’’رات کے آخری حصے میں آدمی اپنے رب کے بہت قریب ہوتا ہے، اگر تم ان گھڑیوں میں اللہ کا ذکر کرسکو تو ضرورکیا کرو‘‘
* * * قاری محمد اقبال عبد العزیز۔ ریاض* * *
معزز قارئین! ہمیں یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کون کون سے اسباب و وسائل ہیں جن کو اختیار کرنے سے دعا کی قبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ کتاب وسنت میں ان اسباب کی نشاندہی کردی گئی ہے ۔ ذیل میں چند اسباب وذرائع اختصار سے بیان کیے جارہے ہیں:
٭ رزق حلال کا اہتمام کرنا:
کوئی شخص جس قدر حلال وطیب غذا اپنے جسم میں اتارے گا اسی قدر زیادہ مستجاب الدعوات ہوگاجبکہ حرام خور شخص طویل سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد بیت اللہ شریف میں پہنچ کر دونوں ہاتھ بلند کرکے بلند آواز سے رب تعالیٰ کو پکارے تو بھی اس کی غذا اور لباس حرام ذرائع سے حاصل ہونے کے باعث اس کی دعا قبول نہیں کی جاتی۔
معجم طبرانی اوسط میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓنے نبی کریم سے عرض کیا:
اللہ کے رسول ! میں مستجاب الدعوات کیسے بن سکتا ہوں؟
آپ نے فرمایا:
أَطِبْ مَطْعَمَکَ تَکُنْ مُسْتَجاَبَ الدَّعْوَۃِ۔
’’ اپنا کھانا پینا مشتبہات سے پاک رکھو تو مستجاب الدعوات بن جاؤگے۔‘‘
٭ فضیلت والے اوقات میں دعا کرنا:
« اذان کے وقت:
مؤذن جب اذان کہتا ہے تو ایسے وقت میں کی جانے والے دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ سے بیان کرتے ہیں کہ پیارے نبی کریم نے فرمایا:
’’جب مؤذن اذان کہتا ہے توآسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔‘‘(المستدرک)۔
« اذان اوراقامت کے درمیان:
ایک بندہ مؤمن اگر نماز کے اوقات میںاذان اوراقامت کے درمیان دعا کرے تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اس کی دعا قبول کرلی جائے۔اس لئے کہ نبی کریم کا فرمان عالی شان ہے :
’’ اذان اوراقامت کے درمیان مانگی جانے والی دعا نامنظور نہیں ہوتی۔ ‘‘
صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم اس وقت میں کیا مانگا کریں؟
آپ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی عافیت کا سوال کیا کرو۔‘‘(ترمذی)۔
« سحر کے وقت:
ہر رات کے آخری حصہ میں اجابت دعا کے خصوصی لمحات ہوتے ہیں۔ اس وقت میں دعا واستغفار کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں کئی جگہ تعریف وتوصیف فرمائی ہے: ارشادباری تعالیٰ ہے:
وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَار۔
’’اور پچھلی رات کو بخشش مانگنے والے۔‘‘(آل عمران17)۔
نیز ارشاد ربانی ہے:
کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ،وَبِالْاَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْن۔
’’(اﷲ کے وہ بندے) رات کو بہت کم سویاکرتے تھے اورسحر کے وقت وہ (توبہ و)استغفار کیا کرتے تھے۔‘‘(الذاریات 18,17)۔یہ بات معلوم ہے کہ استغفار بھی دعا ہی کی ایک قسم ہے۔
کتب حدیث میں نبی کریم کا ارشاد گرامی ہے:
’’ہمارا رب تبارک وتعالیٰ ہر رات کے آخری تہائی حصہ میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اوریہ اعلان کرتا ہے: ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا میں اس کی دعائیں قبول کروں۔ ہے کوئی مجھ سے سوال کرنے والا میں اس کو عطا کروں۔ ہے کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا میں اس کی مغفرت کردوں۔‘‘(متفق علیہ)۔
سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:
’’رات کے آخری حصے میں آدمی اپنے رب کے بہت قریب ہوتا ہے، اگر تم ان گھڑیوں میں اللہ کا ذکر کرسکو تو ضرورکیا کرو۔‘‘(ترمذی)۔
« زوال کے بعد نماز ظہر سے قبل دعا:
سیدنا عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ زوال آفتاب کے بعد نماز ظہر سے پہلے 4 رکعت نماز ادا کرتے اورفرماتے:
’’یہ ایک ایسی گھڑی ہے جس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اورمیں یہ پسند کرتا ہوں کہ ان لمحات میں میرے نیک اعمال اوپر جائیں۔‘‘(ترمذی)۔
« جمعہ کے روز:
دعا کی قبولیت کے سلسلہ میں جمعہ کے دن کی ایک خاص اہمیت ہے۔صحیحین میں سید الاولین والآخرین نے جمعہ کے دن کا ذکر کیااور فرمایا:
’’ اس میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ مسلمان بندہ اسے اس حا ل میں پالے کہ وہ قیام میں کھڑا ہو کر اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز طلب کررہا ہو تو وہ چیز اسے عطا کردی جاتی ہے( آپ نے انگلی کے اشارے سے بتلایا کہ) وہ تھوڑا سا وقت ہوتا ہے۔‘‘(متفق علیہ)۔
سنن ابن ماجہ کی ایک روایت حدیث نمبر1139 میں یہ بھی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ نے نبی کریم سے سوال کیا توآپ نے بتلایا کہ وہ گھڑی دن کے آخری لمحات میں ہوتی ہے۔ میں نے عرض کیا: وہ وقت تو نماز کے لیے ممنوع ہے تو آ پ نے فرمایا:اگر بندہ مؤمن نماز پڑھ کر مسجد میں ذکر ودعا کے لیے بیٹھ جائے تو اس کا یہ بیٹھنا نماز ہی میں شمار ہوتا ہے۔
اس روایت کو شیخ البانی نے حسن( صحیح) کہا ہے۔
چونکہ یہ دونوں روایات صحیح ہیں لہذا نیکی کے حریص کو چاہئے وہ ان دونوں وقتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔
« یوم عرفہ کی دعا:
فضیلت والے اوقات میں سے عرفہ کے دن کی ایک خاص اہمیت ہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:
’’ کوئی دن ایسا نہیں کہ جس میں عرفہ کے دن سے بڑھ کراللہ تعالیٰ بندوں کو جہنم سے زیادہ رہائی دیتا ہو۔ اللہ تعالیٰ حجاج کے نزدیک ہو جاتا ہے پھر ان کا ذکر فرشتوں کے سامنے فخریہ انداز سے فرماتا ہے اور پوچھتا ہے : یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟۔‘‘(مسلم)۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں جمعہ کے دن کی اور عرفہ کے دن کی قسم اٹھائی ہے۔ سورۃ البروج میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَشَاہِدٍ وَمَشْہُودٍ‘‘۔
امام بیہقی نے اپنی سنن میں ایک روایت بیان کی ہے جس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا:
’’ الشَّاہِدُ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ وَالْمَشْہُودُ یَوْمُ عَرَفَۃَ ‘‘(البیہقی)۔
«عشرہ ذوالحجہ میں کی جانے والی دعا:
ذوالحجہ کے پہلے10 دن پورے سال کے دنوں سے زیادہ افضل اور قیمتی ہیں ۔سیدنا عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا:
’’پورے سال میںکوئی بھی دن ایسے نہیں جن میں نیک عمل اللہ کو اس قدر محبوب ہو ںجس قدر ذو الحجہ کے ان10 دنوں میں کئے گئے نیک اعمال اللہ کو محبوب ہوتے ہیں ۔‘‘
صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں؟
آپ نے فرمایا : جہاد بھی نہیں الا یہ کہ کوئی شخص اپنی جان ومال لے کر نکلے اور پھر اس میں سے کچھ بھی لے کر واپس نہ آئے۔‘‘(ابو داؤد)۔
« افطار کے وقت:
روزہ دار کی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔ خصوصاً افطار کے وقت رحمت الٰہی اس کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں ، رسول اللہ نے فرمایا:
’’3 شخصوں کی دعا نامنظور نہیں ہوتی:روزہ دار کی حتیٰ کہ وہ روزہ افطار کرلے، امام عادل کی اور مظلوم کی…آخر حدیث تک۔‘‘(ترمذی)۔
« بدھ کے روز ظہر اور عصر کے درمیان:
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
رسول اللہ نے مسجد فتح میں 3 روز تک دعا کی : پیر کے دن، منگل کے دن اور بدھ کے دن، آپ کی دعا بدھ کے روز 2 نمازوں (ظہر و عصر)کے درمیان قبول ہوگئی تو آپ کے چہرہ انور پرخوشی کے آثار نمایاں ہوگئے ۔ سیدنا جابر کہتے ہیں : اس کے بعد جب بھی مجھے کوئی مشکل صورت حال پیش آئی تو میں نے انہی گھڑیوں میں دعا مانگی اور میرا مسئلہ حل ہو گیا۔‘‘(مسند احمد) ۔
« پیر اورجمعرات کے ایام میں:
ہفتہ میں 2 مرتبہ بندوں کے اعمال بارگاہ الہٰی میں پیش کئے جاتے ہیں۔ پیراور جمعرات کو مغفرت کے فیصلے ہوتے ہیں چنانچہ ان ایام میں دعا کرنے والا رحمت اور مغفرت سے محروم نہیں رہتا۔صحیح مسلم میں امام الانبیاء کا ارشاد گرامی ہے:
’’ جنت کے دروازے پیر اور جمعرات کو کھولے جاتے ہیں، اس موقع پر ہر اس شخص کی مغفرت ہو جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو ،سوائے اس شخص کے جس کی اپنے بھائی کے ساتھ کوئی اَن بن ہو ۔ ان کے بارے میں فرمایا جاتا ہے: ان دونوں کامعاملہ اس وقت تک مؤخر رکھو جب تک یہ آپس میں صلح نہیں کرلیتے۔‘‘(مسلم) ۔
« رمضان المبارک میں:
اس ماہِ مبارک میں عبادات کا اجر وثواب بڑھا دیا جاتا ہے اور نیکی اورعبادت کرنا نسبتاً آسان بھی ہو جاتا ہے ۔نبی کریم کا فرمان ذی شان ہے:
’’ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین وسرکش جناتوں کو باندھ دیا جاتا ہے اور جہنم کے دروازوں کو اس طرح بند کردیا جاتا ہے کہ کوئی دروازہ اس میں سے کھلا نہیں چھوڑا جاتا اور جنت کے دروازے اس طرح کھول دئیے جاتے ہیں کہ کوئی دروازہ ان میں سے بند نہیں کیاجاتا اور ایک پکارنے والا آواز لگاتا ہے : اے بھلائی کے طلب گار! آجا اور اے برائی کے طلب گار !بس کردے۔ رمضان کی ہر رات میں بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزاد کیا جاتا ہے۔‘‘(ترمذی)۔
« لیلۃ القدرکی دعا:
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ایک ایسی رات ہے جس کی عبادت ہزار مہینے کی عبادت سے بہتراورافضل ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسول سے سوال کیا کہ اگر میں اس رات کو پا لوں تو کون سی دعا مانگوں۔ آپ نے فرمایا:
’’ اے اللہ! آپ بہت زیادہ معاف کرنے والے ہیں ، معافی کو پسند کرتے ہیں، مجھے معاف کر دیجئے۔‘‘(ترمذی)۔
٭ فضیلت والے احوال میںدعا کرنا:
« رکوع میں دعا کرنا:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم رکوع میں یہ دعا کثرت سے پڑھا کرتے تھے:
’’اے اللہ! میں نے تجھی کو رکوع کیا، تجھی پر ایمان لایا، تیرے لئے فرماں بردار ہوا، میری سماعت، میری بصارت، میرا دماغ ، میری ہڈیاںاور میرے اعصاب سب تیرے سامنے جھکے ہوئے ہیں۔‘‘(نسائی)۔
« سجدہ میں دعا:
جن احوا ل میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ان میں سجدہ کی حالت بہت اہم ہے۔ فرمان رسول کریم ہے :
’’ آدمی اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ حالت سجدہ میں ہوتا ہے۔‘‘(مسلم)۔
« 2لشکروں کی مڈبھیڑ کے وقت:
امام بخاری رحمہ اللہ’’ الأدب المفرد ‘‘میں حضرت سہل بن سعد سے ایک روایت لائے ہیں ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ اثر موقوفاً صحیح ہے اوریہ حکماً مرفوع ہے:
’’2گھڑیاں ایسی ہیں کہ ان میں کسی دعا کرنے والے کی دعا کم ہی نا منظور ہوتی ہے:ایک تو جب اذان ہوتی ہے اوردوسرے جب اللہ کی راہ میں قتال کے لئے صفیںدرست کی جائیں۔‘‘
« بارش کے وقت دعا:
جب بارش ہو رہی ہواُسوقت کی گئی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔ سیدنا سہل بن سعدؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا:
’’2وقتوں کی دعا رد نہیں ہوتی : ایک تو اذان کے وقت اور دوسری اس وقت کی دعا جب بارش ہو رہی ہو۔‘‘(مستدرک)۔