی روایات بھی ملتی ہیں۔ ماہ ِ رجب کی بھی اورجب ماہ ِ معراج پر ہی اتفاق نہیں تو تاریخِ معراج کی تعیین متفق علیہ کیسے ہوسکتی ہے ؟ مختصر یہ کہ اسی طرح ہی تاریخِ معراج میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور یہ بات بھی حکمت ِ الٰہی سے خالی نہیں کہ ماہ وتاریخِ معراج پر اتفاق نہ ہوسکا تاکہ طرح طرح کی بدعات کو وجود میں لانے والوں کو یہ بنیادی چیزہی متفق علیہ نہ ملے ورنہ اللہ تعالیٰ سے کیا بعید تھا کہ تمام مؤرخین کا اتفاق ہوجاتا ۔
مشہور روایت کے مطابق اگر ماہِ رجب اور اس کی بھی 27 تاریخ کوہی ’’شب معراج ‘‘ مان لیا جائے تو اس رات میں چراغاں کا اہتمام کرنے ، جشن منانے ، خوشیاں منانے کے رنگا رنگ انداز اختیار کرنے ،دن کو روزہ رکھنے اور رات کو نوافل پڑھنے کی شرعی حیثیت کا تعین کیا جائے ۔اس سلسلہ میں سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ نبی ، خلفائے راشدینؓ و صحابہ کرام ؓ،ائمہ اربعہؒ اور علمائے دین و سلف صالحین کسی سے بھی یہ مروجہ امور ثابت نہیں جنہیں جشن معراج کے نام سے کیا جاتا ہے۔ امام الانبیاء اس عظیم معجزہ کے بعد ایک طویل مدت تک صحابہ کرام ؓ کے ما بین موجود رہے مگر آپ نے نہ تو خود یہ کام کئے اور نہ ہی کسی کو ان کے کرنے کا حکم فرمایا۔ آپ کے اشارۂ ا برو پر جانیں نچھاور کرنے والے صحابہ کرامؓ، تابعین ا ور ائمہ میں سے کسی سے بھی ان امور کا پتہ نہیں چلتا۔