ہمیں بچپن سے ہی پڑھائی کا بے حد شوق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے 166ماہ کی عمرمیں ہی اسکولی تعلیم مکمل کر لی تھی۔ اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد سے لے کر آج تک ہم نے ہزاروں مرتبہ ہی اپنے آپ سے سوال کیاکہ آخرہمارے نصاب میں ایسی متعدد باتیں کیوں شامل رہیں جن کا ہماری زندگی اور اس کے معمولات سے نہ توکوئی سروکار تھا، نہ ہے اور نہ ہی ہو گا۔ اس حوالے سے انتہائی زود اثر مثال پیش کر کے آگے بڑھیں گے۔ مثال ملاحظہ ہو: آج سے کئی صدیوں قبل کاذکر ہے کہ یونان شونان میں کہیں ایک میاں بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہوا جس کانام انہوں نے ’’فیثا غورث‘‘ رکھا۔ وہ بڑا ہوا تو اسے عجیب عجیب خیال آنے لگے۔ اس نے اپنی اماں سے کہا کہ مجھے کچھ کچھ خیالات آتے ہیں۔ اماں نے کہا کہ بیٹا یہ عام سی بات ہے ، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ یہی بات اس نے اپنے ابا کے گوش گزار کی تو انہوں نے بھی ڈانٹ کر کہا کہ انسان بنو،ورنہ تو میں سیدھا کر دوں گا۔ جب فیثا نے دیکھا کہ اماں ابا اس کی باتوں کو درخور اعتناء نہیں سمجھ رہے تو اس نے اپنے خیالات کو قلمبند کرنا شروع کر دیا۔اس نے ایک تکون یعنی مثلث بنائی جس کا ایک ضلع کھڑا رکھا جسے عمود کہا، ایک لٹا دیا جسے قاعدہ کہا اور ایک ضلع ڈھالو رکھا جسے ’’وتر ‘‘ کا نام دیا۔فیثا کی یہ بات بظاہر بالکل بے کار،عبث اور لا یعنی سی تھی مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ سمجھ آتی تھی۔ بہر حال لوگوں نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ خواندگان کی سوچوں میں انقلاب تو اس وقت آیا جب فیثا غورث نے کہا کہ : ’’عمود کا مربع+قاعدے کا مربع=وتر کا مربع‘‘ یہ سن کر تو فیثا غورث کی استانیاں بھی ہڑبڑا گئیں اور انہوں نے اپنی جوتیاں اتار کر فیثا کی خوب درگت بنائی مگر فیثا اپنی بات پر اڑا رہا، ٹس سے مس نہیں ہوا۔ وہ روزانہ اسکول جا کر ہم جماعتوں کو یہی سمجھاتا کہ میں نے جو بات کہی ہے وہ بالکل درست ہے ۔پھر یوں ہوا کہ فیثا غورث نے اپنی بات منوا کر چھوڑی اور بعد ازاں اس کی اس ’’ہٹ دھرمی‘‘ کو ’’مسئلہ‘‘ مان لیا گیا اور اسے اسی سے منسوب کر دیا گیا۔ ہمیں اسکولی تدریس میں ’’مسئلہ فیثا غورث‘‘ سمجھایا، لکھایا، پڑھایا اور بتایا گیا مگر یہ ہماری سمجھ میں نہ آنا تھا اور نہ آیا۔مس روز ہم سے یہ مسئلہ سنتیں، ہمیں یاد نہ ہوتا اور پھر ہمیں مار پڑتی۔اسی مسئلے کی وجہ سے ہم ریاضی میں فیل بھی ہوئے۔ ہم آج بھی صاحبانِ حل و عقد سے استفسار کرنا چاہتے ہیں کہ نہ تو انسان کی تربیت کیلئے مسئلہ فیثا غورث ضروری ہے نہ صحت قائم رکھنے کے لئے ، نہ یہ منگنی کیلئے ضروری ہے اور نہ شادی کے لئے ، نہ طلاق کے لئے ضروری ہے ، نہ خلع کے لئے ،نہ یہ بچوں کا باپ بننے کے لئے ناگزیر ہے اور نہ ماں بننے کے لئے پھر آخر یہ ہمیں کس لئے پڑھایاجاتا ہے ؟یہ سوال ہم نے کس کس سے نہیں کیا، ہم نے ٹاٹ اسکول ، کانونٹ ، پھر کالج اور جامعہ کی ہر ہر استانی اور استادسے یہ سوال کیا، پولیس والوں سے پوچھا، پرچون والوں سے ، ڈاکٹروں سے ، انجینیئروں سے، مہترانیوں سے ، اداکارائوں سے ، فنکاروں سے ، اخباروں سے ، صحافیوں سے ، محلے داروں سے ، اپنے دشمنوں سے اور پیاروں سے ، سب سے پوچھا مگر کسی نے کوئی جواب نہ دیا ۔ پھر ہماری شادی ہوگئی۔ہم نے اپنی منکوحہ سے سوال کیا کہ ہمیں مسئلہ فیثا غورث کیوں پڑھایا گیا ، اس کا زندگی کے کس شعبے میں فائدہ سامنے آسکتا ہے ؟ اہلیہ نے جو جواب دیا، اس نے ہمیں خاموش کر دیا۔ اس دن کے بعد سے ہم پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے ارد گرد غور کرتے رہتے ہیں۔ ہماری نصف بہتر نے فرمایا: ’’آپ کو یاد ہے مس شکیلہ نے ہمیں گنتی یاد کرائی تھی جو یوں تھی ’’اکائی ، دھائی ، سیکڑہ ، ہزار ، دس ہزار، لاکھ، دس لاکھ، کروڑ، دس کروڑ، ارب ، دس ارب، کھرب ، دس کھرب ،نیل ، دس نیل، پدم، دس پدم، سنکھ، دس سنکھ، مہا سنکھ۔‘‘ اگلے روز مس شکیلہ نے جب یہ گنتی سب سے سنی تو آپ کو یاد نہیں تھی جس پر انہوں نے آپ کو 41منٹ تک مرغا بنائے رکھا تھا ۔ اس وقت بھی آپ نے اعتراض کیا تھاکہ اتنی لمبی چوڑی گنتی پڑھانے، سمجھانے اور یاد کرانے کی کیا ضرورت ہے۔زیادہ سے زیادہ لاکھ تک کی گنتی ہونی چاہئے کیونکہ جو چیز آدمی اپنی زندگی میں حقیقی آنکھوں سے دیکھنے کے قابل ہی نہ ہو سکے، اسے یاد کرنے، رٹنے اور ذہن نشین کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ہماری دسیوں خواہشیں ہوں گی، سیکڑوں میں کمائی ہوگی، ویسے ہی اخراجات ہوں گے۔ چند درجن برس کی زندگی ہوگی پھر بھی ہم لاکھ تک گنتی یاد کر رہے ہیں تو کافی نہیں ہے؟آپ نے یہ سوال آج سے 50برس قبل کیا تھا مگرا س کا جواب آج ملاہے۔ اب آپ بتائیے کہ ٹیکس ایمنسٹی کے تحت جب ’’چھوٹے موٹے چور‘‘پاکستان کے غریب عوام کے منہ کا نوالہ چھین کر ملکی خزانے سے لوٹی گئی دولت کی سیاہی کو 5 فیصد کٹوتی کے ذریعے دھوئیں گے اوراسے اپنا ’’پیدائشی حق‘‘ سمجھ کر جیب میں رکھیں گے تواس 5فیصد سے حکومت کو 1.5ارب ڈالر حاصل ہوں گے۔ انہیں روپوں میں تبدیل کرنے کے لئے 118سے ضرب دینی ہو گی۔ اب اگر آپ کو مس شکیلہ اکائی دہائی کی گنتی لاکھ تک سکھاتیں تو آج آپ 1.5ارب یعنی 1500کروڑ ڈالروں کو روپے میں تبدیل کرنے کے قابل ہی نہ ہوتے اور آپ یہ اندازہ بھی نہ لگا سکتے کہ غیر سیاسی لوگوں نے کتنی دولت لوٹی اور سیاسی رہنمائوں نے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے کس طرح بیرون ملک اثاثے بنائے ہیں۔ یہی حالت فیثا غورث کی بھی ہے۔یقین جانئے ، سیاسی اونٹ جیسے ہی کسی کروٹ بیٹھا، آپ فیثا غورث کی ذہانت کے قائل اور اس پر فریفتہ ہو جائیں گے اور آپ کو پتا چل جائے کہ وتر کا مربع کس لئے قاعدے کے مربعے اور عمود کے مربعے کے مجموعے کے مساوی ہوتا ہے،پھر آپ دوسروں کو بھی فیثا غورث کی لیاقت ، اہلیت ، قابلیت و صلاحیت کا قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیں گے ۔ اپنی اہلیہ کی گفتگو سن کر ہمیں احساس ہوا کہ بیوی کو شاید ’’اہلیہ‘‘اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ ’’اہل ‘‘ ہوتی ہیں۔