Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”مجبور ہیں،معذور ہیں ، مردان خرد مند“

تسنیم امجد ۔ریا ض
آ پی کے شو ہر بلا شبہ قابل تعریف ہیںکیونکہ وہ گھر آ کر بیگم پر کو ئی حکم نہیں چلاتے بلکہ آ گے بڑ ھ کر ننھی کو تھام کر انہیں کہتے کہ فکر نہیں کرو یہ میرے پاس ہے ،تم آ رام سے کھانا وانا گرم کر لاﺅ۔ایک دن تو آ پی نے نہایت مسکین سی صورت بنا کر کہا کہ آ ج تو با ہر کھانا کھانے کو دل چا ہ رہا ہے۔بھیا پہلے تو بو لے کہ آج ویک اینڈ تو نہیں لیکن چلو تمہارا دل چاہ رہا ہے تو چلتے ہیں ۔
عموماً وہ کچن میں جا کر آ پی کا ہاتھ بٹاتے جبکہ آ پی انہیں رو کتیں کہ مجھے ا چھا نہیں لگتا کہ آپ کچن میں کام کریں۔یہ مردانہ شان کے خلاف ہے لیکن وہ کہتے کہ آپ بھی تو سارا دن کام کرتی ہیں۔ننھی کو سنبھا لتی ہیں ۔میں تو تھو ڑی سی مدد کردیتا ہو ں، یوںمجھے کچھ تسلی ہو جاتی ہے ۔اسی طرح کچھ اور شو ہروں کو بھی گھر کے کا مو ں میں ہا تھ بٹاتے دیکھا ہے ۔یہ تو رہا تصویر کا ایک ر خ۔
دوسرا رخ یہ ہے کہ شو ہر گھر میں گرج چمک کے ساتھ دا خل ہو تے ہیں اور پھر بر سنا شروع کر دیتے ہیں۔ما ضی کی چھاپ ان کے ذہنوں پرگہرا اثر رکھتی ہے ۔ہمارے ہاں عورت کو اعلیٰ مقام اور عزت و احترام دینے کی تعلیم دی جاتی ہے ۔اس کے با وجود وقت گزرنے کے سا تھ ساتھ معاشرے میں صنفِ نا زک کی حیثیت کو پیچیدہ بنا یا جانے لگا ۔دھنک کے صفحے پر ہم سے پو چھا گیا ہے کہ” پاکستانی خواتین دنیا کے اکثر مما لک کی عو رتو ں سے کہیں زیادہ خوش قسمت ہیں“ اس سلسلے میںیقیناکہا جا سکتا ہے کہ مختلف آ راءہو ں گی ۔
ہو نا تو یہی چا ہئے تھا کہ ہم مسلمان ہو نے کے نا تے اپنی عو رتو ں کو وہی مقام دیںجس کا ہمیں حکم فرمایا گیا ہے ۔ہم نے آ زادی اسی لئے تو حا صل کی تھی کہ اپنے دین کے مطا بق زندگی بسر کر سکیںلیکن افسوس ہم اپنے نظریے پر مکمل طور پر عمل پیرا نہ ہو سکے ۔اس کی وجہ ہمارے صاحبان ا ختیار ہیں ۔عوام بے چارے تو اپنا تن من دھن لگا کر اس سر زمین سے بے شمار امیدیں لگا ئے ہوئے تھے لیکن ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا ۔اس خطہ زمین کو ہر ایک نے اپنی جا گیر سمجھا ۔آ ئین بننے میں رکاوٹیں اسی لئے ڈالی گئیں کہ کہیں کوئی کسی لا ئحہ عمل پہ نہ چل دے ۔وسائل سے بھر پور اس سر زمین کی روح کو فنا کر دیا گیا جس بنیاد پر وطن حا صل کیا گیا تھا اسے بھلا دیا گیا ۔وطن میں نہا یت دکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم ہندو اور ہندوستان سے الگ ہو نے کے بعد بھی اس ثقا فت کو نہ بھو ل سکے جس سے منہ مو ڑ کر یہا ں آ ئے تھے ۔اسی وجہ سے ہما رے ہاں کے بعض مرد حضرات ، دل سے عورت کو وہ مقام نہ دے سکے جو بحیثیت مسلمان انہیں دینا چاہئے تھا۔بیٹی کی پیدائش پر رو نا دھو نا اور آ ہیں بھرنا ،زما نہ جا ہلیت کی طر ح ہی ہے ۔
پا کستانی عورت با ہمت ہے ۔وفا کے اس پیکر کو ”اُف“ نہ کرنے کی تر بیت دی جا تی ہے۔یہ شفقت ،محبت ،نر می اور علم و عقل کے ا حساس سے اپنے خاندان کی خدمت کے لئے ہر دم کمر بستہ رہتی ہے ۔بساط سے بڑھ کر کام کرتی ہے ۔یہاں بھی اسے نا کو ں چنے چبواننے میںکو کسر نہیں چھو ڑی جا تی لیکن اس کے خمیر میں صبر ہے ۔اپنے دکھ اپنے ہی سینے میں چھپا کر چہرے پر مسکرا ہٹ سجا ئے گھر سے نکلتی ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عو رتو ں نے کسی بھی ملک میں برابری حا صل نہیں کی ۔اقوام متحدہ پہلی تنظیم ہے جس نے عور تو ں کے حقوق پر کام کیا ۔1979ءمیں خواتین کے حقوق نا مے پر 161ممالک متفق ہو ئے۔معاشی حالات سے عو رتیں زیادہ متا ثر ہو تی ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق ان کی اکثریت ایک وقت کھا نا کھا تی ہے اور بعض اوقات وہ بھی بچو ں کے آ گے رکھ دیتی ہے ۔وہ ایسی ایسی مز دوری بھی کرتی دکھا ئی دیتی ہے جو اس کی صنف کے لئے کسی طور بھی مو زوں نہیں ہو تی ۔20 ویں صدی میں اس مظلوم کو حقوق کی حفا ظت کا لا لچ دے کر فیکٹر یو ں میں مز دوری کے لئے بھی آ مادہ کر لیا گیا ۔دو سری جنگِ عظیم میں انہیں جہا ز سا زی ،جنگی سا مان ،ہتھیار اور اسی سے مر بوط دو سری اشیاءکی فیکٹر یو ں میں کام دیا گیا ۔ان کی اجرت مردو ں سے بہت کم تھی ۔ان دنو ں12سے 18 ملین عو رتیںجنگ سے متعلق پلا نٹس پر معمور ہیں۔آج کی عورت فیکٹر یو ں میں مشین کی طر ح کام کر تی ہے ۔یہ حال سبھی ممالک کا ہے ۔
وطن عزیز میں مسائل کا رونا ہے ۔کسی نے بھی منظم انداز میں ان مسئلوں کا حل تلاش نہیں کیا ۔ہما رے ہا ں ان حالات میں بھی عورتوں نے مر دو ں کے شا نہ بشانہ چل کر خود کو منوا نے میں کوئی کسر نہیں چھو ڑی ۔صوبائی سطح پر ہر علاقے کے خود سا ختہ قوا نین ہیں ۔آج پاکستانی عورت ہر شعبے میں کام کر رہی ہے ۔خیبر پختو نخوامیں بھی یہ پو لیس میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ہمارے آ ئین کا آرٹیکل 25 خواتین کی برابری ظاہر کرتا ہے ۔سیاسی افرا تفری کے با وجود ہمارے ہا ں کی خوا تین نہایت عزم کے ساتھ آ گے بڑھی ہیں اور بڑھ رہی ہیں۔2014 ءمیں 20.7 فیصد خواتین سیاست میں آ ئیں۔ذرا تا ریخ کے صفحات پلٹیں تو ایک طویل فہرست سامنے آ ئے گی۔بیگم رعنا لیاقت علی خان ،بیگم شا ئستہ اکرام ،بیگم محمود سلیم خان ،بیگم و زیر خان ،بیگم نصرت بھٹو ،بے نظیر بھٹو ،فہمیدہ مرزا ،بیگم نسیم ولی خان ،سیدہ عا بدہ حسین ،شیری ، تہمینہ دو لتا نہ ،حنا ربا نی کھر ،سا نیہ نشتر ،نگار ا حمد اورحال ہی میں ملا لہ یو سف زئی نے بھی اتنی چھو ٹی عمر میں نو بل پرا ئز حا صل کر کے خود کو منوایا ۔
اس میں کو ئی شک نہیں کہ پا کستا نی خوا تین کو مغرب کے مقا بلے میں زیادہ حقوق میسر ہیں ۔یہ خود کو منوا رہی ہیں۔ما ضی قریب میں ہی لندن کے ہو ٹل کی ریسیپشن میں کھڑی خاتون سے ہماری گفتگو ہو ئی ۔کہنے لگی یہ جو میری انگلی میں چھلا ہے یہ میرے منگیتر نے دیا ہے ۔ گزشتہ 6برس سے ہم ایک دو سرے سے منسوب ہیں لیکن وہ شادی کے لئے ٹا لتا جا رہا ہے ۔مجھے یہ بھی بھرو سہ نہیں کہ کب وہ یہ چھلا واپس ما نگ لے ۔ہم عو رتیں بہت بے بس ہیں ۔تم بہت خو ش قسمت ہو جو جلد شو ہروں کے گھر ر خصت ہو جاتی ہو ۔
وطنِ عزیز کی خواتین رعب بھی ڈالتی ہیں ،اپنی بھی منواتی ہیں لیکن پسِ پردہ کیا ہے یہ وہی جا نتی ہیں ۔کیا خوب کہا گیا ہے کہ:
اس راز کو عو رت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں،معذور ہیں ، مردان خرد مند
یہ سچ ہے کہ عو رت کے وجود میں جاری ” بقا کی جنگ “اسے کبھی کبھی خود سر بننے پر مجبور کرتی ہے ۔اس لئے کہ وہ بھی مرد کی طر ح ایک انسان ہے ۔شعور اور لا شعور میں چلتی آ ند ھیو ں کا رخ وہ کس سمت مو ڑے ؟ وہ تو مجسم قربانی ہے ۔جب اسے احساس ہوا کہ معا شی بو جھ مرد اکیلا نہیںا ٹھا پا رہا تو اس نے شرا کت حیات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا شانہ پیش کر دیا ۔اس کی اپنی ذمہ داریا ں بڑھ گئیں لیکن وہ مسکراتی رہی ۔اسے شوہرکی خو شنو دی حا صل ہو ئی یا نہیں ،اس کا علم اسے نہیں ہو سکا ۔وہ دور غلامی کے اثرات محو کرنے میں ناکام ہو چکی ہے ۔کسی نے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا کہ وہ با عث ر حمت ہے ،ز حمت نہیں ۔باعث الزام نہیں ،لا ئق احترام ہے ۔وہ گھر کی با ندی نہیں ،ملکہ ہے۔شوہر کی طرف سے محبت کے دو بول سن کر وہ ہوا ﺅ ں میں ا ڑ نے لگتی ہے لیکن:
او نچا ہو میرا سر یہ کو ئی چا ہتا نہ تھا 
سو لی پہ بھی چڑ ھی تو گرانے لگے مجھے
یہ گمان نہیں ،حقیقت ہے کہ اکثر مردوں کو اپنی حا کمیت کا گھمنڈ ہے ۔جہا ں بھی وہ خا مو شی ا ختیار کرتے ہیں وہاں کو ئی نہ کو ئی دال میں کالا ضرورہو تا ہے ۔ایسا مرد سر جھکا کر بیوی کی با تیں سنتا اور ر عب سہتا نظر آ تا ہے لیکن گھر سے با ہر کی دنیا اس کی ہو تی ہے ۔وہاں وہ اپنی من مانی کر تاہے ۔اس طرح اس سے بدلہ لیتا ہے ۔اس کے لئے بہترین بدلہ دوسری شادی رچا نا ہے ۔کاش وہ سوچ لے کہ بدلہ تو برابر والوں سے لیا جا تا ہے جو پہلے ہی کمزور ہو اس سے کیا بدلہ لینا ؟ان حالات میں وہ سرد آ ہ بھر کر بچپن کے وہ دن یاد کرتی ہے جب اس کے حصے کا نوالہ بھی اس کے بھا ئی کو کھلا دیا جا تاتھا ۔وہ تو بچپن سے ہی ایک تنہائی کے خول میں بند ہے ۔یہ ما ننا ہو گا کہ جہالت محض ان پڑھ رہنے کا نام نہیں بلکہ اپنی ذمہ دار یو ں سے غافل رہنا بھی جہا لت ہے ۔
 

شیئر: