ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے ۔ اسی تربیت پر بچے کی شخصیت پروان چڑھتی ہے ۔ اخلاق کی جو تربیت ماں کی گود میں ہوتی ہے اسی تربیت پر بچے کی سیرت کے بننے یا بگڑنے کا انحصار ہوتا ہے ۔
اولاد کی اچھی تربیت اس قدر اہم ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے بارے میں فرمایا کہ ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ ۔ لہذا والدین کا فرض ہے کہ بچوں کے سامنے حسن اخلاق کا نمونہ پیش کریں تاکہ انکی اولاد عمدہ اخلاق کی حامل ہو ۔ اولاد کی اچھی تربیت کا فریضہ نہ صرف اسلام عائد کرتا ہے بلکہ ملک و ملت کی طرف سے بھی اس بات کا تقاضہ کیا جاتا ہے اس میں پلنے بڑھنے والے شہری اپنے وطن کا روشن مستقبل ہوں ۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تربیت جس انداز میں فرمائی وہ رہتی دنیا تک کے لیے نمونہ کامل ہے ۔ ان کے طرز کلام ، حسن خلق ، آداب گفتگو اور خشوع و خضوع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلک نظر آتی ہے ۔
اولاد کا والدین پر حق ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق اولاد کی دینی اور مروجہ تعلیم کا انتظام کریں ۔ اسے علم اور انسانیت کے زیور سے آراستہ کریں ۔ اس کی صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں اور اس کی دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنے میں اس کی مدد کریں ۔اسے سائنس وٹیکنالوجی کے علوم سے آراستہ کریں اس سے نہ صرف وہ معاشرے کا ایک مثبت فرد بن کے اٹھے گا بلکہ اس کے لیے حصول معاش میں بھی آسانیاں پیدا ہوگی اور یہی اولاد بڑھاپے میں والدین کا سہارا بنے گی ۔
والدین کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ اپنے تمام بچوں سے یکساں اور عدل و انصاف والا سلوک کریں ۔ اسلام میں لڑکے ، لڑکی یا چھوٹے ، بڑے کی کوئی تمیز نہیں ہے لہذا اولاد میں ترجیحی سلوک رکھنا یا کسی کو کوئی چیز دے دینا اور دوسروں کو اس سے محروم رکھنا جائز نہیں بلکہ سراسر ظلم اور نا انصافی ہے . اگر والدین اپنی اولاد کو پر اعتماد اور بہترین سیرت و کردار کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں تو انہں اپنی گود سے بہترین درس گاہ فراہم کرنی ہو گی .