Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کونپل کو تناور درخت کی صورت دینے کیلئے صحتمند ماں چاہئے ، ماڈل نہیں

تسنیم امجد۔ریا ض
لڑکی تو بہت پسند آ ئی لیکن امی کا کہنا ہے کہ ذرا مو ٹی ہے ۔اس کا اظہاروہ د بے لفظوں میں لڑ کی کے گھر بھی کر آ ئی ہیںجس پر انہیں معلوم ہوا کہ لڑ کی کی ماں نے لڑ کی کا کھا نا پینا بند کر رکھا ہے ۔اسے باتیں سنا ئی جا رہی ہیں ۔اسی قسم کی ایک شکا یت ہمیں کسی اور ذرا ئع سے موصول ہو ئی جہا ں رشتے کرانے والی مشا طہ کا کہنا ہے کہ ما ﺅں کا کہنا ہے کہ وہ زیرو سا ئز یا ” صفر خدو خال“کی حامل لڑ کی کو ہی بہو بنانا چاہتی ہیں۔اس لئے آ جکل ہمارا کام کاج تو ماند ہی ہے ۔ان کی پسند کا زیرو سائز ملنا بہت مشکل ہے ۔
دھنک کے صفحے پر دی گئی سچائی پر ہمیں اپنے گرد پھیلے ایسے بہت سے وا قعا ت یاد آ گئے ۔نزہت نے ماسٹر زکیا ہی تھا کہ ایک رشتہ آیا۔وہ لوگ کبھی ان کے پڑوسی تھے ۔وقت بہت اچھا گزرا تھا اس لئے بضد ہو ئے کہ ہمیں نزہت کو بہو بنانا ہے ۔آ خردھوم دھام سے شادی ہو گئی ۔بچی کی پیدا ئش کے بعد نز ہت کے وزن میں ا ضا فہ ہوا جو انہیں برا لگنے لگا۔شو ہرنے تو کبھی کچھ نہیں کہا لیکن ساس کو تو جیسے کوئی موضوع مل گیا۔اٹھتے بیٹھتے اسے طعنہ دیتیں ۔وہ بے چاری بھو کی رہنے لگی جس کے باعث اسے کمزوری نے آ لیا ۔سر چکرانے لگا اور نہ جانے کیا کیاعارضے جنم لینے لگے ۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ مسنر ریا ض کا کہنا ہے کہ میں یقینا ایسی لڑکی کو بہو بنانا پسند کرو ں گی جس پر پہننا اوڑ ھنا جچتا ہو۔ بانس جیسی قامت پر کپڑے لٹکے با لکل بھی اچھے نہیں لگتے۔انہوں نے کہا کہ مسنر حامد میری سہیلی ہیں ۔ہمارے در میان خا صی بے تکلفی ہے۔ رات دن سا تھ بیت رہے ہیں ۔دبے لفظو ں انہو ں نے اپنی خوا ہش کا ا ظہار کیا کہ میری بیٹی اگر تمہاری بہو بنے گی تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔میں نے انہیں کہہ دیا کہ پہلے اپنی بیٹی کو کھلا ئیں پلا ئیں۔میں کسی”ا سکنی“لڑ کی کو بہو نہیں بنا نا چا ہتی ۔
ہماری ایک جا ننے والی کا کہنا ہے کہ میری تینو ں بیٹیا ں دبلی پتلی ہیں۔فیشن کے تقا ضو ں پر پو را اتر تی ہیں ۔ایک کا رشتہ آ یا تو با تو ں ہی با تو ںمیں لڑ کا بو لا ،میری اکثر کلا س فیلو ز ڈا ئیٹنگ کر کے بڑ ھیا سی لگنے لگی ہیں ۔ہا تھو ں اور پیرو ں کی ہڈ یا ں ابھری ہو ئی،جھکے کندھے اور آ نکھو ں کے گرد حلقے ۔ایسی لڑ کیا ں شادی کے بعد ذمہ دار یا ں کیسے نبھا ئیں گی۔اس طرح بالواسطہ اس نے نا پسندیدگی کا اظہار کر دیا ۔اس لڑکے کا انداز بہت مہذب تھا ،اس لئے برا نہیں لگا لیکن تب سے ہماری بیٹیوں پر سے اسکنی بننے کا خمار اتر گیا ۔نا شتہ بھی ڈھنگ کا کرنے لگیں ۔ اسی طرح ایک اور خا تون اپنی بہو کی شکایت کرنے لگیں کہ شادی کو 5برس ہو گئے ہیں مگر بہو کی گود اب بھی خالی ہے ۔ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ جسمانی کمزوری آ ڑے آ رہی ہے ۔بہو کو کھلا ئیں پلا ئیں تاکہ اس کی صحت بہتر ہو کیو نکہ ما ں بننے کے لئے جسمانی صحت کا ہو نا ضروری ہے ۔لیکن کیا کریں بہو کھا نہیں سکتی ،پیٹ میں درد شروع ہو جا تا ہے ۔معدہ کچھ قبول ہی نہیں کر تا ۔بہو کا کہنا ہے کہ مسلسل ڈا ئیٹنگ سے اب کچھ کھانے سے قا صر ہو ں ۔بلکہ مزید کمزوری ہو رہی ہے ۔
ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ میڈیا نے ا شتہا رات اور مختلف پرو گرا مو ں کے ذریعے اس سوچ کو ہوا دی ہے ۔لڑ کیا ں ان ماڈلز کو اپناآ ئیڈیل بنا لیتی ہیں جو انہیں پسند آ تی ہیں ۔اسی طرح لڑ کے بھی شو بز کی لڑ کیو ں کو عموماً اپنا آ ئیڈیل بنا لیتے ہیں اور شریک حیات بنانے کے لئے ایسی ہی لڑ کیو ں کی تلاش شروع ہو جا تی ہے جبکہ عملی زندگی کے تقا ضے شو بز سے الگ ہیں۔عورت پر ما ں کے روپ میں تخلیقی مشن کی ذمہ داری ہے جسے نبھا نا آ سان نہیں۔وہ ایک زندگی کے لئے اپنا رات دن ایک کر ڈالتی ہے تب کہیں وہ اس کونپل کوایک تنا ور درخت کی صورت دینے کے قا بل ہو تی ہے ۔اس ماں کے لئے صحتمند ہونا ضروری ہے ، ماڈل ہونا نہیں ۔اسے سایہ دار بنا نے کے لئے ما ں کو کن کن مرا حل سے گزرنا پڑ تا ہے یہ وہی جا نتی ہے ۔اولاد کی تر بیت کے مرا حل کچھ آ سان نہیں ہیں ۔
بلا شبہ فر بہ لڑ کیا ں بھی پر کشش ہو تی ہیں ۔حسن و خو بصور تی کے معیار میں شخصیت کے اور پہلو بھی ہیں جو اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ا خلاق و کردار کا حسن تو خود بو لتا ہے ۔گر ہستی کا ہنر بھی اس کی شخصیت کو چمکانے میں اہم کردار ادا کر تا ہے ۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مشرق نے مغرب کی تقلیدمیں صفر قامتی کو اپنا خواب بنا لیا اور اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ وہاں کی لڑ کیو ں کا ا صل مشن ملا زمت کر کے پیسہ کمانا ہے ہماری طرح خاندانی ذمہ داریاں ان کے لئے مقدم نہیں ہو تیں ۔ایک سروے کے مطا بق وہاں کی اسکنی لڑ کیا ں فر بہ کی نسبت سالا نہ 22000 ہزار ڈالر زیادہ کما لیتی ہیں۔امریکی اور یو رپی پتلو نو ں کے سا ئز دیکھ کر ہماری لڑ کیا ں حسرت کا شکار ہو جا تی ہیںاور پھر ان میں فٹ آ نے کے لئے فا قو ں کا سہا را لیتی ہیں ۔با ڈی ماس انڈکس”بی ایم آئی“سے خو بصورتی کو پرکھنا آ سان ہے جو وزن ،قد اور کمر کے گھیرے کے تنا سب سے نکا لا جا تا ہے۔طبی تحقیق کے مطا بق اگر یہ ”19“ہو تو مثالی سمجھا جاتا ہے ۔
ماہرین کے مطا بق ” فیٹ = فر ٹیلٹی“ کا فار مو لا وا ضح کرتا ہے کہ عورت کی ہڈیو ں پر گو شت ہو گا تو اسے اپنے تخلیقی مشن کی ادائیگی میں آ سا نی ہو گی ۔صحت مند عورت ہی ایک اچھی بیوی اور اچھی ما ں ثابت ہو تی ہے۔ مغرب میں اسی شعور کی خا طر ” ہارڈی گرلز ہیلدی ویمن“ نا می تنظیم کا میا بی سے کام کر رہی ہے اور خا صے ایوارڈز بھی حا صل کر چکی ہے ۔مشرقی معا شرے میں اس تنظیم جیسا فریضہ مشترکہ خاندانی نظام ادا کرتا ہے جہاں بزرگ خواتین بہترین ٹرینر ہو تی ہیں۔لڑ کیا ں شعور کو پہنچنے تک خا ندا نی زیر و زبر سے آ گا ہ ہو جا تی ہیں۔انہیں کس طرح خود کو رشتوں نا توں اور اپنی صحت کا خیال رکھنا ہے ،وہ یہ ذمہ داری جا نتی ہیں ۔
ایسے وا قعات سے آ گاہ کرنے کا مقصد روایات اور ما ضی سے آ گا ہی ہے ۔لڑ کیو ں کے لئے گھریلو کام کاج ورزش کا درجہ رکھتے تھے ۔زیروسا ئز کا تصور بھی نہیں تھا ۔پنجا بی میں انہیں فخر سے ” مٹیار “یا” جٹی“ کہہ کر بلاتے تھے ۔صفر قامتوں کو شادی سے پہلے اچھی خوراک کھلائی جا تی تھی ۔سڈول یعنی مناسب حد تک فربہ ہو نا صحت مندی کی علامت تھا ۔انہی کو دو شیزہ کہتے تھے ۔دیہا ت میں یہ پیٹھ پر بچے کو لادے کھیتو ں میں کام کرتی نظر آ تی تھیں۔ہم نے مغربی روایات کو اعلیٰ جانا لیکن افسوس جن کی تقلید کی ،انہو ں نے بھی اس صفر قا متی کو رد کر دیا ۔اب وہ بھی ماڈلنگ کے لئے ”صحتمند “لڑ کیو ں کا انتخاب کرتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ مداحوں کے کہنے پر کیاگیا ہے کیونکہ ان کے مطابق ” ہڈی چمڑے“ پر تو لباس کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔
مغرب کی تقلید میں اولاد اور وا لدین میں فا صلے بڑ ھنے کے باعث بھی من مانی عروج پر ہے ۔بیٹی لیپ ٹا پ لے کر اپنے کمرے میں بند ہو گئی اورما ں اس پر صدقے واری جا تی ہے ۔محفلو ں میں فخر سے کہتی نظر آ تی ہے کہ میری بیٹی کو تو اپنے پرا جیکٹ سے ہی فر صت نہیں ملتی ۔گھر کا کام اور کچن اس کے بس میں کہا ں؟ہا ں جم ضرور بھیجتی ہو ںکہ کہیں مو ٹی نہ ہو جا ئے ۔ ایک خاتون اتراتے ہو ئے بو لیںکہ تایا تائی نے میری بیٹی کے لئے امریکہ سے شر ٹس اور پتلو نیں بھیجی ہیں۔شکر ہے پو ری آ گئی ۔
اعلیٰ طبقے کی نقا لی میں متوسط طبقہ بھی کہیں کا نہیں رہا۔ما ضی میں مکھن ،لسی اور مر چو ں کی چٹنی سے رو ٹی کھا کربھی کیا گلاب کی پنکھڑی جیسے چہرے ہو تے تھے لیکن اب پنکھڑ یا ں رہ گئیں، گلاب مو ہو م ہو گئے۔فا قے اب ما ڈرنزم کا حصہ بن چکے ہیں ۔زیرو سائز یا چھریرے خدو خال ،دور جدید کی لڑ کیو ںکا جنون ہے۔ فا قے کا فیشن بھی خو بصورتی کا تقا ضا سمجھا جانے لگا ہے ۔ اب بھی وقت ہے ۔کسی بھی روش کوترک کرنا مشکل نہیں۔یہ ورثہ تھوڑی ہے جسے ساتھ رکھنابے حد ضروری ہے۔
 

شیئر: