” گھر میں روپے پیسے کی کمی نہ تھی ، سلیقے کا فقدان تھا“
فرخندہ شاہد۔ریاض
شادی کے بعد سسرال میں سعدیہ کا کچن میں یہ پہلا دن تھا۔ اس پر کافی گھبراہٹ طاری تھی ۔میکے میں سیکڑوں بار کئے گئے کام اس نئی جگہ پر کرنا مشکل ہو جاتا ہے یہی مشکل آج سعدیہ کو درپیش تھی۔ اس کی شادی کو آج15 دن ہونے کو آئے تھے۔ ان 15 دنوں میں سسرال والوں نے اس کے حتی المقدور چاﺅ اٹھائے تھے لیکن اب شاید ان کی حد یو چکی تھی سو آج صبح جب ناشتہ کے لئے میز پر بیٹھ گئے اور سعدیہ اپنی ساس کا بنا ہوا ناشتہ دسترخوان پر لگا رہی تھی تو ساس،زبیدہ بیگم نے نقاہت بھرے لہجے میں سعدیہ کو مخاطب کیا "بس بہو! اب میری ہمت جواب دے گئی ہے ۔آج تو میں تمہارا خیال کرتے ہوئے کچن میں کھڑی ہو گئی کہ ابھی سے نئی دلہن کو کیا کام پر لگاﺅں لیکن بھئی اب تو میری ہمت جواب دے گئی ہے۔ اب تم جانو اور تمہارا کام ،جوڑوں کے درد نے میرا برا حال کیا ہوا ہے ۔اب تو پانچ منٹ کھڑے رہنا بھی محال لگتا ہے، آج سے کچن تمہارے سپرد ہے۔
ٹھیک ہے، امی میں تو خود ہی آپ سے کہنا چاہ رہی تھی۔ آپ آرام کیا کریں میں سارے کام سنبھال لوں گی ۔سعدیہ نے پورے خلوص سے انہیں یقین دلایا۔ہاں اپنے گھر میں بھی تو ساری ذمہ داری تم پر تھی یہاں تو پھر بھی صفائی کے لئے ماسی آتی ہے۔ کام ہے ہی کیا ہمارے گھر میں۔ زبیدہ بیگم نے لاپروائی سے جتایا اور سعدیہ خاموش رہی۔ اتنا تو ان 15دنوں میں اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ گھر میں ہونے والی چخ چخ کی بڑی وجہ یہ کام ہی ہیں۔
اس کا شوہرعلی اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا ۔اس سے چھوٹا ایک بھائی اور دو بہنیں تھیں۔گھر کی صفائی اور کپڑے دھونے کے لئے ماسی آتی تھی ۔ماسی مشین لگا دیتی تھی لیکن اگلے 2 تین دن کپڑے تاروں پر ہی سوکھتے رہتے اور زبیدہ بیگم اکثر بچوں پرچیختی رہتیں کہ چھت پر سے دھلے کپڑے اتار لائیں ۔بچے نہ سنتے تو ملازمہ کو کہتیں مگر وہ بھی انہی کے گھر کی ماسی تھی۔ مزاج ان لوگوں جیسا ہی پایا تھا۔ حد سے زیادہ سست اور کاہل تھی۔ صاف انکار کر دیتی کہ مجھے بی بی جی کپڑے دھونے کے پیسے دیتی ہیں ،اتار کر لا نے کے تھوڑی دیتی ہیں ۔جب زبیدہ بیگم منت سماجت کرکے اسے مجبور کرتیں تو وہ بھی دھلی ہوئی بیڈ شیٹ میں کپڑوں کا بڑا سا گٹھڑا بنا کر برآمدے میں بچھے تخت پر پٹخ دیتی پھر وہ گٹھڑا کئی دنوں تک وہیں رونق افروز رہتااور ہر بچہ اپنے اپنے کپڑے اس میں سے چھانٹی کرکے بوقت ضرورت نکال لیتا اور استری کر لیتااور اگر کبھی چھوٹا بھائی بہنوں سے کپڑے نکالنے یا استری کرنے کا کہہ دیتا تو قیامت آجاتی کہ اپنے کام خود کیا کرو اور اپنی سہیلیوں کے بھائیوں کی مثالیں دی جاتیں۔
دونوں بہنوں کا ویسے تو اتفاق بہت کم ہی ہوتا تھا لیکن اس معاملے میں دونوں متفق ہو کر بے چارے بھائی کے پیچھے ہی پڑ جاتیں۔
ناشتہ اور کھانا ہفتے میں ایک دو بار بازار سے ہی آتا۔ مرزا صاحب صلح جو طبیعت کے بہت نیک اور متحمل مزاج شخص تھے جبکہ زبیدہ بیگم کافی تنک مزاج خاتون تھیں۔ مرزا صاحب ہی کے مزاج کی وجہ سے دونوں میاں بیوی میں اچھی نبھ رہی تھی۔ مرزا صاحب اکثر فجر کے بعد واک پر نکل جاتے اور واپسی پر اکثر باہر سے ناشتہ لے آتے اور بچوں کو آواز دے کر بلا لیتے۔ علی کو باہر کا ناشتہ اتنا پسند نہیں تھا لیکن احمر، نا دیہ اور شازیہ بہت شوق سے کھاتے اور زبیدہ بیگم بھی ریڈی میڈ ناشتہ بڑے شوق سے کرتیں حالانکہ ان کا وزن بڑھتا جارہا تھا اور بیماریاں جان کو چمٹی جارہی تھیں لیکن مجال ہے جو باہر کے مرغن کھانوں سے ذرا پرہیز کرتیں۔ وہ ان عورتوں میں سے تھیں جو بیماریوں کو ذرا بڑھا چڑھا کر بیان کر نے کے ساتھ ساتھ تندرستی کی حالت میں بھی خود پر زبردستی بیمار ی طاری رکھتی تھیں۔ گھر میں روپے پیسے کی کمی نہ تھی لیکن سلیقے کا فقدان تھا۔ زبیدہ بیگم کو بس دوپہر کا کھانا بنانا ہوتا تھااوروہ وافر مقدار میں بنا لیتیں۔ دو وقت سب کوکھلا کر باقی فریزر میں رکھ دیتیں اور 2 تین دن بعد وہی کھانا گرم کر کے کھلادیتیں۔ یہ ان کا معمول تھا۔
سب سے بڑا بیٹا علی جب پڑھائی لکھا ئی سے فارغ ہو کر برسر روزگار ہوا تو مرزا صاحب اور زبیدہ بیگم کو اپنے بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کی خواہش بیدار ہوئی۔ سو دو چار رشتے دیکھنے کے بعد زبیدہ بیگم کا دل سعدیہ پر آگیا۔ وہ متوسط گھرانے کی پڑھی لکھی اور خوبصورت لڑکی تھی۔ سلجھی ہوئی فیملی سے تعلق تھا۔ والد ایک سرکاری افسر تھے اور امی کم پڑھی لکھی لیکن بہت ہی سگھڑ گھریلو خاتون تھیں۔ سعدیہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔تعلیم سے فارغ ہوئی تو سوچا تھا کہ جاب کرے مگر والدین کی خواہش تھی کہ کوئی اچھا بر ملے تو بیٹی کے ہاتھ پیلے کر دے۔ علی کا رشتہ آیا تو والدین کو یہ رشتہ کافی معقول لگا اورہاں کر دی کیونکہ علی خوش شکل، برسر روزگار، پڑھا لکھا ،شریف لڑکا تھا۔ بس 3 مہینے کے اندر اندر سب کچھ طے پایا اور سعدیہ ، علی کے ہمراہ رخصت ہو کر سسرال پہنچ گئی۔
شریک حیات کے طور پر علی ایک بہتر ین انسان تھے۔ سعدیہ کے ماں باپ نے اس کے لئے یقینا ایک بہترین شخص کا انتخاب کیا تھا اور جہاں تک سسرال والوں کا تعلق تھا تو امی نے اسے سمجھا کر بھیجا تھا کہ کسی بھی لڑکی کا سسرال آئیڈئل نہیں ہوتا۔ لڑکی خود اپنی سمجھ داری اور معاملہ فہمی کی وجہ سے سسرال میں جگہ بناتی ہے اور یہی لڑکی کی صلاحیتوں کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ شادی کے2 تین دن بعد سے ہی اس نے گھر والوں کے ساتھ گھل مل کر چھوٹے چھوٹے کام کرنا شروع کر دئیے تھے۔ دور دراز سے آئے مہمان بھی ابھی تک گھر میں مقیم تھے۔ سو اتنے دن تو اسے دلہنوں والا پروٹوکول دیا گیا اور مہمانوں کے جاتے ہی آخر پندرہویں دن اسے کچن کا چارج دے ہی دیا گیا۔
خیر سعدیہ کو تو اچھا لگا کیونکہ جب گھر کے کاموں کے لئے ان کا آپس میں ہنگامہ برپا ہوتا تو اسے خواہ مخواہ اپنا آپ قصور وار لگتا۔ اس کے میکے میں ہر کام بہت نظم و ضبط اور سلیقے انجام پاتا تھا اور سعدیہ نے تو بہت چھوٹی عمر سے اپنی امی کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا تھا۔ ان کے گھر میں مل جل کر کام نمٹایاجاتا تو فٹافٹ سب کام نبٹ جاتا مگر سسرال میں معا ملہ الٹ تھا۔
جب سعدیہ ایک بار کچن میں گھسی تو کسی اور نے پھر جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی حالانکہ وہ یہاں پہلی بار کام کر رہی تھی۔ بے ترتیب کچن میں اسے چیزوں کے ٹھکانوں کا معلوم کرناواقعی پریشان کر رہا تھا اور وہ بہت نروس ہو رہی تھی۔ پہلی بار وہ جتنا اچھا بنانا چاہ رہی تھی شاید اتنا اچھا بن نہ سکا لیکن پھر بھی بہت اچھا کھانا بنا لیکن زبیدہ بیگم نے کھانا کھاتے ہوئے طنز کر ہی ڈالاکہ بہو! تمہارے گھر میں جب بھی کھانا کھایا یہی بتایا جاتاتھا کہ تم نے بنایا ہے ۔سچ سچ بتاﺅ، تمہاری امی بناتی تھیں یا بازار سے آتا تھا کیونکہ یہ تو ویسا بالکل بھی نہیں ۔
سعدیہ بے چاری یہ سن کر پانی پانی ہو گئی اور اگلے دن اس نے بہت دل لگا کر کھانا بنایا اور کھانا واقعی بہت زبردست بنا لیکن سب نے چپ کر کے کھا لیا اور تعریف کے دو بول بھی نہ بولے اور جب وہ کھانے کے بعد برتن سمیٹ رہی تھی تومرزا صاحب نے بڑے پیار سے کہاکہ بیٹی اب گرم گرم چاے بھی پلادو اور جتنا مزیدار کھانا کھلایا ہے چائے بھی ایسی ہی ہونی چاہئے۔
اتنی سی حوصلہ افزائی سے سعدیہ کا دل سرشار ہو گیا۔ وہ بڑے پیار اور ادب سے بولی کہ ابھی بنا کے لائی ابو۔زبیدہ بیگم سے سعدیہ کی یہ پذیرائی ہضم نہ ہوئی۔ انہوں نے شوہر کے جملے کا اثر زائل کرنا ضروری سمجھاچنانچہ جھٹ بولیں کہ چاولوں میں معمولی سی کسر باقی رہ گئی تھی۔ آئندہ ذرا خیال رکھنا ،میرا معدہ ویسے ہی بگڑا اہتا ہے۔کھانے میں ذرا سی بھی اونچ نیچ ہو جائے تو درد ہونے لگتا ہے ۔سعدیہ نے بڑی فرمانبرداری سے جواب دیاکہ جی امی جان! آئندہ خیال رکھوں گی۔
زبیدہ بیگم نے کھانے میں نادیدہ نقص ڈھونڈ نکا لا تھاحالانکہ پلاﺅ بہت زبردست بنا تھا۔ اگلی دفعہ جب چاول تھوڑے سے ڈھیلے رکھے تھے تو نادیہ اور شازیہ نے خوب مذاق اڑایا تھا کہ یہ کیا بنا کر رکھ دیا چاولوں کا ،ہم کوئی مریض تو نہیں ہیں کہ کھچڑی کھائیں۔ شرمندگی سے سعدیہ کا چہرہ لال ہو گیا لیکن وہ چپ رہی۔
وہ جتنا دل لگا کرکھانا پکاتی، زبیدہ بیگم کوئی نہ کوئی نقص ضرور نکالتی۔ ایک دن تنگ آکر اس نے اپنی امی سے مشورہ طلب کیا۔بیٹا تم اپنی ساس سے طریقہ پوچھ کر کھانا بنایا کرو ۔امی نے پیار سے سمجھایا۔امی پلیز! ڈانٹئے گانہیں کہ میں اپنی ساس کی برائی کر رہی ہوں لیکن انہیں پکانا بالکل نہیں آتا۔ ان کی پکائی ہوئی ہر چیز اتنی بے ذائقہ ہوتی ہے۔ اگر ان کے مشورے سے پکانے لگی تو میں خودکھانا پکانا بھول جاﺅں گی۔سعدیہ روہانسی ہو گئی ۔میں نے یہ کب کہا بیٹا کہ تم ان کے طریقے سے پکاﺅ۔ میں نے صرف یہ کہا ہے کہ تم ان سے طریقہ پوچھ کر پکاﺅ یعنی صرف پوچھنے کی حد تک مگر ویسے اپنے طریقے سے پکاﺅجوتمہیں خودمناسب لگے۔سعدیہ کا دماغ چکرا گیا۔
(باقی آئندہ)