مسز ربانی
چھوٹے چھوٹے بچے، انکی آدھی ادھوری خواہشیں پوری کرتے کرتے وقت کا اندازہ ہی نہ رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔میں بہت خوش تھی۔ہم دونوں میاں بیوی ایک نئے عہدے کے لئے آگے بڑھ رہے تھے ۔ دن رات پروگرام بنتے رہے ،کبھی ایک لسٹ ، کبھی دوسری ۔ نہ بیٹیاں تھیں نہ بہنیں ۔ پردیس میں رہ رہ کر تھک گئی تھی مگر بچوں کی شادی سے بہت زیادہ قوت ملی کہ اب وہ دن آگیا جب ہمارے گھر میں ایک بار پھرسے چہل پہل شروع ہو جائے گی ۔ اپنے پرائے جمع ہونگے ۔ایک نئے خاندان سے تعلق استوارہوگا۔ ایک بیٹی گھر آئے گی جس کی ہمیشہ سے خواہش رہی۔ خالائیں اور امی ہمیشہ دعا دیتی تھیں۔ اب تین بیٹے ہیں تو ایک بیٹی بھی ہوجائے لیکن میںنے اپنے رب کریم کے اس بہترین فیصلے کو دل سے قبول کیا کہ بنا مانگے تین خوبصورت ، خوب سیرت ،تعلیم یافتہ اور بااخلاق اولادیں عطا فرمائیں، ماشاءاللہ۔
گو کہ پاکستان جانا اور رشتے ناتے داروں کو بلانا، ان کی ہر بات کو نظرانداز کرکے مدعو کرنا، ان کے کھانے پینے اور دیگر تمام ضروریات کا خیال رکھنا ،ایک جہد مسلسل تھی۔ 2 ماہ پر مبنی ہر نشیب و فراز سے گزر کر وہ دن بھی آگیا جب میں نے دو خوش شکل، خوب سیرت لڑکیوں کو اپنی فیملی میں شامل کیا۔ میرا تو مزاج ہی بدل گیا ۔ میں رسماً نہیں، حقیقتاً خوش تھی ،دونوں بچیاں بھی گھر کی تھیں ۔ ہم سب ایک دوسرے کیلئے اجنبی نہیں تھے اور گھر آنے کے بعد بہت اطمینان سا تھا ۔ایک الگ، منفرد خوشی، ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے کے جی میں داخلہ لیا اورپھر اپنی تعلیم کسی پروفیشنل لیول پر مکمل کرلی ہو۔
میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔گھر میں چلتی پھرتی لڑکیاں تتلیوں کی طرح لگتی تھیں۔ ہر طرف سے ماما، ماما کی آوازیں آتی تھیںاور میں ہواﺅں میں اڑتی تھی۔ بچے بھی خوش تھے۔پھر اچانک کیا ہوا ،کیا میں خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگی یا بچوں کی توجہ ہٹنے سے تنہائی محسوس کرنے لگی۔ مجھے سب اچھا بھی لگ رہا تھا اور کہیں کچھ کمی بھی تھی ۔کیا میں روایتی ساس بن رہی تھی؟ کیا میں بیٹوں کا پیار بانٹنے میں ناکام ہورہی تھی؟ کیا میں ، کیا وہ ؟
ہر وقت ذہن الجھا الجھا رہتا ۔ بات بات پر تلخ ہوجانا، غیر ارادی غصہ کرنا ، بے وجہ سوچنا ، اپنے ہی خیالات میں کچھ بُنتی اور ادھیڑتی، خود کو سمجھاتی ، تسلی دیتی کہ کچھ بھی تو نہیں ہے، سب تو میرے ساتھ ہیں۔ خود کوبار بار بہلاتی مگر وساوس نے گھیر لیا اور اسی کیفیت میں سو گئی ۔ خواب میں بھی وہی کیفیت تھی۔ شاید چلائی یا بڑبرائی ہوں گی۔ جب آنکھ کھلی تو بچے، بہو سب ہی پریشان کھڑے تھے۔ میں گھبرا گئی۔ تب بڑے بیٹے نے کہا، ماما کیا ہوا، کیوں پریشان ہیں۔ نیند میں چلا رہی تھیں ، پکار رہی تھیں۔ خیریت تو ہے ناں؟ کوئی پریشانی ہے تو بتائیں ۔ آپ دیکھیں، پہلے توآپ اکیلی تھیں مگر اب توہمارے علاوہ یہ دو اور اضافی ہستیاںخیال رکھنے والی موجود ہیں۔ اب تو پریشانی کم ہونی چاہئے۔ آپ کو سوچنے یا پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ۔ ہم ہیں ناں ۔ اب تو یہ بھی آپ کا خیال رکھیں گی ۔ آپ کا دل بہلائیں گی۔ کام میں ہاتھ بٹائیں گی اور ان کی وجہ سے کوئی بھی شکایت ہو تو انہیں معاف کردیں ۔ہم تو آپ کی خدمت کیلئے ہر وقت حاضر ہیں ۔ ماما خاموش کیوں ہیں؟ اتنی خوش تھیں پچھلے دنوں، اب کیا ہوگیا ؟
میں اسکے بچپن میں گم ہوگئی۔ جب اسکے بعد دو او ر بھائی آئے تو وہ خاموش سا ہوگیا تھا۔ میں دونوں چھوٹوں کے کام میں لگی رہتی تھی اور اس پر توجہ کم ہوگئی تھی تو ایک دن میں نے محسوس کیا اور یہی نصیحت کی کہ آپ تو بھائیوں کے آنے سے خوش تھے ،پھر کیا ہوا ؟دیکھیں اب آپ زیادہ محفوظ ہیں۔ تین بھائی ایک دوسرے کیلئے مضبوط سہارا، دل بہلانے کا سامان، وقت گزارنے کے لئے بہترین ساتھی وغیرہ۔
میری آنکھ کھل گئی۔ پوری طرح ہوش و حواس میں تھی ۔انسان کی حالت بدلتی ہے ، سوچ بدلتی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اللہ کریم اسکی مدد کیلئے انتظامات فرمادیتا ہے۔ مجھے میرے سوالوں کا جواب مل گیا تھا اور میں مطمئن ہو گئی تھی کہ میں نے کچھ ضائع نہیں کیا بلکہ بہت کچھ اضافی پایا ہے۔ بچپن سے آج تک ہم نے ا ن کی ہر خوشی کا خیال رکھا ۔ ہر خواہش پوری کی، آج ان کی خوشی میں خوش نہ ہونا، ان کی کامیاب زندگی پر خواہ مخواہ مایوس ہونا، ان کی زندگی میں اپنی وجہ سے بے سکونی پیدا کرنا مجھے زیب نہیں دیتا۔ میں جیسے اپنے بچوں کے تعلیمی نتائج پر خوش ہوتی رہی ، تحفے تحائف سے خوشی کرتی رہی، آج بھی میرا فرض ہے کہ ان کو ایک کامیاب شادی شدہ زندگی کی مبارکباد دوں، اپنے تجربات سے مستفید کروں۔ ان کو نئی زندگی کی اونچ نیچ کے بارے میں بتاﺅں ۔شاید آج مجھے اپنے نئے عہدے کا پاس رکھنا آگیاتھا۔ وقت سے پہلے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔