نیکیوں کا موسم بہار ، سایہ فگن
مہمان کی آمد پر تیاری کرنا فطری عمل ہے ،عظیم المرتبت مہمان کی آمد پر شایانِ شان استقبال سے میزبان کی خوشیاں دوبالا ہوجاتی ہیں
* * * *ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔ مکہ مکرمہ* * * *
رمضان سے قبل شعبان کے یہ ایام ہمارے لئے استعداد رمضان کے شعور کو بیدارکرنے کیلئے بہترین ایام ہیں ۔ آنے والے مہمان ماہ کی ہم کس طرح خاطر مدارت کریں اور کیسے اس کے شب وروز کو اپنی دنیوی اوراخروی سعادت کیلئے بسر کریں یہ ہمیں آج سوچنا چاہئے ۔ رمضان کا قیمتی ماہ کہیں ہماری غفلت ہی میں نہ گزرجائے اور ہم اسے عام ایام کے لیل ونہار کی طرح غفلت کے نذر نہ کربیٹھیں کیونکہ در حقیقت یہ عام دنوں سے مختلف لیل ونہار اور ان کا غفلت میں بسر ہونا ہماری بدقسمتی کی واضح علامت ہوگی اس لئے اس قیمتی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں اس کے شب ورز کیلئے ایک مفصل اور قابل عمل اہداف اور پروگرام مرتب کرنے چاہئیں اور اس پر عمل کرنے کیلئے ہمیں اپنی تمام طاقت کو استعمال میں لانا چاہئے ۔یاد رکھئے کہ انسانی حیات میں وقت بہت ہی قیمتی اثاثہ ہے اور اس وقت کا صحیح انداز میں استعمال انسان کیلئے کامیابی کی واضح علامت ہے اس لئے اس مبارک وقت کو ہمیں اس کی تمام برکات ورحمات کے ساتھ حاصل کرنے کیلئے بہت فعال انداز میں مرتب پروگرام بنانے کی سعی کرنی چاہئے تاکہ اس کے گزرنے کے بعد اس کے وقت کے صحیح استعمال پر ہم اللہ تعالیٰ کے شاکر بنیں نا کہ شقی اور بدبخت ہوکر کفِ افسوس ملتے رہیں اور اس مبارک ماہ کی برکات کا تمام سال ہم پر ظہور ہوتارہے ۔
کسی بھی مہمان کی آمد پر ہم سب سے پہلے اپنے گھر کی صفائی کا خوب اہتمام کرتے ہیں اور مہمان کی قدر وقیمت کے حساب سے اس اہتمام میں اور بھی اضافہ ہوتاہے۔رمضان کی آمد سے قبل اپنے فرائض کی پابندی کا خوب اہتمام کریں اور جن حدود اللہ کے بابت گزشتہ11ماہ میں آپ سے سہو اور غلطیاں ہوتی رہی ہیں ان سے توبہ کرکے گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کریں ۔اپنے دل کو صاف کریں اور ان شہوات سے دور ہوجائیں جن میں آپ کسی بھی طورپر ماضی میں ملوث رہے۔ان بد نظریوں سے اللہ کے حضور توبہ کیجئے جو آپ کی آنکھ سے سرزد ہوئیں ۔آپ کی کانوں نے جو حرام سنا اس سے توبہ کیجئے ۔ جس حرام کی طرف آپ کا ہاتھ دراز ہوا اس سے توبہ کیجئے ۔جن گناہ کی طرف آپ کے قدم چلے ان سے معافی مانگیں۔ اپنی نیت کو درست کیجئے ۔ تمام اعمال کے صلاح وفساد اور قبولیت ورد کا مدار نیت پر ہے ۔ عملِ صالح اور اللہ کے نزدیک مقبول صرف وہی عمل ہے جو صالح نیت کے ساتھ کیا گیا ہو ۔اللہ تعالیٰ عمل کے ساتھ نیت اور ظاہرکیساتھ باطن کو بھی دیکھتا ہے ۔اس کے نزدیک ہر عمل کی قیمت اس کے نیت کے حساب سے ہے۔
آپ تقویٰ کی نعمت سے بہرور ہوجائیے۔ رمضان متقین کا مہینہ ہے اور قرآن اس کا روزے کی فرضیت کے اسباب میں اس کا واضح اعلان ’’لعلکم تتقون‘‘ کہہ کر کرتاہے۔صلہ رحمی کا اہتمام کریں اوراس میں آگے بڑھئے۔ صلہ رحمی کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے اردگر د اقارب اور تمام رشتہ داروں کے ساتھ احسان اور اچھائی کا معاملہ کریں ۔ جتنا آپ سے ممکن ہو ،انہیں فائدہ پہنچائیں اور جتنا آپ ان سے کوئی ضرر دور کرسکتے ہیں انہیں نقصان سے بچائیں ۔ان کے حقوق کا خیال رکھیں ،ان سے راہ ورسم رکھیں ۔ان کی خیریت دریافت کریں ، ان میں سے اگر کوئی مریض ہو تو اس کی عیادت کریں،انہیں ہدایا پیش کریں ،ان میں سے اگر کوئی تنگ دست ہے تو اس کی مدد کریں۔انکے خوشی اور غم میں شرکت کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کے ساتھ احسا ن کا حکم فرمایاہے ۔رمضان میں فضول لہو ولعب سے احتراز کیجئے ۔ اس کی مبارک گھڑیوں کو لہو ولعب کے نذ ر نہ ہونے دیں۔ اس مقام پر امام مالک کی یہ عادت یاد رکھیئے کہ جب رمضان کا مہینہ شروع ہوجاتا تو وہ اپنی علمی مجالس (علم حدیث کے مجالس)کو چھوڑ کر صرف قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف ہوجاتے تھے کیونکہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے ۔کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم خود کو اس کے لئے فارغ نہ کرسکیں اور اس کے دن پلک جھپک میں ہمارے ہاتھوں سے اڑجائیں اور ہم خاک چھانتے رہیں ،پھر اس افسوس اور کاش کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ رمضان المبارک سے متعلق چند نصائح درج ہیں۔
*گزشتہ رمضان کے اگر کچھ قضاء آپ پر ہیں تو انہیں ابھی سے ہی اداکریں ۔
*رمضان تلاوت قرآن کریم کا مہینہ ہے۔ابھی سے قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام شروع کریں تاکہ رمضان شروع ہونے سے قبل یہ آپ کے عادت کا حصہ بن چکا ہو اور رمضان میں یہ نیت کریں کہ قرآن کا ختم بمعہ تفسیر وتدبر کریں گے ۔
*رمضان قیام اللیل کا مہینہ ہے ۔ابھی سے نوافل کا اہتمام کریں تاکہ رمضان کے قیام اللیل سے قبل یہ آپ کی عادت بن چکا ہو۔
*رمضان دعاؤں کا مہینہ ہے ۔ابھی سے دعاؤں کو یاد کریں۔ اس کا اہتمام کریں ۔
*رمضان میں مساجد آباد ہوتی ہیں ۔ابھی سے مسجدوں میں عام عادت سے زیادہ بیٹھنے کی عادت ڈالیں ۔
*رمضان ’’ماہِ صیام‘‘ ہے ۔ ابھی سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالئے تاکہ دخولِ رمضان سے آپ کو روزوں کی مشقت کا احساس نہ ہو۔نبی کریم شعبان میں تمام مہینوں سے زیادہ روزے رکھتے تھے ۔
*لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کریں ۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہکی تعریف آپ کے حسن خلق اور لوگوں سے اچھے برتاؤ پر فرمائی ہے جیسا کہ ارشاد ہے’’وانک لعلی خلق عظیم‘‘، آپ لوگوں کے ایمان کو ان کے اخلاق سے جانچتے تھے۔ جس کے جتنے اخلاق بلند ہوتے تھے اِیمان میں بھی وہ عظیم الشان ہوتا ۔قیامت کے دن رسول اللہ کے مصاحب اور مجلس میں قریب ترین لوگ وہی ہوں گے جن کے اخلاق بلند ہوں گے ۔انفاق فی سبیل اللہ کا اہتمام کریں ۔ رمضان میں لوگوں کو افطاری کرانے کا خوب اہتمام کیجئے ۔یہ بہت ہی بابرکت عمل ہے ۔اللہ کے راہ میں خرچ کرنے سے مال میں کبھی کمی نہیں بلکہ اس کے برعکس حقیقی اضافہ ہوتاہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ خرچ کرنے والے شخص پر سے مصائب اور تنگی کے خاتمہ کا سبب بھی بنتاہے ۔
’’ماہِ رمضان‘‘ چند دنوں کیلئے وارد ایک مہمان مہینہ ہے ۔’’مہمان ‘‘ کسی مقام پر ایسے نو وارد کو کہتے ہیں جو مستقل اقامت کیلئے نہیں بلکہ چند دنوں کیلئے اترا ہو اور چند دن کے قیام کے بعد وہاں سے کوچ کرجائے ۔اس مہمان یا بزبانِ عرب ’’ ضیف ‘‘ کا اکرام انسانی فطری عمل ہے ۔کوئی بھی ایسی شریعت نہیں جو اس کی ترغیب نہ دیتی ہو۔مہمان جس قدر معزز ومکرم اور ذی وقار ہوگا میزبان اسی حساب سے بڑھ چڑھ کر اس کا اکرام کرے گا۔مہمان کی آمد متوقع اور معین ہو تو میزبا ن کا اس کی پیشگی تیاری کرنا بھی ایک فطری انسانی عمل ہے ۔عظیم المرتبت مہمان کی آمد پر اس کی شایانِ شان استقبال کے ساتھ میزبان کی خوشیاں دوبالا ہوجاتی ہیں ۔جب مہمان کی آمد کچھ وصول کرنے کے بجائے جُو د وسخا اور عطاہی عطا ہو تو پھر آمد سے قبل اس کی تیاری ‘اس کا شایانِ شان استقبال اور اعلیٰ درجہ کی تکریم واکرام یہ انسانی فطری عمل بھی ہے۔ اس مہما نِ مکرم سے ہماری مراد اللہ تعالیٰ کا مہینہ رمضان المبارک ہے اور اس کی آمد کا وقت ماہِ شعبان کا اختتام ہے جس کا ورود انعام ربانی بنکر پوری کائنات ہستی پر ہوتاہے ۔اس عالم میں جہاں جہاں شمس وقمر کی روشنی پہنچتی ہے اور جہاں جہاں لیل ونہار کا عمل وقوع پذیر ہوتاہے یہ مہمان اپنی جملہ برکات بے پایاں جود وسخاوت اور جملہ فضائل وعطا کے ساتھ وارد ہوتاہے اس لئے اس کی قدردانی ،اس کی تکریم وتعظیم اور ترحیب واستقبال جملہ عارفین حقائق اور نعمت ہائے ربانی کے قدردان اہل بصیرت حضرات کی مبارک سیرتوں میں اس کے ورود سے قبل اس کے لئے تیاری اور اس کی آمد پر اس کے شب وروز کے معمولات سا ل کے عام مہینوں سے کہیں مختلف ہوتے ۔
بنیادی طورپر یہ امر یاد رکھنے کے لائق ہے کہ رمضان المبارک کا وہ شہر مبارک ہے جس کی برکات دن کے روزہ یا رات کے احکام کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اس کی لیل ونہار کی تمام گھڑیاں ،اس کی ساعات اور گھنٹوں کے تمام منٹ اور سیکنڈز رحمن کی خصوصی رحمتوں کے مظہر ہوتے ہیں ۔گویا خالقِ زمانہ نے اس کو برکتوں کا زمانہ قراردیا ۔اس ماہ مبارک کی عمومی برکات گزشتہ امتوں کو بھی محیط رہیں ۔
حق تعالیٰ شانہ جو خالق کون ومکان ہیں زمانوں کی خلق انہیں کی صفت ہے ۔انہوں نے اپنے مقدس کلام کو وہ ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے کی شکل میں تھا یا موسیٰ علیہ السلام کی توریت یا داؤد علیہ السلام کی زبور یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی انجیل کی صورت میں تھا ۔وہ سبھی اور خاتم الکتب کی صورت اپنے نبی خاتم پر نازل ہونے والا قرآن سبھی کے نزول کیلئے اسی ماہ ِ مبارک کو اختیار فرمایا ۔گویا ماہِ رمضان کو ہر دور میں کلامِ باری تعالیٰ کے ساتھ خصوصی مناسبت کا شرف حاصل رہا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’رمضان ہی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں نزولِ قرآن ہوا ۔‘‘
نیز فرمایا :
’’ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ ‘‘
حاصل کلام یہ ہے کہ ہمیں اس مکرم مہینے کے بارے میں یہ شعور رہے کہ اس کی تمام گھڑیاں مبارک ساعات ہیں ۔
عموماً لوگ اس مہینہ کے2عمل یعنی دن کو روزہ اور رات کو تراویح اور قیام کا اہتمام تو کرتے ہیں مگر ان میں یہ شعور نہیں ہوتا کہ یہ ماہِ مبارک بتمامہ اور یہ زمانہ بذاتہ شرف ،اکرام اور افضل مہینہ اور زمانہ ہے ۔اس شعور اور یقین کے استحضار کے بغیر اولاً رمضان کی عظمت کے بارے علم ومعرفت ناقص ہے جس کا ادراک کرلینا ضروری ہے ۔
جب ہم اس ماہِ مبارک کی عمومی حیثیت سے ہی واقف نہ ہوں گے تو روزہ اور تراویح کے علاوہ اس کی ہر ہر گھڑی سے استفادہ نہ کرسکیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ صوم وصلاۃ کے پابند حضرات جب اس کی عمومی عظمت اوراس کی ذاتی فضیلت سے غافل ہوتے ہیں تو فرض روزہ کو کس طرح نبھانے کی فکر کرتے ہیں ؟ ۔یا تو وہ اپنے دن کوسونے میں گزارتے ہیں یا پھر بعض حضرات کسی ایسی ہلکی پھلکی تضرع میں، یا بعض اوقات تو غیر مشروع لہو ولعب میں گزاردیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ گویا ماہِ مبارک مہمان نہیں مصیبت ہے ،رحمت نہیں زحمت ہے جسے بہر حال نمٹانا اور نبھانا ہے ۔
ایسا کرنے والے رمضان کے دن کی ذاتی عظمت سے ناواقف ہیں ۔اسی طرح اس ماہ کے ذاتی تقدس سے نا واقف حضرات اس کی رات کے اوائل کو پر تکلف افطاری میں صرف کرنے کے بعد جلدی جلدی تراویح اور قیام وقرأ ت کی رسم کوپورا کرنے کے بعد تمام رات مشروع وغیر مشروع لہو ولعب اور بے تحاشا اکل وشرب میں گزارتے ہیں ۔
یہ در اصل اس ماہِ مبارک کی ذاتی عظمت اس زمانہ کے تقدس کے خلاف ہے جو خالقِ زمان ومکان نے شہر رمضان کے زمانہ میں اپنے خصوصی رحمت سے رکھاتھا تاکہ یہ زمانہ تمام کون ومکان پر آئے تو تمام بنی نوع انسان بلاامتیاز رنگ ونسل اور تمام قومیں اس کی برکات حاصل کرسکیں ۔